نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریاستی قوت سے رعایا کو بنیادی طور پر ڈرایا جاتا ہے۔ اس کا بے جاء مسلسل اور بچگانہ استعمال آخرکار قانونِ تقلیل افادہ کو متحرک بنادیتا ہے اور ریاست ’’لوگوں کو ان کے گھر میں ڈرا‘‘ دینے کے قابل نہیں رہتی۔
اگست 2018 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد عمران حکومت نے بہت مہارت سے اپنا خوف لوگوں کے دلوں میں جاگزیں کیا۔ فواد چودھری صاحب کی رہ نمائی میں صحافتی اداروں کو اپنا ’’بزنس ماڈل‘‘ درست کرنے کے احکامات صادر ہوئے۔ اخبارات اس کی بدولت ’’ٹھنڈے ٹھار‘‘ ہوگئے۔ ٹی وی سکرینیں ’’تخریبی‘‘ آوازوں سے پاک ہوگئیں۔ سینکڑوں صحافی بے روزگار ہوئے تو کسی نہ کسی طرح نوکریوں پر موجود افراد کئی بار سوچنے کے بعد کوئی لفظ لکھنے اور بولنے کو مجبور ہوگئے۔ صحافت کو ’’مثبت‘‘ راہوں پر دھکیلنے کے بعد نیب نے بہت لگن سے اپوزیشن جماعتوں پر حاوی ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کو ’’عبرت کے نشان‘‘ بنانا شروع کردیا۔
ان کے بلند آہنگ رہ نما جیلوں کی نذر ہوئے تو قومی اسمبلی اور سینٹ میں بیٹھے اراکین کی اکثریت نے چپ سادھ لینے ہی میں عافیت پائی۔ وہ خاموش اور جی حضوری ہوگئے تو عمران حکومت نے کئی حوالوں سے اہم ترین اور ’’حساس‘‘ قوانین کو تاریخی عجلت میں منظور کروانا شروع کردیا۔ یہ تاثر فروغ پانے لگا کہ پانچ سالہ آئینی مدت مکمل کرنے کے بعد عمران خان صاحب کی جماعت 2023 کا انتخاب بھی بھاری اکثریت سے جیت جائے گی۔
اپنی ’’دہشت‘‘ مسلط کردینے کے بعد حکومت کو رعایا کے بنیادی مسائل کے حل کے لئے طویل المدتی منصوبوں کی تکمیل پر کامل توجہ مبذول کردینا چاہیے تھی۔ ایسا مگر ہوا نہیں۔ حکمرانوں کا مزاج فاسٹ بائولر والا ہی رہا جو ہمہ وقت مخالف کی وکٹ اُڑانے کو بے چین رہتا ہے۔ اس بے چینی کی وجہ سے مریم نواز کو تین ماہ قبل نیب کے لاہور دفتر میں طلب کرلیا گیا۔ انہوں نے چند قیمتی زمینیں خرید رکھی ہیں۔ حکم ہوا کہ اس خریداری کی بابت ’’رسیدیں‘‘ پیش کریں۔ نواز شریف کی دُختر کی یہ طلبی سیاسی مبصرین کے لئے حیران کن تھی۔ گزشتہ برس نومبر میں سابق وزیر اعظم جیل سے نکال کر لندن بھیج دئیے گئے تھے۔
وہاں پہنچنے کے بعد انہوں نے طویل خاموشی اختیار کئے رکھی۔ مریم نواز بھی اپنے ٹویٹر اکائونٹ کو Deactivate کرنے کے بعد گھر تک محدود ہوگئیں۔ عوام کی اکثریت کو گماں ہوا کہ نواز شریف کو NRO مل گیا ہے۔ اس کے عوض وہ اور ان کی دُختر عملی سیاست سے کنارہ کش ہوگئے ہیں۔ شہبازشریف صاحب کو کامل اختیار مل گیا ہے کہ وہ اپنی جماعت کے ’’سنجید ہ اور تجربہ کار‘‘ لوگوں کی مشاورت سے ’’نیویں نیویں‘‘ رہ کر عمران خان صاحب کو ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے دیں۔
حاکموں کی اس تاثر کے باوجود تسلی نہ ہوئی۔ FATF کی تسکین کے لئے بنائے قوانین کو پارلیمان سے مجھے اور آپ کو باخبر رکھنے والی کسی بحث کے بغیر تاریخی عجلت میں منظور کروانے کے بعد بھی ڈاکٹر وسیم شہزاد اورحکومتی ترجمانوں کا غول اپوزیشن اراکینِ پارلیمان کو حقارت سے شریف خاندان اور آصف علی زرداری کے ’’ذہنی غلام‘‘ پکارنا شروع ہوگئے۔ اپوزیشن کی خاموشی اور ’’غلامی‘‘ کی بابت شاداں محسوس کرتے حاکموں کو حیران کرنے کے لئے نواز شریف نے اپنی دُختر کو حکم دیا کہ وہ ہر صورت نیب کے روبروپیش ہوں۔ وہ کارکنوں کے ایک گروہ کے ہمراہ گھر سے نکلیں تو ’’پُلس مقابلہ‘‘ ہوگیا۔
اس مقابلے سے گھبرا کر نیب نے اعلان کردیا کہ اسے فی الوقت مریم نواز کی پیشی درکار نہیں۔ نیب ’’بکری‘‘ ہوا نظر آیا تو عمران خان صاحب کے چند ضرورت سے زیادہ متحرک مصاحبین نے کہانی یہ پھیلائی کہ شہباز شریف کے دس سالہ دورِ اقتدار کی بدولت اپنے فرائض سے ’’غافل‘‘ ہوئی لاہور پولیس نے ’’ریاست کو شرمندہ‘‘ کیا ہے۔ ’’ریاستی رٹ‘‘ کی بحالی کو یقینی بنانے کے لئے ایک پولیس افسر دریافت ہوئے۔ عمر شیخ صاحب کو سرمنڈاتے ہی مگر لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر ایک خاتون کی وحشیانہ بے حرمتی سے Deal کرنا پڑا۔ موصوف نے مجرموں کا سراغ لگانے پر توجہ دینے کے بجائے ٹی وی کیمروں کے روبرو درندگی کا شکار ہوئی خاتون کو اپنے ساتھ ہوئے سانحے کا ذمہ دار ٹھہرانا شروع کردیا۔ یوں کرتے ہوئے وہ خلقِ خدا کو ’’جاگدے رہنا -ساہڈے تے نہ رہنا‘‘ والا پیغام دیتے نظر آ ئے۔
مذکورہ پیغام کی بدولت ریاستی ’’رُعب‘‘ کی قلعی کھلنا بھی شروع ہوگئی۔ اس تناظر میں جو ’’خلائی‘‘ نمودار ہوا اسے نواز شریف نے طویل خاموشی کے بعد سوشل میڈیا کے بھرپور استعمال کے ذریعے پے در پے دھواں دھار تقاریر سے ’’پُر‘‘ کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔ نواز شریف کے متحرک ہونے کے بعد عمران خان صاحب کو اپنے مصاحبین کے ساتھ طویل مشاورت میں مصروف ہوجانا چاہیے تھا۔ یہ بات عیاں ہوچکی تھی کہ ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ والا بیانیہ اپنی Shelf Life مکمل کرچکا ہے۔
اب حکومت کو کسی نئے بیانیے اور حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اس امر پر توجہ دینے کے بجائے بہت شدت سے کہانی یہ پھیلائی گئی کہ نواز شریف ’’ریاستی اداروں‘‘ کو مبینہ طور پر للکارنے کی وجہ سے ’’غدار‘‘ ہوگئے ہیں۔ ’’غدار‘‘ مگر لندن میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس کا کچھ بگاڑا نہیں جاسکتا تھا۔ اس کے حامیوں کو مگر خوفزدہ کرنے کے لئے لاہور کے ایک محب وطن شہری کے ذریعے شاہدرہ تھانے میں ایک ایف آئی آر کٹوائی گئی۔ رات کے دو بجے کٹے اس پرچے میں پاک فوج کے تین سابق جرنیلوں کے ساتھ آزادکشمیر کے منتخب وزیر اعظم بھی ’’غدار‘‘ نامزد ہوئے۔
بہت عجلت سے تیار ہوئی ایف آئی آر پر لیکن کوئی کارروائی نہ ہوئی۔ ’’غداری‘‘ جیسا سنگین الزام بھی ریاستی رٹ کو اجاگر نہ کرسکا۔ پیغام بلکہ یہ گیا کہ حکومت بوکھلاگئی ہے۔ یہ بوکھلاہٹ گوجرانوالہ کا جلسہ روکتے ہوئے مزید بے نقاب ہوئی۔
پیر کے روز کراچی میں کیپٹن صفدر کی پراسرار گرفتاری اور بالآخر ضمانت پر رہائی نے بلکہ اسے مضحکہ خیز بنادیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ گرفتاری اور رہائی عمران خان صاحب کی اس تقریر کے فوری بعد ہوئی جس کے دوران انہوں نے خود میں ’’نیا عمران‘‘ ڈھونڈنے کا دعویٰ کیا تھا۔ منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اپوزیشن کو متنبہ کیا تھا کہ وہ اب اسے چھوڑیں گے نہیں۔ ریاستی قوت کو بروئے کار لانے کے لئے حکومتیں سوچ بچار کے بعد کوئی قدم اٹھائیں تو اسے منطقی انجام تک پہنچانا لازمی ہوجاتا ہے۔ لاہور میں مسلم لیگ (نون) کے رہ نمائوں کے خلاف ’’غداری‘‘ کا پرچہ کاٹنے کے بعد حکومت کو ’’آندھی یا طوفان‘‘ والی ضد کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے تھا۔
سندھ حکومت کے ساتھ ’’متھا‘‘ لگانے کے بعد کیپٹن صفدر کی کراچی میں ہوئی گرفتاری بھی بالآخر ’’ٹھس‘‘ ہوتی نظر نہیں آنا چاہیے تھی۔ میڈیا کی حد تک مذکورہ واقعات کے بعد بھی حکومتی رُعب و دبدبہ اپنی جگہ موجود ہے۔ خلقِ خدا کے دلوں میں لیکن اس کی وقعت باقی نہیں رہی۔ اسی باعث بارہا اس کالم میں محمد خان جونیجو مرحوم کا دور یاد دلاتا رہا ہوں۔ وہ بڑھک لگانے سے ہمیشہ گریز کرتے تھے۔
اپریل 1986میں محترمہ بے نظیر بھٹو طویل جلاوطنی کے بعد وطن لوٹیں تو ان کی حکومت نے انہیں ملک بھر میں ریکارڈ ساز تعداد والے جلسے کرنے دئیے۔ یہ جلسے ہوگئے تو 14 اگست 1986 آگیا۔ مرحوم جونیجو اس روز مینارِ پاکستان تلے ایک جلسے سے خطاب کرنا چاہ رہے تھے۔ پیپلز پارٹی نے اسی دن لاہور ہی میں تاریخی موچی دروازے کے باغ میں مخالف جلسے کے انعقاد کا اعلان کردیا۔ ایک ہی روز لاہور میں حکومت اور اس کی مخالف جماعت کے جلسے منعقد ہوتے تو ان کے حامیوں اور کارکنوں کے مابین تصادم لازمی تھا۔ تصادم کے امکان اور نتائج پر ٹھنڈے دل سے غورکرنے کے بعد مرحوم جونیجو ٹی وی پر نمودار ہوئے۔
قوم سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اعلان کیا کہ لاہور میں امن وامان یقینی بنانے کے لئے انہوں نے مینارِ پاکستان والا جلسہ منسوخ کردیا ہے۔ امید ہے اس اعلان کے بعد پیپلز پارٹی بھی موچی دروازے میں اجتماع سے گریز کرے گی۔ پیپلز پارٹی مگر ڈٹ گئی۔ پولیس نے بھرپور قوت کے استعمال سے مگر اسے ناکام بنادیا۔ مناسب سوچ بچار کے بعد استعمال ہوئی ریاستی قوت کی بدولت سیاسی منظر نامے پر طویل عرصے کے لئے ’’ٹھنڈ‘‘ چھاگئی۔
اس کے دوران جونیجو حکومت ’’عوامی ترقی‘‘ کے لئے ایک ’’پانچ نکاتی‘‘ منصوبے کی تکمیل میں مصروف ہوگئی۔ عمران حکومت اس کے برعکس ہمیشہ بڑھکیں لگانے ہی کو ترجیح دیتی ہے۔نواز شریف کے آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب سے قبل ٹی وی چینلوں کو شہباز گِل صاحب نے اسے براہِ راست نشر کرنے سے روکنے کا دھمکی آمیز حکم دیا تھا۔ ٹی وی چینل مگر یہ خطاب نشر کرنے سے باز نہ رہے۔ خبر اُڑی کہ وزیر اعظم صاحب کو خیال آیا کہ اپنی تقریر کے ذریعے ’’جیل سے سزا یافتہ‘‘ نواز شریف خود کو بے نقاب ہی کریں گے۔
مذکورہ واقعہ نے مگر حکومتی صفوں میں Confusion of Command کا تاثر اجاگر کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ تاثر مزید گہرا ہورہا ہے۔ بڑھک بازی اب اس کا حل نہیں رہی۔ بہتر ہوگا کہ کوئی نئی حکمت عملی سوچ لی جائے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ