محمد شعیب عادل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکی صدارتی الیکشن مہم دنیا کی مہنگی ترین مہم خیال کی جاتی ہے۔اور صدارتی امیدوار یہ رقم پلے سے نہیں دیتے بلکہ وہ اپنے حمایتیوں سے حاصل کرتے ہیں۔ عمومی طور پر ری پبلکنز کو بڑی کارپویشنز اور کاروباری اداروں کی طرف سے فنڈ ملتے ہیں جبکہ ڈیموکریٹس کو چند ایک بڑی کارپوریشنز ہی فنڈ دیتی ہیں لیکن چھوٹے کاروبار اور عام شخص زیادہ فنڈز دیتا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ڈیموکریٹس عوامی فلاح و بہبود کی پالیسیوں کو مدنظر رکھتے ہیں۔تقریباً ہر امریکی الیکشن میں ری پبلکن امیدوار کو ڈیمو کریٹک امیدوار سے زیادہ فنڈز ملتےہیں۔ لیکن اس دفعہ معاملہ الٹ ہے۔
ڈیموکریٹک امیدوار جوبائیڈن نے پارٹی کی طرف سے باضابطہ امیدوار نامزد ہونے کے بعد الیکشن مہم کے لیے فنڈز کی اپیل کی تھی جوبائیڈن نے اب تک 650.6 ملین ڈالر سے زیادہ رقم اکٹھی کی ہے جو کہ کسی بھی ڈیموکریٹک امیدوار کے لیے سب سے زیادہ ہے جبکہ صدر ٹرمپ نے اب تک487.8 ملین ڈالر رقم اکٹھی کی ہے۔
الیکشن مہم کے لیے جو فنڈ اکٹھا کیا جاتا ہے یہ امیدواروں کی الیکشن مہم پر ہی خرچ ہوسکتا ہے جس میں امیدوار اور ان کے سٹاف کے سفری اخراجات کے علاوہ ایڈورٹائزنگ کی مد میں خرچ ہوتےہیں اور اس کا مکمل ریکارڈ رکھا جاتا ہے اور باقاعدہ آڈٹ ہوتا ہے۔
عمومی طور پر اس فنڈ میں ہیر پھیر کی کوئی شکایت نہیں ملتی لیکن صدر ٹرمپ کی 2016 کی انتخابی مہم میں کئی ملین ڈالر کی ہیر پھیر ہوئی اور اس سلسلے میں ان کی مہم کے ایک اہم رکن مائیکل کوہین کو جھوٹ بولنے اور ہیر پھیر کے الزام میں تین سال کی قید کی سزا ہوچکی ہے۔ مائیکل کوہین صدر ٹرمپ کے وکیل بھی ہیں اور ان پر یہ الزام تھا کہ انھوں نے الیکشن مہم کی رقم سے ان خواتین کو خاموش کرانے کے لیے رقم دی ہے جنھوں نے صدر ٹرمپ پر جنسی ہراسگی کا الزام لگایا تھا جس پر عدالت نے انہیں سزا سنائی۔ رقم کا معاملہ ابھی زیر سماعت ہے مگر صدر ٹرمپ کے وکلامختلف قانونی شقوں یا لوپ ہولز کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس معاملے کو لٹکا رہے ہیں۔گراف میں دی گئی رقم اگست تک کی ہے۔۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر