وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے 17 اکتوبر کو اسلام آباد میں ٹائیگر فورس پورٹل کے افتتاح کے بعد منعقدہ تقریب سے خطاب میں جو جارحانہ انداز اپنایا، وہ عوام تو کنٹینر پر دیکھ چکے اور اس کے نتائج بھی بھگت رہے ہیں، تاہم وزیر اعظم کے مطابق، ان کا یہ انداز نیا ہے اور اب نئے پاکستان کے ساتھ وہ نئے عمران خان کو بھی دیکھیں گے، جس سے میں تو جھرجھری لے کر رہ گیا کہ پرانے سے ملنے والی بے روزگاری اور مہنگائی کی لہر نے چیخیں نکلوا رکھی ہیں، تو یقیناً نئے کو سہہ کر سکون قبر ہی میں ملے گا۔
وزیر اعظم کی طرف سے گیارہ سال پہلے کی ایک ویڈیو بھی دکھائی گئی۔ عمران خان اس ویڈیو میں کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف، آصف زرداری سمیت تمام لوگوں نے اکٹھا ہو جانا ہے اور یہ آج ہو گئے ہیں۔ بس دل کیا کہ میں وہاں موجود ہوتا تو جان کی امان پا کر کہتا کی آپ کی کچھ ویڈیو خود کشی، مہنگائی، ڈالر، پیٹرول اور بجلی مہنگی ہونے پر بھی موجود ہیں، اگر وہ بھی ہمارے سامنے دوبارہ ملاحظہ فرما لیں، تو شاید ہمارے لئے کوئی آسانی کا ساماں پیدا ہو جائے۔ لیکن ہائے نصیب کہ وہاں تو داد دینے کی اولین نشستوں پر غیر منتخب افراد بخاری، ڈار اور گل موجود تھے، جو کابینہ چھوٹی ہونے کے سابق خطابات کی عین نشان کے مطابق موجود تھے۔
وزیر اعظم نے نواز شریف پر الزام عائد کیا کہ وہ فوج کے انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے اور اسرائیل اور بھارت کی لابی سے مدد مانگ رہا ہے۔ ان کے پاس تمام معلومات ہیں، لیگی قائد کیا کر رہے ہیں اور یہ بھی کہا کہ نواز شریف سنو، تم واپس آؤ اب میں تمہیں دیکھ لیتا ہوں۔ یہ سن کر تو ہنسنے اور رونے کی کیفیت پیدا ہو گئی کہ کہاں تو حکومتی افراد اور اداروں کی جانب سے نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس کو درست قرار دے کر باہر جانے میں مدد دی گئی اور واپس نہ آنے پر کہا گیا کہ وہ دھوکا دے کر گئے ہیں، تو اب دھمکیاں دینا تو دریا کے ایک کنارے پر کھڑے ہو کے دوسرے کنارے کھڑے شخص کو گالیاں دینا ہی لگتا ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ اب آپ مختلف عمران خان دیکھیں گے اور کسی ڈاکو کو اسمبلی میں پروڈکشن آرڈر نہیں ملے گا، جس سے ایک جانب تو ارکان اسمبلی کی توہین کا پہلو لگتا ہے کہ کسی مجاز عدالت سے سزا کے فیصلے کے بغیر انہیں ڈاکو کیسے کہا جا سکتا، دوسرا پروڈکشن آرڈر ارکان کا ایک قانونی حق اور سپیکر کا اختیار ہے، اس پر وزیر اعظم کیسے قدغن لگا سکتے ہیں یا تو قانون سازی کر کے اس حق اور اختیار ہی کو منسوخ کر دیا جائے یا پھر کہا جائے کہ جمہوری نہیں فرد واحد کی حکومت ہے۔
وزیر اعظم نے لیگی صدر شہباز شریف پر 23 ارب روپے کا انکشاف بھی کیا، لیکن کئی سابق مقدمات میں، بہت سے ارب کہہ کر پٹھان بھائی کے قالین والا نرخ ثابت ہوا کہ دس ہزار کا کہہ کر پندرہ سو میں فروخت کر دے یا پھر کرپشن کے ثبوت ہی نہیں ملے اور نیب کو عدالت میں کیس بند کرنے کی درخواستیں دینی۔ اس طرح چیف جسٹس صاحب سے بھی درخواست کی کہ حکومت آپ کی مدد کرنے کے لیے تیار ہے، خدا کے لیے مقدمات مکمل کرائیں اور نیب چیئر مین سے بھی مطالبہ ہے کہ کیسوں کو منطقی انجام تک پہنچائیں، آپ کی مدد کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن انہیں معروضی حالات نہیں بتائے گئے کہ نیب کتنی تنقید اور عدالتوں میں سبکی کا سامنا کر رہی ہے، تو چیف جسٹس کیا کریں اور لوٹا پیسہ عوام کو دلانے کے چکر میں ابھی تک تو ملزموں کو پروٹوکول میں عدالت لانے لے جانے میں عوامی خزانے کا بے دریغ استعمال ہو رہا ہے۔ ایسے کیسوں کی سماعت پر پولیس علیحدہ اپنے کام چھوڑ کر سیکورٹی کا فرض سر انجام دے رہی ہوتی ہے اور عدالتوں میں عام سائل کے مقدمات التوا کا شکار ہوتے نظر آتے ہیں۔ جب کہ دو سال سے جاری اس عمل میں عوام صرف مہنگائی کی چکی میں پسے چلے جا رہے ہیں۔
عوام تو یہ پوچھنے پر مجبور کہ کب عوام کو لوٹا ہوا پیسے ملے گا اور کب وہ مہنگائی سے نجات پائیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان نے انکشاف کیا کہ مسلم لیگ نون کے سینئر رہنما خواجہ آصف نے 2018ء کے الیکشن میں ہارنے کے دوران میں جنرل باجوہ کو روتے ہوئے ٹیلیفون کیا اور کہا کہ میں الیکشن ہار رہا ہوں، اب خواجہ آصف کے الیکشن جیتنے کو عوام کیا سمجھیں؟ اس لئے سیانوں نے نادان دوست والی بات کی ہے اور ایسے لگا جیسے کوئی شوخ بچہ تھوڑی سی شیخی بگھارنے کے چکر میں گھر کی باتیں بتا بیٹھتا ہے۔
وزیر اعظم نے اگلے تین سالوں میں دس ارب درخت لگانے کا تو بتایا، لیکن بلین ٹری منصوبے، سر سبز پاکستان کے نتائج سے آگاہ نہیں کیا، جس کے عوام منتظر ہیں۔ اس طرح وزیر اعظم نے مہنگائی کا ذمہ دار مافیا، کرونا اور سابق حکومت کو تو قرار دیا لیکن وہاں انہیں کوئی یہ کہنے والا نہیں تھا کہ جناب کنٹینر پر تو آپ فرماتے تھے کہ آپ کی پوری تیاری آپ کی معاشی ٹیم نے پلان بنا رکھے ہیں، پھر ہوا کیا؟ اس لئے ہم عوام کی ہاتھ جوڑ کر درخواست ہے کہ آپ کرپٹ افراد کو پھانسیاں دے دیں، مافیا کو الٹا لٹکا دیں لیکن ہمیں صرف روزمرہ کی اشیا سستی مہیا فرما دیں۔ ہمیں نئے پاکستان نے کچھ نہیں دیا۔ ہمیں نیا عمران خان نے سستا راشن چاہیے، کیوں کہ معصوم بچوں کی بھوکی نگاہیں، روتی بلکتی آوازیں، بھوک کی خاطر بکتے جسم اور خالی جیب گھر لوٹتے مزدور کی اپنے بچوں کے سامنے شرمندہ آنکھیں نہ آپ نے دیکھیں، نہ سنیں اور یہ سب سہنے کا دکھ تو آپ کے قریب سے بھی نہیں گزرا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ