ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیراعظم عمران خان نے ٹائیگر فورس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف نے جنرل قمر جاوید باجوہ پر نہیں فوج پر حملہ کیا ۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف گیدڑ کی طرح دم دبا کر بھاگ گیا ، وہ سن لے لندن سے واپس لا کر اسے عام جیل میں ڈالوں گا ۔ وزیراعظم کا خطاب اہمیت کا حامل ہے ۔
وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ گوجرانوالہ سرکس میں نازیبا زبان استعمال ہوئی، اپوزیشن کا مقابلہ کر کے دکھاؤں گا ۔ ہم وزیراعظم کی اس بات کی حمایت کرتے ہیں کہ نازیبا زبان استعمال نہیں ہونی چاہئے ، لیکن یہی بات وزراء کے لئے بھی لازم ہے کہ وہ بھی اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیںاور وزیراعظم نے اپوزیشن سے مقابلے کی جو بات کی ہے وہ سیاسی میدان میں ہونا چاہئے اور الیکشن کے موقع پر جمہوری انداز میں ہونا چاہئے ۔
اپوزیشن والے کہتے ہیں کہ وزیراعظم ابھی تک کنٹینر سے نہیں اُترے ، انکی گفتگو اور خطاب کا لب و لہجہ کنٹینر والا چلا آ رہا ہے ، اپوزیشن کی اس بات کو وزیراعظم ٹھنڈے دل سے لیں کہ وزیراعظم کا تعلق اب اپوزیشن نہیں حکمران جماعت سے ہے اور سیاسی ماحول میں لگی تلخی کی آگ کو بجھانے کیلئے پہل وزیراعظم کو کرنی چاہئے ۔ تلخ سیاسی ماحول کی وجہ سے ابھی تک حکومت کوئی بڑے منصوبے پر کام شروع نہیں کر سکی ‘
وعدوں کے برعکس لوگوں کو ریلیف کی بجائے تکلیف ملی ہے ‘ دو سال سے زائد عرصہ ہونے والا ہے ، قومی اسمبلی آئین سازی کا کام نہیں کر سکی ، یہ ٹھیک ہے کہ قومی اسمبلی سے فاٹا نشستوں میں اضافے کا بل اور آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا بل پاس ہوا اور ان بلوں کی حمایت اپوزیشن نے بھی کی۔ ا ب وسیب کے لوگ صوبے کا وعدہ یاد دلاتے ہیں تو مخدوم شاہ محمود قریشی نے ملتان میں کہا کہ آنے والی اسمبلی صوبے اور صوبائی دارالحکومت کے بارے میں فیصلہ کرے گی ۔
ہمارا مشورہ ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف کے دیگر اکابرین ٹھنڈے دل سے سیاسی معاملات کو حل کریں اور آئین سازی کے عمل میں اپوزیشن کی حمایت حاصل کریں ۔ مقتدر قوتوں کو بھی صوبے کے بارے میں ضرور غور کرنا چاہئے کہ نواز شریف پنجاب کے حجم کی طاقت کے بل بوتے پر بات کرتے ہیں ‘ اس لئے وفاقی اکائیوں کا متوازن ہونا ضروری ہے ۔ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے نواز شریف کو الطاف حسین ٹو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ نواز شریف کے ساتھ بھی وہی ہوگا جو الطاف حسین کے ساتھ ہوا ہے ۔ لندن سے نواز شریف کا سیاسی جنازہ ہی پاکستان آئے گا ۔
البتہ شیخ رشید احمد نے یہ لفظ تکلف سے بولا کہ لندن سے سیاسی جنازہ ہی نکلے گا حالانکہ وہ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں وہ سب لوگ سمجھ گئے کہ نواز شریف پاکستان نہیں آئے گا ۔ شیخ رشید احمد کی بات پر تبصرہ نہ بھی کیا جائے تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ شیخ رشید احمد پروپیگنڈے کے ذریعے نواز شریف کو مقبول لیڈر بنا رہے ہیں ۔ یہ صرف شیخ رشید نہیں بلکہ کابینہ کے تمام وزراء یہی فریضہ سر انجام دے رہی ہے ۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ جلسوں میں فوج سے متعلق منفی زبان استعمال ہو رہی ہے جو ٹھیک نہیں ۔ پاک فوج دلیری سے دشمن کا مقابلہ کرتی ہے، سیاستدانوں ، پارلیمنٹ، فوج کو اپنا اپنا کام کرنا ہوگا ، مجھے افسوس ہے کہ جلسوں میں موجودہ یا ریٹائرڈ جرنیلوں کا نام لینے سے ملکی وقار مجروح ہوتا ہے ۔ نواز شریف یا مولانا فضل الرحمن کے مقابلے میں بلاول بھٹو کا طرز عمل بہتر ہے کہ قومی اداروں کو نشانہ نہیں بنانا چاہئے ‘ انفرادی طور پر کمی کوتاہی ہر جگہ موجود ہوتی ہے ، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ملکی سرحدوں کے ساتھ ساتھ ملک میں پائی جانیوالی دہشت گردی کا مقابلہ پاک فوج کے ذریعے ممکن ہوا ہے ‘ ورنہ مسلکی فرقہ واریت ، انتہا پسندی ، عدم برداشت اور دہشت گردی نے ملک کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا تھا ،
آئے روز دہشت گردی کے واقعات کا نشانہ بھی سکیورٹی فورسز کے ادارے بن رہے ہیں۔ وزیرستان اور بلوچستان میں کوئی دن ایسا نہیں ‘ جب دہشت گردی کا کوئی واقعہ نہ ہوا ہو۔ کل بھی میں نے لکھا تھا ، گزشتہ روز کے اخبارات میں بلوچستان میں لانس نائیک کی شہادت اور تین جوانوں کے شدید زخمی ہونے کی خبر آئی ہے ۔ وسیب کے لوگ دہشت گردی کے ان واقعات کی مذمت کرتے ہیں کہ ملک میں امن و امان کیلئے ضروری ہے ۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ