نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کیا آصف علی زرداری نے بی بی کو وطن واپسی پر روکا؟ ۔۔۔سید راحت نقوی

محترمہ نے کراچی ائرپورٹ پہ اترتے ہی اپنے عزم کو ایک دفعہ پھر دہرایا کہ میں اپنے ملک میں جمہوریت بحال کراؤں گی دہشت گردوں سے ملک کو نجات دلاؤں گی ۔

سید راحت نقوی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اٹھارہ اکتوبر سنہ 2007 کی بابت ایک انٹرویو میں محترم آصف علی زرداری سے حامد میر نے پوچھا کہ محترمہ نے جب پاکستان آنے کا ارادہ کیا تو کیا آپ نے انہیں روکا نہیں تھا ؟

جس کے جواب میں آصف علی زرداری صاحب نے کہا کہ میں نے روکا تھا میں نے بچوں اور محترمہ کو آمنے سامنے بٹھایا اور کہا کہ آپ کے دشمن بہت گھٹیا ہیں اور حالات خطرناک ہیں ۔لہذا آپ اپنی ماں کو سنبھالو ۔ مگر محترمہ نہیں مانیں اور پاکستان چلی آئیں ۔

سی این این کے نمائندے نے بلاول بھٹو زرداری صاحب سے انٹرویو لینے سے پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے سابقہ انٹرویو کا ایک کلپ بلاول بھٹو زرداری صاحب کو دکھایا ۔ جس میں نمائندے نے محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ سے پوچھا کہ آپ کی فیملی کے کئی افراد کو سفاکی سے قتل کئے جانے کی افسوسناک تاریخ ہے اور ان خطرناک حالات میں آپ واپس وطن جا رہی ییں ؟

محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے کہا کہ میں جانتی ہوں کہ پاکستان میں میرے لئے خطرات ہیں لیکن میں اپنے ملک میں جمہوریت کی بحالی , اور دہشت گردی سے بچانے کےلئے ان خطرات کا سامنا کروں گی ۔

محترمہ بے نظیر بھٹو اٹھارہ اکتوبر 2007 کو پاکستان پہنچتی ھیں جہاں ایک طرف پوری قوم نے فیصلہ کیا کہ ہم نے 10۔اپریل سنہ 1986 کے لاہور کے عظیم الشان استقبال کا ریکارڈ توڑنا ہے اور غیرجمہوری قوتوں ۔ سازشی قوتوں ۔ دہشت گرد قوتوں اور ان کی سپانسر قوتوں کو نیست و نابود کرنے محترمہ بے نظیر بھٹو کے شانہ بشانہ آمریت کے خاتمہ کیلئے جدوجہد کرنے کیلئے سربکف تیاری کرکے نئے عہد کی تکمیل کرنی ہے اور کراچی کی سڑکوں پہ سندھیوں نے ہو جمالو, پنجابیوں نے دھمال , بھنگڑا , سرائیکیوں نے جھومر , پختونوں نے خٹک , بلوچوں نے چاپ اور مکرانیوں نے لیوا ڈانس کے لئے جگہ جگہ اپنی قائد کے پرمسرت استقبال کی تیاری کر رکھی تھی ۔ جہاں پوری قوم محترمہ کی آمد کی منتظر تھی وہاں جن کے اقتدار کے ستون لرزاں اور جو عوام کے حقوق غضب کئے بیٹھے تھے جو محترمہ کی جان کے دشمن تھے جنہوں نے اپنے دہشت گرد ہمدردوں کی مدد سے محترمہ کو شہید کرنے کے تانے بانے بن رکھے تھے ۔ ایک طرف حق دوسری طرف باطل ۔ ایک طرف حسینت پہ ایمان کامل رکھنے والے دوسری طرف یزید کے پیروکار اپنے منصوبے کی تکمیل کے لئے تیار و ہوشیار ۔

محترمہ نے کراچی ائرپورٹ پہ اترتے ہی اپنے عزم کو ایک دفعہ پھر دہرایا کہ میں اپنے ملک میں جمہوریت بحال کراؤں گی دہشت گردوں سے ملک کو نجات دلاؤں گی ۔

پھر محترمہ کا قافلہ عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کے ہمراہ کارساز کے مقام پہ پہنچا ۔ اور دشمنوں نے متعدد بم دھماکے کئے اور محترمہ بے نظیر اس خوفناک دھماکوں میں بچ گئیں لیکن پیپلز پارٹی 177 کارکنان شہید ہو گئے اور 500 سے زائد کارکنان زخمی ہوئے ۔ ظالم سمجھے تھے کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید کی بیٹی خوفزدہ ہوکر اپنا راستہ بدل دیں گی ۔ لیکن بزدل یہ نہیں جانتے کہ بھٹو کا خون بزدل نہیں ہوسکتا ۔ اتنے بڑے حادثے میں کئی لوگوں کا پتہ پانی ہوگیا ۔ مگر

دھماکوں اور ایک پوری کربلا سج جانے کے بعد لاشوں اور آگ کے سمندر کا سامنا کرنے کے بعد محترمہ پھر اپنے مصمم ارادے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہم سے یہ توقع نہ رکھیں کہ ہم کو ہمارے مشن سے دستبردار کروالو گے ۔ ہم اس ملک کو آمریت اور دہشت گردی سے بچائیں گے ۔

اٹھارہ اکتوبر پیپلز پارٹی کی تاریخ کا ایک اور انتہائی غمناک باب ہے ۔ پیپلز پارٹی کے لیڈران و کارکنان کی جدوجہد کا پوری دنیا میں کوئی سیاسی پارٹی مقابل نہیں ۔ شہداء جمہوریت کو لاکھوں کروڑوں سلام ۔ کوئی ہے ہم سا تو سامنے آئے ۔

About The Author