نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عملی سیاست سے عرصہ ہوا ریٹائر ہوئے چودھری انور عزیز محض ایک فرد نہیں تابدار روایت بھی ہیں۔ مجسم شفقت جو مجھ ایسے لوگوں کو زندگی کی ہرمشکل سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ بخشتی ہے۔ حال ہی میں انہیں ہماری بہن پروفیسر کرن عزیز کی بے وقت موت کے سانحے کا سامنا کرنا پڑا۔ چودھری صاحب اس کے باوجود اپنی ہی نہیں ہماری ہمت بھی جواں رکھے ہوئے ہیں۔
طویل عرصے کے بعد وہ اسلام آباد آئے تو میری بیوی اور بچیوں کے ساتھ منگل کی شام پانچ گھنٹے گزارے۔ زیادہ وقت انہوں نے یہ جاننے میں صرف کیا کہ میری بیٹیاں تعلیم کے حوالے سے کن موضوعات پر توجہ دے رہی ہیں اور مستقبل کے بارے میں ان کے ارادے کیا ہیں۔ میں فقط کونے میں دبکا ’’شامل باجے ‘‘ کی طرح اس گفتگو کوسنتا رہا۔
چودھری صاحب زراعت سے جڑے تمام معاملات پر جنونی نگاہ رکھتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں ’’لائف اسٹاک بورڈ‘‘ کا چیئرمین لگایا تھا۔ 1977کے انتخاب کے بعد وہ وفاقی وزیر خوراک و زراعت بھی رہے۔ اس پسِ منظر سے بخوبی آگاہ ہوتے ہوئے میں اس وقت حیران و پریشان ہوگیا جب چودھری صاحب نے یہ دعویٰ کیا کہ پاکستان کے ٹھوس حالات و واقعات سے 63 برس تک پھیلی متحرک وابستگی کے دوران انہوں نے گندم اور آٹے کا ایسا بحران کبھی نہیں دیکھا جو ان دنوں وطنِ عزیز پر مسلط ہے۔ میں ان کا دعویٰ سن کر کج بحثی میں اُلجھ گیا۔ انہیں یاد دلایا کہ 1950 کے آغاز میں خواجہ ناظم الدین کو ’’قائدِ قلت‘‘ پکارا جاتا تھا۔ بزرگوں سے سنا اور کتابوں میں پڑھا ہے کہ ان کے دور میں گندم تقریباََ نایاب ہوگئی تھی۔ ان دنوں ویسا عالم تو نظر نہیں آرہا۔
چودھری صاحب کا مگر اصرار رہا کہ اس دور میں وہ اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ میں مقیم تھے۔ گندم کے موجودہ بحران کو وہ فقط اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر سنگین تر ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ اس تناظر میں انہوں نے انکشاف یہ بھی کیا کہ جن دنوں وہ وزیر خوراک ہواکرتے تھے تو تقریباََ ہر روز رات گئے انہیں وزیر اعظم بھٹو کا فون آجاتا۔ وہ انتہائی درشتی سے اطلاع دیتے کہ ان کی معلومات کے مطابق فلاں فلاں شہر یا قصبے میں آٹا مہنگے داموں بک رہا ہے۔ وزیر خوراک اس کے بارے میں لاعلم کیوں ہے۔
چند دن قبل مجھے شریف خاندان کے ایک قریبی دوست نے آگاہ کیا تھا کہ نواز شریف 1985 میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہوئے تو ان کے والدِ مرحوم نے اہم ترین نصیحت یہ کی تھی کہ ’’روٹی کی قیمت‘‘ کو اپنے دورِ اقتدار میں بڑھنے نہ دینا۔ سنا ہے کہ جنرل ضیاء جیسے آمر بھی شام ڈھلتے ہی مختلف شہروں میں مقیم چھوٹے دوکانداروں کو فون کرنا شروع ہوجاتے۔ یہ جاننے کے لئے کہ روزمرہّ زندگی کے لئے لازمی شمار ہوتی اشیائے صرف کے نرخ کیا ہیں۔ میں ان کہانیوں کے تناظر میں ہمیشہ اس گماں میں مبتلا رہا کہ ’’ریاستِ مدینہ‘‘ قائم کرنے کے خواہاں عمران خان صاحب بھی گندم کے بحران کی بابت کامل آگاہ اور پریشان ہوں گے۔
انتہائی ذمہ دار ذرائع سے مگر اطلاع یہ ملی ہے کہ رواں ہفتے منگل کے روز کابینہ کا جو اجلاس ہوا اس کے دوران فقط ندیم افضل چن نے ایک بار پھر آٹے کے نرخوں کی بابت دہائی مچائی۔ جوشِ جذبات میں موصوف نے احتساب کے نگہبان مشیر شہزاد اکبر کو اُنگلی کا اشارہ کرتے ہوئے چینی کی قیمت میں بے پناہ اضافے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ فریاد یہ بھی کی کہ نومبر میں گندم کی بوائی کا سیزن شروع ہونے سے قبل حکومت اس کی Support Price میں معقول اضافے کا اعلان کرے تاکہ آئندہ برس آٹے کا بحران نمودار نہ ہو۔ کسی بھی وزیر نے مگر ندیم افضل چن کا ساتھ نہیں دیا۔ کابینہ کے اجلاس کے بعد اگرچہ ان کی ’’جرأت‘‘ کو سراہتے رہے۔ بقول راوی وزیر اعظم عمران خان صاحب نے چن صاحب کی گفتگو کو یہ کہتے ہوئے نظرانداز کردیا کہ وہ جو گفتگو کررہے ہیں وہ ’’جلسوں‘‘ میں کی جاتی ہے کابینہ کے اجلاس میں نہیں۔
زرعی امور کے بارے میں مجھ ایسے ’’شہری بابو‘‘ عموماََ نا آشنا رہتے ہیں۔ گزشتہ برس مارچ سے مئی کے دوران ہر ہفتے تین دنوں کے لئے لاہور جانا ضروری تھا۔ سفر کے دوران رپورٹر کی جبلت نے دریافت کیا کہ گندم کی تیار ہوئی فصل کو اجارہ دار آڑھتیوں کے کارندے مختلف قصبات میں جاکر دھڑا دھڑ خرید رہے ہیں۔ ایسی خریداری ذخیرہ اندوزی کے لئے ہوا کرتی ہے۔ میں اس کی بابت دہائی مچانا شروع ہوگیا۔ حاکموں کے کانوں پر مگر جوں تک نہیں رینگی۔ بالآخر نومبر-دسمبر میں ’’گندم کا بحران‘‘ دھماکے کی صورت پھوٹ گیا۔ دل خوش فہم اس کے باوجود اُمید میں مبتلا رہا کہ 2019 کے تجربے کو ذہن میں رکھتے ہوئے حکومت گندم کے بحران کا اس برس اعادہ ہونے نہیں دے گی۔ میرے گما ں کو تقویت دینے اس برس گندم کی کٹائی کے بعد اسے پولیس اور مقامی انتظامیہ کی مدد سے سرکار نے انتہائی مستعدی سے خریدلیا۔ خریداری کے ضمن میں جو سختی روارکھی گئی اس کی وجہ سے کئی ’’ڈیرے دار‘‘ اپنے ’’بھڑولوں‘‘ میں وہ گندم بھی جمع نہ کرپائے جو ہر برس ’’ذاتی استعمال‘‘ کے لئے مختص ہواکرتی تھی۔ اس کے باوجود آٹے کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور حکومت اس کے بارے میں فکر مند نظر نہیں آرہی۔ شرم کا مقام ہے کہ بہت وقت گزرنے کے بعد آٹے کی قیمت کو قابلِ برداشت رکھنے کے لئے پاکستان جیسا زرعی ملک اب روس اور یوکرین سے ہنگامی بنیادوں پر گندم خریدنے کو مجبور ہوا ہے۔ درآمد شدہ گندم اگرچہ ہمارے معیار کے مطابق نہیں۔ یہ آٹے کی قیمت کو معقول سطح تک برقرار رکھنے میں بھی مددگارثابت نہیں ہورہی۔
حکومت کی جانب سے ہمیں مسلسل بتایا جارہا ے کہ اشیائے صرف کی گرانی کا باعث مختلف النوع ’’مافیاز‘‘ ہیں۔ چینی کا بحران بھی ایسے ہی مافیا نے ’’مصنوعی‘‘ طورپر کھڑا کیا تھا۔ واجد ضیاء جیسے ’’ہیرے‘‘ کی سربراہی میں کام کرتی ایف بی آئی نے اس ضمن میں تحقیقات کرتے ہوئے ایک ’’تاریخی‘‘ رپورٹ تیار کی۔ ’’مافیا‘‘ کی نشان دہی ہوئی تو عمران خان صاحب کے قریب ترین مصاحب رہے جہانگر ترین مذکورہ ’’مافیا‘‘ کے سرغنہ شمار ہوئے۔ عمران خان صاحب کے دربار سے اس کی بدولت ’’راندئہ درگاہ‘‘ ہوگئے۔ اس کے بعد مگر جہاز میں بیٹھ کر اسلام آباد سے لندن روانہ ہوگئے۔ ’’ہیروں‘‘ کے متحرک ہونے سے قبل چینی کے جو نرخ تھے ان دنوں ان میں کم از کم 33فی صد اضافہ ہوگیا ہے۔ آئندہ ماہ گنے کی نئی فصل بھی تیار ہوجائے گی۔ یہ بات عیاں ہے کہ ’’چینی مافیا‘‘ سے جڑے اجارہ دار اس فصل کو بروقت ادائیگی کے ذریعے اٹھانے میں ’’نخرے‘‘ دکھائیں گے۔ کاشت کار خود کو لاوارث محسوس کرے گا۔ حکومت مگر ممکنہ بحران سے قطعاََ غافل دکھائی دے رہی ہے۔ تسلی ہمیں فقط یہ ’’خبر‘‘ دیتے ہوئے دی جارہی ہے کہ شہزاد اکبر صاحب نے برطانوی حکومت کو ایک چٹھی لکھ دی ہے۔ تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ مذکورہ چٹھی وصول کرتے ہی برطانوی پولیس ہتھکڑی لے کر نواز شریف کے ہاں پہنچ جائے گی۔ ’’بھگوڑے منی لانڈرر‘‘ کو گرفتار کرکے پاکستان جانے والے جہاز میں بٹھادیا جائے گا۔ برطانیہ کی بدقسمتی مگر یہ ہے کہ اسے شہزاد اکبر صاحب جیسے ’’محتسب‘‘ نصیب نہیں ہوئے۔ عدالتی نظام بھی وہاں مختلف نوعیت کا ہے۔ ’’سیاسی انتقام‘‘ نظرانداز نہیں کرتا۔ ان روایات کے باوجود اگر شہزاد اکبر صاحب اپنے تخلیقی ذہن کی بدولت نواز شریف کو ہتھکڑی لگاکر پاکستان لے بھی آئیں تو یہ آٹے کی قیمت کو قابلِ برداشت بنانے میں کام نہیں آئے گا۔ چینی بنانے والے اجارہ دار گنے کی نئی فصل خریدنے کے حوالے سے اپنے نخرے جاری رکھیں گے۔ نواز شریف کی عام جیل میں عادی مجرموں کے ہمراہ ایک کوٹھڑی میں موجودگی اشیائے صرف کی قیمتوں کے حوالے سے عام پاکستانیوں پر نازل ہوئے عذاب کا ازالہ نہیں کر پائے گی۔
اس ہفتے اہم ترین فیصلہ FATF نے بھی کرنا ہے۔ اس کی تسلی کے لئے حکومت نے انتہائی عجلت میں ایسے قوانین منظور کروائے ہیں جو طویل المدتی بنیادوں پر ہمارے ہاں کئی دہائیوں سے جاری دھندوں کا بھٹہ بٹھادیں گے۔ ان قوانین کے لاگو ہونے کے باوجود پاکستان خدانخواستہ گرے لسٹ سے باہر نہ آیا تو فقط حکومت ہی نہیں مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی بھی عوام کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گی۔ ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ میں ان قوانین کی منظوری کے لئے لگائے ان کے انگوٹھے کسی بھی جواز سے محروم ہوجائیں گے۔ ایسے سوالات مگر ہمارے میڈیا میں اٹھائے نہیں جارہے۔ ’’غداری‘‘ کے چرچے ہیں۔اس کے سوا ہمیں کوئی اور درد محسوس ہی نہیں ہورہا۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر