مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے پشتو نہیں آتی لیکن اس سے پیار ہے کیونکہ یہ میرے پیارے دوستوں کی زبان ہے۔ سرائیکی کتنی میٹھی زبان ہے! یا شاید اس لیے شہد جیسی لگتی ہے کہ میں نے سرائیکی علاقے میں جنم لیا۔ سندھی اس لیے کانوں میں رس گھولتی ہے کہ میں نے سندھ میں تہائی صدی گزاری۔ بلوچی، براہوی، کشمیری اور شنا بھی میری زبانیں ہیں، اگرچہ میں اپنی بدقسمتی سے انھیں بول نہیں سکتا۔ اردو اور انگریزی کے علاوہ پنجابی ایسی زبان ہے جو سمجھ لیتا ہوں اور تھوڑی بہت بول لیتا ہوں کیونکہ دل کی بات کہنے میں اس سے بہتر کوئی زبان نہیں دیکھی۔
مجھے اردو کا اہل زبان ہونے پر فخر ہے لیکن یہ احساس بھی کہ میں دوسری زبانیں بولنے والوں سے کچھ کمتر ہوں، اس لحاظ سے کہ انھیں مجھ پر کم از کم ایک زبان کی برتری حاصل ہے۔ میرے کئی دوست چار چار چھ چھ زبانیں بول سکتے ہیں۔ اس معاملے میں ایک مطالعہ کرنے والے اور لکھنے والے سے زیادہ کم مائیگی کا احساس کسی کو نہیں ہوسکتا۔
اردو ہم سب کو جوڑتی ہے، دل ملاتی ہے۔ اس خیال سے قرار آجاتا ہے۔ کچھ لوگ اردو کو برا بھلا کہتے ہیں۔ لیکن دلچسپ بات ہے کہ انھیں یہ کام بھی اسی زبان میں کرنا پڑتا ہے ورنہ ان کی بات آگے نہیں پہنچتی۔ اردو سے محبت کرنے والوں کو اس بات پر خوش ہونا چاہیے۔
عوامی شعور بڑھنے کے ساتھ یہ مطالبہ بڑھ رہا ہے کہ ہمارے بچوں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم ملنی چاہیے۔ میں اس مطالبے کی حمایت کرتا ہوں۔ لیکن مجھے خدشہ ہے کہ پھر بہت سے بچے میری طرح اکہرے رہ جائیں گے۔ وہ ایک زبان کے اسیر بنے رہیں گے۔ زبانیں سیکھنے کا درست وقت بچپن ہوتا ہے۔ ہمیں مادری زبان کی نصابی کتابوں سے زیادہ اچھے اساتذہ کی ضرورت ہے۔
جرمنی اور فرانس کے لوگ تاریخی طور پر انگریزی کے معاملے میں متعصب رہے ہیں۔ ان کی زبانیں بھی ان کے ملک سے باہر بہت سے ملکوں میں بولی جاتی ہیں۔ اس کے باوجود وہاں انگریزی کا چلن بڑھ رہا ہے۔ رابطے کی زبان کے طور پر اس کی اہمیت بڑھ رہی ہے۔ گلوبل ولیج کے کثیر القومی اداروں میں انگریزی بولنے سمجھنے والے کو آسانی سے ملازمت مل جاتی ہے۔
ہمارے کچھ دوست مادری زبان کو فروغ دینے کے لیے سوشل میڈیا پر اسے استعمال کرتے ہیں۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ لیکن یوں بھی ہے کہ مجھ جیسے دوست ان کی بات نہیں سمجھ پاتے۔ سوشل میڈیا کا مقصد بات دور تک پہنچانا ہے، اسے محدود کرنا نہیں۔ اگر آپ محدود حلقے سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں تو یہ آپ کی چوائس ہے۔
ایک اور بات کہ ہم اظہار کی آزادی کے قائل ہیں۔ بطور صحافی تمام حکومتوں سے یہی مطالبہ ہے۔ بلکہ سوشل میڈیا پر سرگرم ہر شخص اس جدوجہد میں شریک ہے۔ ہم محمود اچکزئی یا اردو کے مخالف کسی بھی شخص کی بات کو رد کرسکتے ہیں لیکن اسے اختلاف کے حق سے محروم نہیں کرسکتے۔ نہ اسے یہ کہہ سکتے ہیں کہ اردو مت بولو۔ نہ یہ کہنا چاہیے کہ افغانستان جاؤ۔
شاید دنیا میں بہت کم لوگ یہ بات کہتے ہیں، اور میں ان سے متفق ہوں یا ان میں شامل ہوں، کہ ہر شخص کو اپنی ریاست کا انکار کرنے کا حق ہوتا ہے۔ اس کے آئین کے انکار کا حق ہوتا ہے۔ ریاست سے انکار کرنے والا شخص بے وطن نہیں ہوجاتا کیونکہ وطن کا تعلق مٹی سے ہوتا ہے۔ آئین سے انکار کرنے والا غدار نہیں ہوجاتا کیونکہ آئین شہری کے ساتھ سماجی معاہدہ ہے۔ اگر کوئی اس معاہدے سے مطمئن نہیں تو اسے انکار کا حق ہے۔ اسے ریاست کو بہتر بنانے، آئین کو تبدیل کرنے اور اپنی مرضی کا معاشرہ دیکھنے کے لیے جدوجہد کرنے یا خیالات کا اظہار کرنے کا حق ہوتا ہے۔
جہاں تک ہتھیار اٹھانے کی بات ہے، میں چاہتا ہوں کہ دنیا سے تمام افواج اور تمام اسلحہ ختم ہوجانا چاہیے۔ میں کسی بھی نظریے یا مطالبے کی حمایت میں مسلح جدوجہد کو درست نہیں سمجھتا۔ اور ہاں، نفرت کی بنیاد پر سیاست یا گفتگو کو بھی نہیں۔
اگر کل کو محمود اچکزئی یا کوئی اور رہنما ملک کو تقسیم کرنے کی سیاسی تحریک چلاتا ہے تو اس کا یہ حق تسلیم کیا جانا چاہیے۔ ابھی نوے کی دہائی کے نصف اول کی بات ہے کہ مغربی جرمنی نے مشرقی جرمنی پر قبضہ نہیں کیا بلکہ دونوں ہنسی خوشی ایک ہوگئے۔ اور انھیں دنوں میں چیکوسلواکیہ نام کا ایک ملک ایک بھی گولی چلائے بغیر دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ پاکستان اور ہندوستان کے ایک ہونے کے نام پر ایٹمی جنگ ہوسکتی ہے اور الگ ہونے کے معاملے پر جذبات اتنے شدید ہیں کہ صوبہ تک تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔
مجھے اردو کا اہل زبان ہونے پر فخر ہے لیکن یہ احساس بھی کہ میں دوسری زبانیں بولنے والوں سے کچھ کمتر ہوں، اس لحاظ سے کہ انھیں مجھ پر کم از کم ایک زبان کی برتری حاصل ہے۔ میرے کئی دوست چار چار چھ چھ زبانیں بول سکتے ہیں۔ اس معاملے میں ایک مطالعہ کرنے والے اور لکھنے والے سے زیادہ کم مائیگی کا احساس کسی کو نہیں ہوسکتا۔
اردو ہم سب کو جوڑتی ہے، دل ملاتی ہے۔ اس خیال سے قرار آجاتا ہے۔ کچھ لوگ اردو کو برا بھلا کہتے ہیں۔ لیکن دلچسپ بات ہے کہ انھیں یہ کام بھی اسی زبان میں کرنا پڑتا ہے ورنہ ان کی بات آگے نہیں پہنچتی۔ اردو سے محبت کرنے والوں کو اس بات پر خوش ہونا چاہیے۔
عوامی شعور بڑھنے کے ساتھ یہ مطالبہ بڑھ رہا ہے کہ ہمارے بچوں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم ملنی چاہیے۔ میں اس مطالبے کی حمایت کرتا ہوں۔ لیکن مجھے خدشہ ہے کہ پھر بہت سے بچے میری طرح اکہرے رہ جائیں گے۔ وہ ایک زبان کے اسیر بنے رہیں گے۔ زبانیں سیکھنے کا درست وقت بچپن ہوتا ہے۔ ہمیں مادری زبان کی نصابی کتابوں سے زیادہ اچھے اساتذہ کی ضرورت ہے۔
جرمنی اور فرانس کے لوگ تاریخی طور پر انگریزی کے معاملے میں متعصب رہے ہیں۔ ان کی زبانیں بھی ان کے ملک سے باہر بہت سے ملکوں میں بولی جاتی ہیں۔ اس کے باوجود وہاں انگریزی کا چلن بڑھ رہا ہے۔ رابطے کی زبان کے طور پر اس کی اہمیت بڑھ رہی ہے۔ گلوبل ولیج کے کثیر القومی اداروں میں انگریزی بولنے سمجھنے والے کو آسانی سے ملازمت مل جاتی ہے۔
ہمارے کچھ دوست مادری زبان کو فروغ دینے کے لیے سوشل میڈیا پر اسے استعمال کرتے ہیں۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ لیکن یوں بھی ہے کہ مجھ جیسے دوست ان کی بات نہیں سمجھ پاتے۔ سوشل میڈیا کا مقصد بات دور تک پہنچانا ہے، اسے محدود کرنا نہیں۔ اگر آپ محدود حلقے سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں تو یہ آپ کی چوائس ہے۔
ایک اور بات کہ ہم اظہار کی آزادی کے قائل ہیں۔ بطور صحافی تمام حکومتوں سے یہی مطالبہ ہے۔ بلکہ سوشل میڈیا پر سرگرم ہر شخص اس جدوجہد میں شریک ہے۔ ہم محمود اچکزئی یا اردو کے مخالف کسی بھی شخص کی بات کو رد کرسکتے ہیں لیکن اسے اختلاف کے حق سے محروم نہیں کرسکتے۔ نہ اسے یہ کہہ سکتے ہیں کہ اردو مت بولو۔ نہ یہ کہنا چاہیے کہ افغانستان جاؤ۔
شاید دنیا میں بہت کم لوگ یہ بات کہتے ہیں، اور میں ان سے متفق ہوں یا ان میں شامل ہوں، کہ ہر شخص کو اپنی ریاست کا انکار کرنے کا حق ہوتا ہے۔ اس کے آئین کے انکار کا حق ہوتا ہے۔ ریاست سے انکار کرنے والا شخص بے وطن نہیں ہوجاتا کیونکہ وطن کا تعلق مٹی سے ہوتا ہے۔ آئین سے انکار کرنے والا غدار نہیں ہوجاتا کیونکہ آئین شہری کے ساتھ سماجی معاہدہ ہے۔ اگر کوئی اس معاہدے سے مطمئن نہیں تو اسے انکار کا حق ہے۔ اسے ریاست کو بہتر بنانے، آئین کو تبدیل کرنے اور اپنی مرضی کا معاشرہ دیکھنے کے لیے جدوجہد کرنے یا خیالات کا اظہار کرنے کا حق ہوتا ہے۔
جہاں تک ہتھیار اٹھانے کی بات ہے، میں چاہتا ہوں کہ دنیا سے تمام افواج اور تمام اسلحہ ختم ہوجانا چاہیے۔ میں کسی بھی نظریے یا مطالبے کی حمایت میں مسلح جدوجہد کو درست نہیں سمجھتا۔ اور ہاں، نفرت کی بنیاد پر سیاست یا گفتگو کو بھی نہیں۔
اگر کل کو محمود اچکزئی یا کوئی اور رہنما ملک کو تقسیم کرنے کی سیاسی تحریک چلاتا ہے تو اس کا یہ حق تسلیم کیا جانا چاہیے۔ ابھی نوے کی دہائی کے نصف اول کی بات ہے کہ مغربی جرمنی نے مشرقی جرمنی پر قبضہ نہیں کیا بلکہ دونوں ہنسی خوشی ایک ہوگئے۔ اور انھیں دنوں میں چیکوسلواکیہ نام کا ایک ملک ایک بھی گولی چلائے بغیر دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ پاکستان اور ہندوستان کے ایک ہونے کے نام پر ایٹمی جنگ ہوسکتی ہے اور الگ ہونے کے معاملے پر جذبات اتنے شدید ہیں کہ صوبہ تک تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر