نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اجتماعی خودکشی۔۔۔آئینہ سیدہ

اپنے ہی عوام کے ہر دلعزیز اور منتخب رہنماؤں کو قاتل ، مجرمبنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور پھر دنیا سے یہ امید کہ وہ آپکی

ا

عظیم قومیں عظیم  افراد سے بنتی ہیں ایسے افراد سے جو اپنے ہنر ،علمو فن ،تحقیق ،سیاست، بین الاقوامی تعلقات ،معاشیات

وغیرہ جیسے علوم پر دسترس رکھتے ہیں  اور پھر اپنی انہی صلاحیتوں کیوجہ سے یہ افراد اپنی قوم  اور ملک کے لیے کارنامے انجام دیتے ہیںاور ان کارناموں کی بدولت دنیا میں ان افراد کا نام انکے ملک  اورقوم کا نام روشن ہونے کا با عث بنتا ہے

پاکستان 1947 میں قائم ہوا تھا اور آج  ہمیں دنیا کے نقشے پر ابھرےستر سال  سے زیادہ ہوچکے ہیں قوموں کی زندگی میں ستر سال بہتہی معمولی عرصہ ہے لیکن یہ ہماری خوشقسمتی رہی کہ اس مختصرسے عرصے میں ہمیں قائد اعظم محمد علی  جناح ، ،باچا خان ، جی  ایمسید ،خیر  بخش مری ، ذوالفقار علی بھٹو،حیدر بخش جتوئی ، ،سرداراکبرخان  بگٹی ،بے نظیر بھٹو جیسے قابل اور بین الاقوامی عزت وشہرت کے حامل سیاستدان ملے ،ہمیں فیض احمد فیض جیے لیننایوارڈ یافتہ شاعر نصیب ہوۓ. جوش ملیح آبادی، حبیب جالب ، محسن نقوی ،احمد فراز، عطا شاد ،پروین شاکر، منیر نیازی ، احمد ندیمقاسمی   جیسے ہندو پاک اردو  ادب پر حکمرانی کرتےشاعرملے….. کھیلہوں یا اقتصادی میدان ، فن کا سفر ہو یا صحافت کا،  ستر سال کیمختصر عمر میں اس قوم نے کیا کیا نہ گوہر پاۓ مگر

واۓ ناکامی متا ع کارواں جاتا رہا

کارواں کے ساتھ احساس زیاں جاتا رہا

ہم نے اجتماعی طور پر نہ ان گوہر نایاب سیاستدانوں سے فایدہ اٹھایانہ فن کے جھلملاتے ستاروں سے!  کھلاڑی بھی  ہماری سازشیکہانیوں کی نظر ہوۓ اور اپنے پیشے سے عشق کرنے والے جانبازصحافی بھی .ہم  نےکبھی پہلے پاکستانی نوبل انعام یافتہ  ڈاکٹر عبدالسلام کوکافر کہہ کر دنیا میں اپنا ہی مذاق اڑایا تو  کبھی سب سے کم عمرامن کا نوبل پرائیز پانے والی بہادر ملاله کو ایکٹنگ کوئین اور یہودیایجنٹ مشہور کر کے اپنے مزید ذلیل ہونے کا بندوبست کیا

اپنے ہی عوام کے ہر دلعزیز اور منتخب رہنماؤں کو قاتل ، مجرمبنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور پھر دنیا سے یہ امید کہ وہآپکی ،اس ملک کی اور اس کے عوام کی "عزتکرے ؟ کیا دنیاوالے ایسی عوام کی عزت کریں جو کبھی ایک "قاتل "کو چار حلقوںسے ووٹ دے کر کامیاب کرتے ہیں تو کبھی کرپشن کوئین کو مسلمدنیا کی پہلی اور دنیا کی سب سے زیادہ ووٹ لینے والی خاتون وزیراعظم بنا دیتے ہیں ! دنیا ایسی عوام کو کیا سمجھے جو ایک "ہائی جیکرکوتین بار  وزیر اعظم  منتخب کرتی ہے؟

 ایسی قوموں کو کون باوقار کہے گا جو  ایسےشخص کو منتخب پارلیمنٹ کے ذریعے بھا ری مینڈیٹ سے صدر منتخب  کرے  جسکو اسی ملککی اسٹیبلشمنٹ زرخرید  میڈیا کے ذریعے کبھی اپنی بیوی کے بھائی کاقاتل توکبھی اپنی دوبارمنتخب وزیراعظم  بیوی  کو قتل  کرنےکامنصوبہ بنانے والا مشہور کر دے ؟

دنیا اس ملک کے باسیوں کو کیا سمجھے جن کے شاعر اکثر ہی جلاوطنرہتے ہیں یا پھر جیل میں کبھی ان پر حیدرآباد سازش کیس چلتا ہے توکبھی وہ امریکہ ، کینڈا یا برطانیہ میں جان بچا کر چھپے رہتے ہیں

جس شاعری کو دنیا سنتی ہے. داد دیتی ہے اپنی اپنی زبانوں میں اسیشاعری کے ترجمے کروا کر اپنی درسگاہوں میں رائج کرتی ہے ، ہماسکو غداری ڈکلئیر کرتے ہیں فیض ہو یا فراز، انشا جی ہوں  یا جوہرمیر ہم نے اپنے شاعر و ادیب کی علم و فن کی زندگی مختصر ترین کردی اسکی زندگی  فن کے چراغ جلاتے نہیں بلکہ  جلاوطنی کے عزابسہتے  گزری

آج  کی تاریخ  میں بھی وہ قلم کار جو بلوچستان کے جوانوں کو شعوردیتے ہیں ریاستی بربریت کی زد پر ہیں نہ کوئی مقدمہ  چلا نہ کوئی الزامثابت ہوا ، نہ وکیل نہ جج اور سیدھا سزاۓ موت

کھلاڑیوں  کی طرف آئیں تو کبھی کسی گولڈ میڈیلسٹ  باکسر کو شہر کیگلیوں میں  کسمپرسی کی حالت میں زندگی کی گاڑی کھینچتے دیکھیں گے توکبھی کسی فٹ بال کے مایہ ناز پلئیر کو

 کھیلوں اورکھلاڑیو ں کو برابری کی سطح  پرفنڈز مہیا  نہیں کیۓ جاتےبلکہ یہاں بھی  ناانصافی کا دور دورہ ہے آپکو کرکٹ ہی اس ملک کاقومی کھیلنظر آ ئے گا ہاکی  یا فٹبال جیسے  بین الاقوامی کھیل کے کھلاڑی ناگفتہ بہ حالات سے دوچار ہیں

لوک فنکار کسی بھی زمین کا اٹوٹ انگ ہوتے ہیں یہ فنکاروں کیواحد قسم ہے جوبازارمیں بیچی اور خریدی نہیں جاسکتی  کیوں کہ اسکاتعلق فن سے زیادہ مٹی سے ہوتا ہے

یہ بھارت اور امریکہ جا کر صرف اپنے فن کا مظاہرہ کر کے اپنے وطنکا نام غیر ملکیوں کی زبان پر لے آتے ہیں مگر انکے "رنگمیں کبھیبھی نہیں ڈھل سکتے ! ایسے سچے اور کھرے فنکاروں کے لیے آجکلکے  دو نمبر میڈیا ہاوسز ،ٹی وی چینلز ، ایف ایم ریڈیوز ، اسٹیج شوزوغیرہ کوئی خدمت انجام نہیں دے رہے

ایک زمانہ ان لوک فنکاروں پر آیا تھا کہ یہ اپنے فن کو عوام تک پہنچارہے تھے اور داد وصول کر رہے تھے مگر جس طرح مکروہ آمریتنے جمہوریت کی اساس کا گلا گھونٹ دیا ویسے ہی اصل فنکاروں کوبھی موت کے منہ میں پہنچا دیا  بلکہ اگر میں کہوں کہ مائی  بھاگی ، استاد ابراہیم ،فیض محمد بلوچ ، استاد خمیسو خان ، اور ان جیسے بہت سے اپنی  مٹی سے گندھےخوبصورت ترین فنکار جو کسی بھیملک کا بہترین اور قیمتی اثاثہ  ہوتے  تھے ان   ستر ،اکہتر برسوں میں عوامی  بے توجہگی اور حکومتوں کی لاتعلقی کے با عث  ایسےبچھڑے ہیں جیسے خزاں رسیدہ شجر  سے زرد پتے …  تو  مبالغہ  آرائینہیں ہوگی

 قدرت نے صحافی بھی وہی اس ناقدر معاشرے  سے چن چن کراٹھا لیۓ جو اپنی صحافتی ذمہ داریوں کو بہترین طریقے سے پورا کرناجانتے تھے .آمرانہ نظام نے کچھ  فرض شناسوں  کو تو ملک چھوڑنےپرمجبور کر دیا اور کچھ کو اگلے جہاں کی راہ دیکھا دی. آج بھی کچھکمزور اعصاب کے مالک  صحافیوں نےھتیار ڈالنےمیں ہی عافیتجانی اورچارنا چاربھری جیب اور بوجھل ضمیر کے ساتھ صحافت کی ٹمٹماتی مشعل کواپنے ہاتھوں میں لیۓ خوف کے ساۓ میں زندگیاں گزا ر رہے ہیں کہ نہ جانے کونسی رات ہو گی جسمیں رہزنوں کےروپ میں  نام نہا د چوکیدار حملہ آور ہونگے اور ایسے صحافیوں کیزندگیاں بھی ختم کرنا چاہیں گے جو بزدل تو ہیں مگر انکے سینے میںطاقت کی غلام گردشوں میں کامیاب اور ناکا م رہتی سازشوں کےراز دفن ہیں

 اتنے  بہت سے نگینے کھو دینے کے بعد بھی ہماری کوتاہ اندیشی کا یہعالم ہے کہ  قومی زندگی  کے دھارے سے کٹ جانے والی شخصیات اور آمریت کے ہاتھوں قتل ہوجانے والوں پر افسوس کرتے ہیںحالا نکہ  افسوس ہمیں اپنی قومی زندگی اور اجتماعی غربت پر کرناچاہیے کیونکہ انسان تو ہے ہی فانی آج نہیں تو کل ختم ہوجانا ہے دنیامیں ایک سے ایک انقلابی لیڈر اور فنکارانہ صلاحیتوں سے مالا مالافراد آ ئے اور رخصت ہوگیے یا کر دیے گیے مگر خوشقسمت رہےوہ ملک اور وہ قومیں جنہوں نے اپنے لیے جانیں دینے والے وجودوں سے فایدہ اٹھا لیا لیکن پاکستان  اور اسمیں بسنے والوں کی قسمت میں ایسا چکر ہے  کہ  جو کچھ  ان بچھڑ جانے والے عظیم افراد نےقوم کی عظمت اور وقار کے لیے دنیا میں کرنا تھا اسکا نہ انکو وقت دیاگیا اور نہ فرصت  

ان میں سے  کوئی تو اپنے پر لگےجھوٹے الزمات دھوتے دھوتے،اپنے وجود کو ثابت کرتے کرتے دنیا سے کوچ کر گیا تو کسی کوریاست نے خود  قاتل ، ڈاکو، مجرم،کرپٹ، غدار،کافر، وطن دشمن ، دہریہ ، بے راہ رو  وغیرہ وغیرہ کہہ کر کبھی ذہنی تو کبھی جسمانی طورپر قتل کر ڈالا

بقول منیر نیازی  

 "ہے یہ انکی زندگی کے روگ کا کوئی علاج

ابتدا ہی سے ہے شاید شہر والوں کا  مزاج

اپنے ا علی  آدمی  کو قتل کرنے کا رواج

مارنے کے بعد اسکو دیر تک روتے ہیں وہ

اپنے کردہ جرم سے ایسے رہا ہوتے ہیں وہ ”  

سچ یہی ہے کہ جس طرح فرد خودکشی کرنے پر آ ئےتو اسکوجواز،وقت اور  موا قع میسر آ  ہی  جاتے ہیں اسی طرح قومیں بھی جب اپنے ہاتھ سے اپنے آپ کو تاریخ میں رسوا و ذلیل کرنے پر آئیں تواپنے ہی ہیروز کو چن چن کر پہلے بدنام اور پھر قتل کروا دیتی ہیںاور اس طرح اپنی اجتماعی خودکشی کو کامیاب بنا تی ہیں

About The Author