نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان بنیادی طور پر انگریزی صحافت کا بڑا نام رہی ہیں۔ بعد ازاں سیاست کی نذر ہوگئیں۔ میرے عزیز ترین دوستوں میں شامل ہیں۔ انہیں ’’سیاسی‘‘ ہونے کے باعث ذاتی ملاقاتوں میں اکثر طعنے دیتا رہتا ہوں۔ وہ کھلے دل سے میرے پھکڑپن کو برداشت کرلیتی ہیں۔ اتوار کی صبح اخبارات دیکھنے کے بعد مگر یہ اعتراف کرنے کو مجبور ہوں کہ ایک باقاعدہ بیان کی بدولت وہ اپوزیشن کی واحد سیاست دان ثابت ہوئیں جنہوں نے فنانشل ایکشن فورس (FATF) کی جانب سے پاکستان کو بدستور اپنی گرے لسٹ میں رکھنے کی بابت کلیدی سوال اٹھائے ہیں۔ ان کا محض ایک بیان ہی اس ضمن میں مگر کافی نہیں ہے۔ حال ہی میں چند قوانین کو انتہائی عجلت میں منظور کروانے میں حکومت کو تمام تر تعاون فراہم کرنے کے بعد مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی کے تمام اراکین پارلیمان کی اب یہ اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ قومی اسمبلی اور سینٹ کے رواں اجلاس میں پوری یکسوئی سے حکومت کو اس حوالے سے کماحقہ وضاحتیں دینے کو مجبور کرے۔ حزب مخالف کے اراکین پارلیمان سے اپنا فرض ادا کرنے کی امید باندھتے ہوئے بطور صحافی مجھے یہ اعتراف بھی کرنا ہوگا کہ ہمارے میڈیا نے پاکستان کی اکثریت کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نامی ادارے کی اہمیت کے بارے میں مناسب انداز میں آگاہ نہیں کیا۔ اس کی ’’گرے لسٹ‘‘ میں شامل ہونا ہماری معیشت کے لئے جو مشکلات کھڑی کرتا ہے ان کی تفصیلات بھی ہم سادہ اور آسان زبان میں بیان کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ ہماری کوتاہی کے سبب حکومت یہ کہانی پھیلانے میں کامیاب رہی کہ فقط ہمارا ازلی دشمن -بھارت- ہی پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی ’’بلیک لسٹ‘‘ میں دھکیلنے کو مرا جارہا ہے۔ 21 اور 23 اکتوبر کے دوران ہوئے FATF کے اجلاس میں وہ یہ ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ پاکستان کو لہذا ’’سفارتی فتح‘‘ حاصل ہوگئی۔ گرے لسٹ میں ٹکے رہنا اگرچہ ہماری ’’سفارتی فتح‘‘ ہرگز نہیں۔ حال ہی میں دس کے قریب قوانین کو انتہائی عجلت میں منظور کروانے کے باوجود ہماری اس لسٹ میں موجودگی بلکہ حکومت کے لئے خفت کا باعث ہونا چاہیے۔پاکستان کی معیشت کے لئے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے ذریعے جو مسائل کھڑے کئے گئے ہیں اس کالم میں ان کا تذکرہ گزشتہ تین برس سے ہوتا رہا ہے۔ میرا اصرار رہا کہ فقط ’’منی لانڈرنگ ‘‘ہی FATF کا درد سر نہیں۔ اصل سوال Terror Financing یعنی ’’دہشت گردی کی سرمایہ کاری‘‘ کے نام پر اٹھائے جارہے ہیں۔ بھارت یہ سوال اٹھانے میں تنہا نہیں۔ برطانیہ اور فرانس اس ضمن میں کافی متحرک ہیں۔ اس کے علاوہ ’’ہاتھی کے پائوں میں سب کے پائوں‘‘ والا امریکہ بھی ہے اور ان تینوں ممالک کا اصل مسئلہ بنیادی طورپر افغانستان ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر War on Terror مسلط کی۔ 20سال گزرجانے کے باوجود مگر وہ یہ جنگ جیت نہیں پائے۔ سینکڑوں جانوں کے زیاں اور اربوں ڈالر اس جنگ میں جھونک دینے کے بعد بھی اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ بالآخر طالبان سے مذاکرات کو مجبور ہوئے۔ انہیں مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے پاکستان پر دبائو بڑھانا لازمی تھا۔ FATF کو اسی تناظر میں ہمارے خلاف حرکت میں لایا گیا تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں حقوقِ انسانی کے لئے کئی برسوں سے جاری جدوجہد کو کمزور کرنے کے لئے بھارت کو بھی اس ضمن میں اپنا ’’لچ‘‘ تلنے کا موقعہ مل گیا۔ عالمی سیاست میں ’’اصول‘‘ فقط کتابوں میں لکھتے ہوتے ہیں۔ ’’منی لانڈرنگ‘‘ یا ’’دہشت گردی کی سرمایہ کاری‘‘ واقعتا پریشان کن اُمور ہوتے تو امریکہ زلمے خلیل زاد کے ذریعے طالبان کے ان رہ نمائوں کے ناز نخرے نہ اٹھاتا جنہیں اس کی حکومت اور اقوام متحدہ نے ’’دہشت گردوں‘‘ کی فہرست میں ڈال رکھا تھا۔ طالبان کو مذاکرات کی جانب مائل کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کے بعد پاکستان کا یہ حق تھا کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس اس کے ساتھ بھی نرم رویہ اختیار کرے۔ مطلوبہ نرمی کسی حد تک عمل پیرا ہوتی نظر آرہی ہے۔ ہم مگر Do More کا تقاضہ نہیں کرپائے۔
اپوزیشن سے اندھی نفرت عمران حکومت کو وہ امکانات دیکھنے کی مہلت ہی نہیں دیتی جو طالبان کو امریکہ سے مذاکرات پر قائل کرنے کے بعد ہمارے لئے نمودار ہوئے ہیں۔ ان سے فائدہ اٹھانے کی حکمت عملی تو بہت دور کی بات ہے۔ فنانشل ایکشن فاسک فورس کی جانب سے بڑھتے دبائو کو بلکہ حکومتی ترجمانوں کے غول نے اس انداز میں پیش کیا کہ ہمارے عوام کی اکثریت یہ تصور کرنے کو مجبور ہوجائے کہ جیسے نوازشریف اور آصف علی زرداری کی ’’لوٹ مار‘‘ نے ہمیں اس ادارے کی گرے لسٹ میں دھکیلا تھا۔ حکومت نے یہ تاثر بھی پھیلایا کہ نیب کو میسر بے پناہ اختیارات ’’کرپٹ سیاست دانوں‘‘ کاکڑا احتساب کرنے کے لئے ناکافی ثابت ہورہے ہیں۔ اسی باعث ’’منی لانڈرنگ‘‘ کے خلاف نئے اور سخت ترین قوانین متعارف کروانے کی دہائی مچائی گئی۔ یہ دہائی مچ گئی تو ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ میں اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں پر ’’منی لانڈرنگ‘‘ سے نبردآزماہونے والے قوانین کی منظوری کے لئے سرجھکا کر انگوٹھے لگانے کے لئے دبائو بڑھایا گیا۔
ٹھوس حقیقت یہ بھی رہی کہ نیب سے گھبرائی اور ٹی وی سکرینوں پر ’’فیک اکائونٹس‘‘ کی بابت مچائی دہائی کی بدولت بوکھلائی اپوزیشن جماعتیں اس تناظر میں اپنا کردار ادا کرنے میں قطعاََ ناکام رہیں۔ حکومت کی جانب سے متعارف کردہ ’’منی لانڈرنگ‘‘ والے قوانین کی اہم شقوں کے مضمرات کو پارلیمان کے اجلاسوں میں صراحت سے بیان کرنے کی ضرورت تھی۔ وہ بیان ہوجاتے تو ہمارے عوام کی اکثریت کو بآسانی علم ہوجاتا کہ حکومت کے تیار کردہ قوانین محض ’’کرپٹ سیاستدانوں‘‘ کی زندگی ہی اجیرن نہیں بنائیںگے۔ مذکورہ قوانین کا اطلاق بلکہ ہمارے ہاں موجود کئی دھندوں پر کامل جمود بھی مسلط کرسکتا ہے۔
آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر کا ’’امدادی پیکیج‘‘ حاصل کرنے کی خاطر ہم نے اپنی معیشت کو ’’دستاویزی‘‘ بنانے کے نام پر پہلے ہی انتہائی عجلت میں ایسے اقدامات لئے جو بازار کی رونق ماند کرنے کا سبب ہوئے۔ زیادہ سے زیادہ محاصل جمع کرنے کے جنون نے سرمایہ کاروں کو بجائے نئے کاروبار متعارف کروانے کے ڈالر اور سونے کو خرید کر ذخیرہ کرنے کی جانب مائل کیا۔ بازار کی کساد بازاری اپنی جگہ برقرار تھی تو کرونا کی وباء پھوٹ پڑی۔ اس وباء نے پاکستان ہی نہیں دُنیا کے امیر ترین ممالک کی معیشتوں پر بھی جو قیامت برپا کی ہے وہ ہر ملک کے حکمرانوں کو ’’دستاویزی معیشت‘‘ اور محاصل کے حصول کی بابت نرمی اختیار کرنے کو مجبور کررہی ہے۔ حکومتِ پاکستان کو بھی ایسا ہی رویہ اختیار کرنے کی ضرورت تھی۔ شریف خاندان اور آصف علی زرداری جیسے ’’سیاسی مخالفین‘‘ کو تاہم عمر بھر جیل میں رکھنے کی ضد نے حکومت کو نام نہاد ’’منی لانڈرنگ‘‘ کے خلاف سخت ترین قوانین متعارف کروانے کا بہانہ فراہم کردیا۔ ان قوانین کی سرعت سے منظوری بھی لیکن ہمارے کام نہیں آئی۔ پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے یا وہاں سے نکالنے والا سوال فروری تک مؤخر کردیا گیا ہے۔ دریں اثناء آئندہ ہفتے امریکہ میں صدارتی انتخاب ہونا ہے۔ رائے عامہ کے سروے بائیڈن کو کامیاب ہوتا دکھارہے ہیں۔ عام آدمی کا ووٹ ہی مگر امریکہ میں صدارتی انتخاب کا کلیدی انداز میں فیصلہ نہیں کرتا۔ ’’الیکوڑیل کالج‘‘ حتمی کردار ادا کرتا ہے۔ ٹرمپ کے حامیوں کو گماں ہے کہ وہ اس ’’جگاڑ‘ کو اپنے حق میں استعمال کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ آئندہ منگل کے روز صدارتی انتخاب مگر بائیڈن جیتے یا ٹرمپ فریقین کو بآسانی ہضم نہیں ہوگا۔ بہت فکرمندی سے امریکی معیشت کا عالمانہ انداز میں جائزہ لینے والے لکھاری مسلسل اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ منگل کے روز ہونے والا انتخاب امریکہ میں طویل المدتی انتشار وخلفشار کا باعث ہوسکتا ہے۔ امریکہ کے علاوہ برطانیہ اور فرانس بھی کرونا کے ’’دوسرے حملے‘‘ کے باعث بے بس ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ایسے ماحول میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس بھی کافی عرصے تک غیر مؤثر ہوجائے گی۔افراتفری کے ممکنہ موسم کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لیتے ہوئے ہمیں اپنے ہاں محض ’’منی لانڈرنگ‘‘ پر قابو پانے والے کڑے قوانین کے انتہائی عجلت میں اطلاق سے گریز کرنا چاہیے تھا۔ حزب مخالف کو ہر صورت دیوار سے لگانے کا جنون مگر ہمیں اس امرپر غور کرنے کی مہلت ہی نہیں دے پایا۔سے محروم ہوجائیں گے۔ ایسے سوالات مگر ہمارے میڈیا میں اٹھائے نہیں جارہے۔ ’’غداری‘‘ کے چرچے ہیں۔اس کے سوا ہمیں کوئی اور درد محسوس ہی نہیں ہورہا۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ