عفت حسن رضوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کراچی میں ن لیگ کی نہ شاخیں ہیں اور نہ ہی جڑیں۔ ہاں کراچی میں دل و جان سے چند ن لیگی ضرور ہیں، جن میں چچا گیرو بھی ایک ہیں۔ ادھیڑ عمر چچا گیرو کا تعارف اتنا ہی غیر ضروری ہے جتنا کہ ن لیگ کے لیے اس وقت عمران خان۔
میں نے چچا سے کراچی میں ن لیگ کی دو روزہ زندگی پر بطور ایک کارکن تبصرہ طلب کیا۔ چچا گیرو نجانے کس موڈ میں تھے۔ کہنے لگے، ”اورماڑہ میں پتہ ہے نا کتنے فوجی جوان شہید ہوئے؟‘‘ میں چپ ہو گئی کیونکہ یہ سانحہ گزشتہ ہفتے کی سیاسی خبروں میں کہیں دب سا گیا تھا۔ ’’بیٹی تمھیں یہ تو معلوم ہے نا اورماڑہ کہاں ہے ؟‘‘ ان کے لہجے میں طنز تھا۔
بلوچی لوک گیت ‘وشملے‘ اور وہاب بگٹی کا نغمہ ’اے میری زمین افسوس نہیں‘ اچھا لگتا ہے۔ اکبر بگٹی کا معاملہ، بلوچ علیحدگی پسند تحریک، کوئٹہ کی ہزارہ کمیونٹی، لاپتا افراد، ریکوڈک میں چھپا سونا، قاضی فائز عیسیٰ اور سی پیک منصوبہ، اس بارے میں جو اطلاعات خبروں کے ذریعے ملیں، میرے پاس وہی سرسری سی معلومات ہیں۔
میں نے کمال مہارت سے اپنی کم علمی کا ملبہ دوسروں پہ بھی ڈال دیا اور بغیر لگی لپٹی کے سچ سچ کہہ دیا، ’’بلوچستان کے بارے میں جتنی کسی بھی عام پاکستانی کو معلومات ہیں، مجھے بھی اتنا ہی علم ہے۔‘‘
اپوزیشن کی سیاست پر عمومی بات چیت ہوئی اور فون بند ہو۔ چچا گیرو کے سوالات اپنا کام دکھا گئے تھے۔ واقعی ڈیڑھ کروڑ کی آبادی والے بلوچستان میں بسے بلوچ ، پشتون اور ہزارہ پاکستانیوں سے ہمارا رابطہ کس قدر مضبوط ہے کبھی اس سوال پہ غورہی کیا ؟
کسی زمین کو سمجھنے کے لیے اس کے باسیوں کے ادب کو پڑھیں، تو اس مٹی سے انسیت سی ہونے لگے گی۔ میں نے پہلی بار بلوچی لکھاری اور شعراء کا کام ڈھونڈنا شروع کیا۔ معلوم ہے مجھے کیا ملا ؟ محبت یا مزاحمت۔
مکران کے عطا شاد کو پڑھیے، یہ ابھی نوے کی دہائی میں ہمارے ساتھ ہی تھے:
صدیوں کا محروم، ہزاروں عمروں کا ناکام وہ اک انسان ، بولان ہو جیسے
عصر حاضر کے شاعر بقا بلوچ کے کلام کو کھنگالیں :
کوئی بیگانہ جو ہوتا تو گلہ بھی کرتے، یاں تو اپنوں نے ہی لوٹا ہے شبستاں اپنا
میں لکھتی رہوں گی شکووں اور مزاحمت سے بھرپور بلوچی شعراء کا کلام آپ پڑھتے رہیں گے۔
لیکن بلوچی زبان کے فیض احمد فیض کے نام سے مشہورگل خان نصیر کا یادگار کلام بھلا کیسے نظر انداز کریں :
کیسے مانوں کہ لوگوں کی حکومت ہوگی جبکہ مسند پہ جمے بیٹھے ہیں سردار وہی
کیسے مانوں کہ یہاں ختم رعونت ہوگی جبکہ فرعون بنے بیٹھے ہیں زردار وہی
ہم ایسے کم ہمت، لاعلم ، بے پروا لوگ ہیں کہ بلوچستان کی جس زمین کے اندر اور اوپر ہیرے بکھرے پڑے ہیں ہم نے انہیں خاک کر دیا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں کی بات ہے، تعلیمی اسکالرشپس کی بحالی کے لیے بلوچ طلبہ نے لانگ مارچ کیا، لیکن ہم لاتعلق سے رہے۔
وہاں پرائمری سے یونیورسٹیوں تک تعلیم کس زبوں حالی کا شکار ہے، اس پہ بات بھلا کون کرے اور کیوں کرے۔ بلوچستان میں صحت کی سہولیات ہیں بھی کہ نہیں یہ بھی ہماری دلچسپی کا موضوع نہیں۔
بلوچستان میں یونیورسٹیوں کے طلبہ مطالبات کر کر کے تھک ہار بیٹھے کہ کورونا کے دنوں میں جو آن لائین کلاسز کا فیصلہ ہوا ہے، تو بتائیں جس علاقے میں بجلی نہیں، موبائل سگنل نہیں وہاں انٹرنیٹ پر کلاس کیسے لیں؟ یہ مسئلہ بھی کسی قومی سطح کے سیاستدان کو بلوچستان کی جانب مائل نہیں کر سکا۔
جو بلوچ قسمت کی مہربانی اور اپنی محنت سے پڑھ بھی لیں تو نوکری ڈھونڈنا، اس کے لیے دیگر صوبوں اور بڑے شہر والوں کی نسبت زیادہ بڑا چیلنج ہے۔ نوکری مل جائے تو اپنی اور اپنے خاندان کی جان و مال کی حفاظت اور خوشحالی کے لیے بلوچستان سے ہجرت کرجانا سب سے پہلی ترجیح ہوتی ہے۔
بلوچستان کے معاملے میں ہمارے میڈیا کی شان بے نیازی کے تو کیا کہنے۔ سیاست دان بھی پاکستان کے اس جنوب مغربی صوبے اور اس کے سیاسی و معاشی مسئلوں پر زبان کھولنے سے کتراتے ہیں۔
سی پیک منصوبے کا کریڈٹ لینے کی ایک دوڑ سی ہے لیکن کوئی سیاسی لیڈر یہ نہیں بتائے گا کہ اس نے کتنی بار گوادر کے قدیم رہائشی علاقوں یا پھر ملک کے چولہے جلانے والے علاقے سوئی کا دورہ کیا، وہاں کے معاملات کو سمجھنے کی کوشش کی۔
بلوچ نوجوانوں کو اس مٹی سے پیار ہے، وہ سسٹم سے نالاں ہیں۔ وہ معاشرتی ناانصافی کے خلاف بولتے ہیں۔ وہ ہمارے چپ رہنے پہ نالاں ہیں۔ وہ بہتری کے خواہاں ہیں لیکن نظر انداز کیے جانے والے رویوں سے نالاں ہیں۔
یہ نوجوان بلوچ لاپتا افراد کے پتے بھی پوچھتے ہیں اور سانحہ اورماڑہ میں نشانہ بننے والے پاکستانی فوج کے جوانوں پر غمگین بھی ہیں۔
اگر واقعی بلوچستان کی زمین پہ پاکستانیوں کے خون کو بہنے سے روکنا ہے، تو مسائل کی جڑ تک پہنچنا ہو گا، اگر علیحدگی پسند مسلح تحریک کو ختم کرنا ہے تو ہمیں ان معاشی اور معاشرتی ناانصافیوں، لاتعلقی کے عمومی رویوں اور سیاسی حقیقتوں پرکھل کر بات کرنا ہوگی، ان کا عسکری نہیں سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔
بلوچستان کے قدرتی وسائل، امن و امان کے مسائل اور بلوچ قبائل، بس یہی تین معاملے ہیں، جن میں ساری کہانی پنہاں ہے۔ ان معاملات میں درد چُھپا ہے اور درد کا علاج بھی۔ بلوچستان کے مسئلے پر بات چیت کے لیے کسی سانحے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ وہ جو آغازِ حقوق بلوچستان نام سے ایک سیاسی پیکج متعارف کرایا گیا تھا، وہ آتی جاتی حکومتوں کے بیچ نامکمل سا رہ گیا۔
کچھ اور نہیں کم از کم اسی کو مستقل قومی پالیسی بنالیں۔ کریڈٹ کا کوئی چکر ہے تو اس کا نام بدل دیں لیکن کسی نتیجے پر تو پہنچیں، قومی ترجیحات میں بلوچستان کی بات تو کریں۔
سیاست دان اپنی سیاست جانیں، اسٹیبلشمنٹ اپنا زور بازو دیکھے، ماہرین معاشیات نفع نقصان ناپیں لیکن ہم لکھنے لکھانے والے لوگوں کو آواز بلند کرتے رہنا ہو گا۔ اس گرداب کو، اس سراب کو ، اور بے سمت دائرے کو کہیں سے تو ٹوٹنا ہوگا۔
کوئی ایسا سماجی مسئلہ نہیں ہے، جس کا حل خود انسان کے پاس نہ ہو، بے شک وہ اپنے ہی دشت میں بھٹکتے بلوچستان کا مسئلہ ہی کیوں نہ ہو۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر