فہمیدہ یوسفی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلی بار کراچی کی شاہراہوں پر مریم نواز شریف کی تصاویر کے بینرز دیکھنے کو ملے ،ڈھول کی تھاپ ،رقص جشن کا سماں بنایا گیا ،مریم نواز کا پر تباک
استقبال کیا گیا ۔11 جماعتیں ایک ساتھ ایک پنڈال میں جمع ہوئیں ،لیکن سوال یہ ہے کہ اس سب کے پیچھے مقصد تھا کیاَ؟
محض اپنی طاقت دکھانا؟ حکومت کے خلاف بیان دینا ،یا حکومت کو گرانے کی پر زور کوشش کرنا ،پی ڈی ایم کی جانب سے کراچی میں منعقد کیا جانے والا
یہ دوسرا بٖڑا جلسہ تھا گیارہ جماعتی حکومت مخالف اتحاد، پی ڈی ایم گوجرانوالہ میں اپنے پہلے مشترکہ جلسے کے بعد کراچی کے جناح باغ میں جلسے کا
انعقاد کیا گیا ۔
مریم نواز بذریعہ ہوائی سفر کراچی پہنچی تھی جہاں انھوں نے مزار قائد پر حاضری بھی دی جہاں مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان
عباسی اور دیگر پارٹی رہنما بھی ان کے ہمراہ موجود تھے لیکن حاضری کے دوران ہی مریم نواز کے سابق شوہر کیپٹن (ر) صفدر نے ’ووٹ کو عزت دو‘ اور
’مادر ملت زندہ باد‘ کے نعرے لگوائے تھے۔
جو انکوں مہنگی پڑگئی اور کراچی سے شروع ہونے والا سفر انہیں سلاخوں کے پیچھے تک پہنچا دیا۔
پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم ) نے کراچی میں اپنی بھرپور سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جذباتی بیانات سے شرکا کو لہو گرمایا باغ جناح
کے اس جلسے میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد نے شرکت کی ، باغ جناح جیالوں،کارکنان اورچاہنے والوں سے کھچا کھچ بھرا رہااور ارد گرد کی شاہراہوں پر
بھی لوگوں کا حجوم تھا ، جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے پی ڈی ایم کے قائدین نے اس عزم کا اظہار کیا کہ عمران خان کے کٹھ پتلی حکومت کے خاتمے
تک پی ڈیم ایم کی تحریک جاری رہے گی ۔
موجودہ حکومت پر شدید تندید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم اداروں کی نہیں کرداروں کی مخالف ہے جو سیاست میں مداخلت کرتے ہیں اور عوام کے
ووٹوں کو بوٹ تلے روند دیتے ہیں ، آئین کی پاسداری نہیں اور جنہوں نے ملک کو جمہوریت اور ترقی کے راستے پر گامزن ہونے نہیں دیا ، کٹھ پتلی حکومت
کو نااہل کہنا غداری نہیں ، سلیکٹرز کو یہ اطراف کرنا چاہئے کہ ان سے غلطی ہو گئی اور وہ عوام سے معافی مانگیں ، پی ڈی ایم عوام کو ان کا حق دلا کر
رہے گی ، جلسہ عام سے پی ڈی ایم کے سربراہ اور جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، مسلم
لیگ (ن) کی مرکزی سینئر نائب صدر مریم نواز اور دیگر جماعت کے افراد نے بھی خطاب کیا ۔
پنڈال میں پی ڈی ایم کی اتحادی جماعتوں کے پرچم لہرا رہے تھے ۔ جلسہ عام کے دوران پنڈال گو نیازی گو کے نعروں سے گونجتا رہا ۔
جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان
پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم ایسے لمحات میں اکھٹے ہیں کہ
ربیع الاول کا چاند بھی نظر آ گیا ہے ، آج پی ڈی ایم نے جمہوری فضاؤں کو بحال کرنا ہے ہم دو سال سے میدان کارزار میں ہیں ، ہمیں مجبور کیا جارہا ہے کہ
ہم بدترین دھاندلی میں قائم کی گئی حکومت کو تسلیم کر لیں ، لیکن تمام مراحل گزر گئے ہمیں ڈرایا دھمکایا بھی گیا ، ہمیں لالچ اورٍترغیب بھی دی ، ہم نہ
دھمکیوں سے مرغوب ہوئے اور آج بھی اپنے موقف پر قائم ہیں اور آج بھی علی الاعلان کہتے ہیں کہ ہم اس کٹھ پتلی حکومت کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لیے
تیا رنہیں ہیں
مولانا صاحب نے حکومت پر تنقید کے تیر تو رسائے ہی ساتھ ہی ساتھ فوج کی بھی اپنے نشانے پر رکھ اور کہنے لگے کہ باجوہ صاحب آپ ہمارے لیے قابل
احترام ہیں ۔ لیکن بے وقوف دوستوں سے بچیں ، اگر آپ کو لوگوں سے شکایت ہے تو ہم سے شکوہ نہ کریں آپ اپنے بے وقوف دوستوں کو دیکھیں ، دنیا میں
ریاستوں کی بقاء معاشی بنیادوں پر ہوتی ہے ، نواز شریف نے 2018 میں معاشی ترقی کی شرح ساڑھے پانچ فیصد اور اگلے سال کے لیے ساڑھے چھ فیصد
لگائی تھی ، لیکن ان نااہلوں نے ان دو سالوں میں اب 0.3 پر معیشت آ گئی ہے ، جو لوگ آج یہاں بیٹھے ہیں وہ پاکستان کے بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں ، آئین
نے جس جمہوریت کا تعین کیا ہے اس کی جنگ لڑ رہے ہیں ، اور جن قوتوں نے کہا کہ اس حکومت کو تسلیم کر لیں ۔ ان کو مخاطب کرکے کہتے ہیں کہ ایک
دن ہم آپ سے منوائیں گے کہ آپ سے غلطی ہوئی تھی ، ، ایک کروڑ نوجوانوں کو نوکریاں دینے کا خواب 26 لاکھ نوجوانوں کی بے روزگاری پر ختم ہوا
پچاس لاکھ مکانات دینے کا دعوا کرنے والوں نے لاکھوں افراد کو بے روزگار کر دیا ، ان میں گھر دینے کی اہلیت اور صلاحیت نہیں ہے ، غریب عوام کی
قوت خرید ختم ہو گئی ہے ، بچوں کو سڑک پر لاکر کھڑا کر دیا جاتا ہے ، لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبو رہیں ، دنیا میں انقلاب کبھی امیر نہیں لایا
ہے ، غریب عوام ہی لائے ہیں ، پاکستان میں بھی انقلاب آ کر ہی رہے گا ، انہوں نے آج ملک کا کیا حشر کر دیا ہے ، کشمیر کو بیچ ڈالا ، ۔
چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی موجودہ حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور اپنے خطاب میں کہا کہ آج غریب مہنگائی کی چکی میں
پس رہے ہیں ، ان کو شکایت کرنے کی اجازت بھی نہیں ، آج ہماری بچیوں اور بہنوں کی عزت لوٹی جا رہی ہیں ، سلیکٹڈ وزیر اعظم کو مہنگائی کی خبر ٹی
وی سے ملتی ہے ، اسے نہیں پتہ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم کے خلاف غداری کے پرچے ہوئے ہیں ، اس کو عوام کی بھوک نظر نہیں آتی ، عوام کا غصہ
نظر نہیں آتا ، اس کے دور میں ہر چیز میں کرپشن ہو رہی ہے سندھ سے گیس نکلتی ہے اور سندھ کو ہی گیس نہیں ملتی ، کے الیکٹرک کراچی کے عوام کا
خون چوس رہی ہے ، عمران خان اپنے دوست کو بچانے کے لیے کراچی کو اندھیروں میں دھکیل رہے ہیں ، اب تک سیلاب کے متاثرین ہیں ، ہم تاریخی
بارشیں اور تاریخی سیلاب دیکھا تھا ، ہمارے سیلاب متاثرین ابھی تک در بدر ہیں، صدر آصف زرداری نے سیلاب متاثرین کو سیلاب کارڈ دیا ، انہیں سندھ کے
عوام کو اپنا نا پڑے گا ، عمران نے کراچی کو دھوکہ دیا ہے ، یہ کشمیر کا وکیل ہونے کا دعوی کرتا ہے لیکن یہ کلبھوشن کا وکیل بن گیا ہے ، اس نااہل وزیر
اعظم کو جانا پڑے گا ، کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کی نیب اور ایف آئی اے کی دھمکیوں سے ڈر جائیں گے ، ہم تو پھانسیوں پر چڑھ چکے ہیں اس کٹھ پتلی
کی دھمکیوں کی کیا اوقات ہے ، ہم نے ضیاء الحق کے دور میں پھانسی گھاٹ کا سامنا کیا ، جب بھٹو کو پھانسی دی جا رہی تھی تو بھٹو نے کہا کہ اتنی
خاموشی کیوں ہے تو جیل جئے بھٹو کے نعروں سے گونج اٹھا ، جب بھٹو پھانسی چڑھ سکتا ہے تو ایاز بھی پھانسی چڑھ سکتا ہے۔
بلاول بھٹو نے اپنے جزباتی خطاب کا ختتام کرتے ہوئے حکومت کو خوب للکارہ اور کہا کہ ان سب کو اب ہمارے بیچ میں آنا پڑے گا یا پھر جانا پڑے گا جانا
پڑے گا جانا پڑے گا ۔
مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مرکزی رہنما مریم نواز نےبھی وہ مرغی کی ایک ٹانگ کی طرح موجودہ حکومت کو ہی تبقید کا نشنہ بنایا اپنے خطاب میں کہا کہ
انتظامات پر پیپلز پارٹی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس جلسے کو دیکھ کر مجھے بے نظیر بھٹو کی یاد آ گئی ، جس طرح اہل کراچی نے میرا
استقبال کیا ہے ، میں ان کا احسان زندگی بھر نہیں اتار سکتی ، مجھے کراچی اور لاہور کی سڑکوں میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوا ،کل ایک شخص چیخ چیخ
کر اپنی ناکامی اور شکست کا ماتم کر رہا تھا ، یہ ابھی تو ایک جلسہ ہوا ہے لوگوں کو کہتا ہے کہ گھبرانا نہیں ہے ، گوجرانوالا کے جلسے میں ہوش و ہواس
بھی کھو بیٹھے ہو ، اگر آپ کی تربیت میں یہ شامل نہیں ، اگر آپ یہ جانتے کہ وقار کس طرح دکھایا جاتا ہے تو ہم سے ہی سیکھ لیں ، آپ کی حرکات اور سکنا
ت اور تقریر سے آپ کی گھبراہٹ نظر آ رہی ہے ، عوام آپ کے چہرے پر خوف دیکھنا چاہتی ہے ، عمران خان کے چہرے پر جو خوف ہے ، وہ عوام کی
طاقت کا خوف ہے ، دباؤ میں کس طرح کام کیا جاتا ہے اور کس وقار سے کیا جاتا ہے تو نواز شریف سے ہی سیکھ لیتے ، نواز شریف نے ایک دن میں پریشر
نہیں لیا اور وہ آج بھی تمہارا نام نہیں لیتے ، تم کس خوشی میں اچھل رہے ہو ، تم پہلے ایک تابعدار ملازم تھے اب وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھے ہو ، تمہیں
جعلی اور سلیکٹڈ ہونے کی تنخواہ ادا کی جا رہی ہے ، جب وہ تقریر کرتا ہے تو وہ اپوزیشن کو مخاطب کرتا ہے یا پھر وہ ان سے مخاطب ہوتا ہے ، جو اسے
لے کر آئے ہیں ، وہ عوام سے مخاطب نہیں ہوتا ، میں اس جعلی کو وزیر اعظم نہیں مانتی ہوں اور نہ اس کی حکومت کو تسلیم کیا ہے ، میں اللہ کا شکر ادا
کرتی ہوں کہ میں ایک نہیں دو بچوں کی نانی ہوں ، اتنے اگر جرات مند ہو تو نواز شریف کی تقریر چلا دو ، اگر نہیں چلا سکتے ہو تو اور اتنے بزدل ہو تو اس
پر تبصرہ کرنا بھی تمہارا حق نہیں ، کیا نواز شریف کی تقریر چھپ کر سن رہے تھے ، پھر کہتے ہیں کہ نیب ہمارے ساتھ ہے ، کون نہیں جانتا ہے کہ نیب
عمران خان کے حکم پر چلتی ہے، نیب کس کے اشارے پر کام کرتی ہے ، بلاول اور مریم کے آباؤ اجداد کیا تھے ، دنیا جانتی ہے ، تم ذرا اپنا تو بتاؤ کہ
تمہارے آباؤ اجداد کیا تھے ، ، ملک کو ترقی کی طرف گامزن کرنے والا نواز ، فوج کی تنخواہوں میں اضافہ کرنے والا نواز شریف ، سیاچن کے فوجیوں کے
ساتھ کھڑا ہونے والا نواز ، جب تمہاری نالائقیوں کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو تم فوج کے پیچھے چھپ جاتے ہو ،تم فوج پر انگلیاں اٹھانے والوں کو تقویت
دیتے ہو ، فوج کو اپنی سیاسی ناکامی چھپانے کے لیے استعمال کرتے ہو ، کیا فوج تحریک انصاف کے ٹھیکیداروں کی ہے ، پاکستانی فوج ہماری ہے
پاکستانی فوج یہاں بیٹھے سب لوگوں کی ، فوج کو قوم سلام کرتی ہے۔
نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما عبدالمالک
سابق وزیر اعلی بلوچستان اور نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما عبدالمالک نے اپنے خطاب میں کہا کہ بلوچستان میں اب تک پانچ آپریشن کیے جا چکے ہیں ۔ فاٹا
میں اور خیبر پختونخوا میں کیا کر رہے ہیں ۔ مشرف نے بلوچستان میں آگ لگائی ، اس میں آج تک ہزاروں نے نوجوان جل رہے ہیں ۔ نواب اکبر بگٹی کو شہید
کیا گیا ۔ سندھ اور بلوچستان کی ساحلی پٹیوں کو ملا کر وفاق کے حوالے کرنا چاہتے ہیں ۔ ہم اس خواہش کو پورا نہیں ہونے دیں گے ، یہ جو دو نمبر کام کر
رہے یہں ، ہم اس کو نہیں مانتے ، ہم اس کے خلاف تحریک چلائیں گے ، ہم ماہی گیروں اور ہر مظلوم طبقے کی جنگ لڑیں گے ، ، آج ملک جن مسائل اور
مشکلات کا شکار ہے ، ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔ صرف ایک ہی بات کہی جا رہی ہے کہ گھبراؤ نہیں تمہارے حالات اس سے بھی بدتر کریں
گے ۔
پی ٹی ایم کے محسن داوڑ
پی ٹی ایم کے محسن خان داوڑ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ، ۔ 16 اکتوبر کو جو گوجرانوالہ کے جلسے کے حوالے سے جس میں سابق وزیر اعظم نواز
شریف نے مختلف خدشات کا اظہار کیا تھا اور انہوں نے موجودہ آرمی چیف پر مختلف الزامات لگائے تھے ، یہ الزام کسی عام آدمی کی طرف سے نہیں بلکہ
تین مرتبہ وزیر اعظم کی طرف تھے ہونا یہ چاہئے تھا کہ عمران خان اگر وزیر اعظم ہیں تو وہ اس کی تحقیقات کراتے ، جب تک وہ وزیر اعظم نہیں تھے اس
کا یہی موقف ہوتا تھا کہ الزامات کا جواب جس پر الزام لگے ، وہ دے گا ، لیکن آج ایسا نہیں ہے ۔ وہ آرمی چیف سے مطالبہ کرتے کہ الزامات کا جواب دیں ۔
انہوں نے جواب اور وضاحت دینے کے بجائے بہت ساری باتوں کی تائید کی ہے ۔ ہم ایک ایسے کمشن کا مطالبہ کرتے ہیں ، جو عمران خان کے الزامات اور
میاں نواز شریف کے الزامات کی تحققیات اور ان شہداء کی بھی تحقیقاات کرے کہ ان کے قتل میں کون کون ملوث ہے ۔ وزیر اعظم کے دائیں اور بائیں آٹا چور
اور چینی چور ہیں ۔ وزیر اعظم کراچی پیکیج ہڑپ کر چکے ہیں ۔ کراچی کے عوام انہیں کبھی معاف نہیں کریں گے ۔ جو لوگ پی ٹی آئی سے جیتے ہیں ، وہ
تو گھر جا کر سو گئے ، آئندہ آنے والا سال الیکشن کا ہو گا ۔ میں مولانا فضل الرحمن صاحب ، بلاول بھٹو اور مسلم لیگ (ن) کی لیڈر مرنواز کو خوش آمدید
کہتا ہوں ۔ اگر میثاق جمہوریت بنائی جائے گی اس ،میں چھوٹے صوبوں کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا ۔
پی ڈی ایم کے کراچی میں پاور شو میں سیاسی جماعتوں نے موجودہ حکومت پر خوب لفظی گولہ باری کی ،تنقید کی تیر بھی برساءے گءے ایسا لگ رہا تھا
کہ عوام کے مسائل سے یادہ ساری جماعتوں کو صرف موجودہ حکومت کے خلاف بیان دینے میں دلچسپی ہے مریم نواز ہمشہ کہتی نظر آتی ہیں کہ وہ عمران
خان کے بارے میں بات بھی نہیں کرنا چاہتی جبکہ اپنے خطاب میں وہ صرف عمران خان ہی کا ذکر کتی رہی پی ڈی ایم نے تو سیاسی طاقت دکھا دی لیکن یہ
بھی ایک حقیقت ہے کہ اتنے بڑے جلسے میں جہاں لوگوں کی اتنی بڑی تعداد نظر آئی ونہی اردو آبادی نے کوئی خاص اپنی موجودگی کا اظہار نہیں کیا گیا
اردو آبادی کی جانب سے وہ جوش یا استقبال دیکھنے میں نہیں آیا جو اس سے قبل ماضی میں دوسری جماعتوں کے لیے دیکھنے کو ملا تو کیا یہ کہنا مناسب
ہوگا کہ کراچی کی عوام کی جانب سے پی ڈی ایم کو سہارا ملنا مشکل ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ