ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پی ڈی ایم کے گوجرانوالہ کے جلسے کے بعد وزیراعظم نے بروقت مگر اپنی حرکات وسکنات سے سطحی قسم کا ردعمل دیا ایک ایسا ردعمل جس سے وہ بذات خود ہدف تنقید بن گئے۔ستم بالاے ستم اس کے اگلے دن کراچی کے جلسہ کے بعد ن لیگی رہنما کیپٹن (ر)صفدر کی گرفتاری اور شام تک رہائی اور پھر سندھ پولیس کے اعلیٰ افسران کی لمبی چھٹیوں کی درخواستوں نے ایک بحران پیدا کردیا۔پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے مطالبے پر آرمی چیف نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوے کور کمانڈر سے رپورٹ طلب کرلی۔جھوٹ سچ کیا ہے اس کا فیصلہ ایک دو روز میں ہوجائے گا۔تاہم اس سارے معاملے میں متحدہ اپوزیشن پی ڈی ایم سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرگئی ہے۔موجودہ سیاسی حالات حکومت کو بند گلی کی طرف دھکیل رہے ہیں جلد یا بدیر حکومتی بے بسی میں اضافہ ہوتا جائے گا۔
پی ڈی ایم جس سیاسی ہیجان کو ملک میں برپا کرنا چاہ رہی ہے وہ ہیجان آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہے۔یا پھر یوں کہہ لیں کہ پی ڈی ایم اپنے ہدف کی طرف آہستگی کے ساتھ پیش قدمی کررہی ہے۔ ایسے میں حکومتی ٹیم میں کوئی شخصیت ایسی نہیں ہے جو حالات کو سمجھتے ہوئے حکومت کو محاز آرائی سے گریز کا مشورہ دے ۔وزیراعظم اور ان کی ٹیم کے بیانات جلتی پر تیل کا کام کررہے ہیں۔علی زیدی جیسے وزرا کی گفتگو اونٹ پر آخری تنکے کا کام کررہی ہے۔شیخ رشید جیسے منجھے ہوئے سیاست دان نے بھی ابتدا میں بجائے حالات کو ٹھنڈا کرنے کے ایسے بیانات دئیے کہ اپوزیشن مزید متحد ہوتی گئی اب یہ سوال تو بنتا ہے کہ انہوں نے جان بوجھ کر اپوزیشن کو متحد ہونے کا موقع دیا یا نادانستہ طورپر ان سے غلطی ہوئی ہے۔
سرکاری ملازمین اور لیڈی ہیلتھ ورکرز کا شاہراہ دستور پر احتجاج اور دھرنا ، لانگ جمپ کرتی مہنگائی اور تیزی سے بڑھتی ہوئی بے روزگاری نے حکومتی کارکردگی پر کئی سوالیہ نشان لگا دئیے ہیں۔مہنگائی کو کنٹرول کرنے کا عہد کرتے ہوے وزیراعظم نے عملی طورپر یہ کیا کہ پنجاب میں سہولت بازار لگا دئیے۔ان بازاروں سے عوام کی کتنی تعداد مستفید ہوگی اور کتنی قیمتوں میں کمی ہوگی اس پر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا اور یہ بھی سوچنا ہوگا کہ کیا اس اقدام سے مہنگائی کا مداوا ہوسکے گا۔اس ضمن میں عام آدمی سے رائے لینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس کی جورائے ہے وہ تحریر میں لانا مشکل ہوگا۔اب اگر حالات کا ایک سرسری جائزہ لیا جائے تو سرکاری ملازمین سے لے کر کاروباری طبقہ اور دیہاڑی دار مزدور،کسان تک کوئی طبقہ ایسا ہےجو حکومتی کارکردگی سے خوش اور مطمئن ہو۔اگر نہیں تو پھر حالات کو ٹھیک کرنا کس کی زمہ داری ہے۔بدترین معاشی حالات نے اپوزیشن کو تقریروں کے لیے بہترین مواد مہیا کردیا ہے۔
ہر دور میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان عوامی مفادات کے نام پر محاز آرائی رہی ہے اور یہ ایک صحت مندانہ سرگرمی بھی ہوتی ہے جس کا فائدہ عوام کو ہوتا ہے تاہم اگر سیاسی حالات بگاڑ کی طرف جانے لگیں تو پھر مقتدر حلقے اور بااثر شخصیات مداخلت کرکے حالات کو معمول کی طرف لاتی ہیں۔اور اس وقت کچھ اسی قسم کے حالات ہیں ۔مگر پریشانی کی جو بات ہے وہ یہ ہے کہ اپوزیشن نے مقتدر اداروں پر حکومت کی سرپرستی کا الزام لگا کر اس کو بھی فریق بنانا شروع کردیا ہے ۔اگر ان الزامات میں شدت آتی گئی تو پھر کون سی ایسی تیسری قوت بچ جائے گی جو فریقین کو ایک میز پر بٹھا کر حالات کو بہتر کرنے کی کوشش کرسکے۔ملک کے مقتدر اداروں کو اس انتہائی نقطہ پر پہنچنے سے قبل کوئی فیصلہ کرنا ہوگا۔کیوںکہ ملک کے حالات مزید کسی قسم کی سیاسی محاز آرائی کے متحمل نہیں ہوسکتے ۔
معروف سیاسی ودفاعی تجزیہ نگار ریٹائرڈ آرمی آفیسر لیفٹیننٹ جنرل غلام مصطفی نے ایک نجی نیوز چینل کےپروگرام میں گفتگو کرتے ہوے کہا کہ پاکستان میں کوئی ادارہ محترم نہیں رہ گیا ۔غلطیاں سب نے کی ہیں مگر اب ہم دلدل میں کھڑے ہیں سب نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑنا ہے تو باہر نکل کر آئیں گے ۔انہوں نے کہا کہ صدر مملکت اور آرمی چیف کو آگے آکر قومی ڈائیلاگ شروع کرانے چاہیں تاکہ اس بحرانی کیفیت سے ملک اور قوم کو نکالا جاسکے۔ لیفٹیننٹ جنرل غلام مصطفی کی تجویز بروقت ، قابل فہم اور قابل عمل ہے۔موجودہ حالات میں طے ہوگیا ہے کہ حکومت ملک چلانے کی صلاحیت کھو بیٹھی ہے اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ حالات مزید گھمبیر ہوتے جائیں گے ۔ایسے میں کوئی درمیانی راستہ نکالنا پڑے گا تاکہ حالات کو معمول پر لایا جاسکےاور اس کے لیے صدر مملکت اور آرمی چیف کو اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا
جہاں تک قومی ڈائیلاگ کی بات ہے تو یہ ڈائیلاگ وسیع تر قومی مفاد اور بڑے کینوس پر ہونے چاہیں۔ملکی سطح پر درپیش تمام تر مسائل کو سامنے رکھ کر ان کا متفقہ حل تلاش کیا جانا چاہیے ۔تاک ان ڈائیلاگ کی صورت میں ایک قومی بیانیہ تشکیل پاسکے۔قوم کو ایک سمت مل سکے اور پھر کم سے کم عوام کے درپیش مسائل کے حل کے لیے پیش قدمی کی جاسکے۔اس وقت تک تو یہ صورتحال ہے کہ عام آدمی مہنگائی ، بے روزگاری کی چکی میں پس رہا ہے۔شدید مشکلات کا شکار ہے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ نے بھوک میں اضافہ کرنا شروع کردیا ہے۔ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ سے زندگی ارزاں اور سستی ہوتی جارہی ہے لوگ قابل علاج بیماریوں کے باوجود مہنگے علاج کے سبب مررہے ہیں ۔امن وامان کی صورتحال بھی آئے روز خراب ہوتی جارہی ہے ۔گزشتہ کچھ ماہ میں اسٹریٹ کرائم میں اضافہ ہوگیا ہے ۔لوگوں کی جان ومال محفوظ نہیں ہے ۔ان حالات میں بھی اگر ملک کی سیاسی اشرافیہ اور مقتدر ادارے اپنی انا کے خول سے باہر نہیں نکلتے تو پھر کب نکلیں گے تب جب سب کچھ ختم ہوجائے گا۔میرا روم جل رہا ہے خدارا میرے ملک کے ارباب اختیار بے ہودہ قسم کے الزامات کی بے سری بانسری بجانا بند کردیں
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ