جام ایم ڈی گانگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم قارئین کرام،، دوسرے ممالک کی طرح وطن عزیز میں مختلف ڈے منانے کا سلسلہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہوا دکھائی دیتا ہے.مثال کے طور پر فارمر ڈے، مزدور ڈے، شوگر ڈے، ہیپاٹائٹس ڈے، ٹیچر ڈے، فادر ڈے، مادری زبان ڈے، الغرض سال کے جتنے دن ہے ہر دن کسی نہ کسی حوالے سے خصوصی ڈے کے طور پر مخصوص ہو چکا ہے. لیکن نہایت افسوس کےساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکومت ہو یا معاشرے کے متعلقہ طبقات اور عوام الناس وہ ڈے تو اچھی طرح منا لیتے ہیں لیکن ڈے منانے کے مقاصد، ضرورت اہمیت، اس کے تقاضوں اور اقدامات و عمل کے حوالے سے وہ کچھ دیکھنے کو نہیں ملتا جو ہونا چاہئیے وہ نہیں ہو پاتا. شاید اس کی وجہ قومی حکومتی اور معاشرتی ترجیحات ہوں. انفرادی اور اجتماعی عدم دلچسپی ہماری سوچوں، عملی اور غیر عملی ہونے کا بھی پتہ دیتی ہے. خیر مزید بات کرنے سے قبل میں آپ کے ساتھ گذشتہ روز ضلع رحیم یار خان کے سب سے بڑے ہسپتال شیخ زاید میں ہونے والے عالمی ذہنی صحت ڈے کے موقع پر ہونے والے سیمینار کے مقررین کی کچھ کفتگو آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں.تاکہ موضوع کے علاوہ کچھ دیگر معلومات آپ تک پہنچائی جا سکیں.
دنیا میں ذہنی صحت کے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے.حکومتیں اور معاشرتی رویے ان مسائل کو نظر انداز کررہے ہیں. ترقی یافتہ اور مغربی ممالک نے ذہنی صحت کے مسائل پر خصوصی توجہ دے رکھی ہے. ملک کے ماہر نفسیات و ستارہ امتیاز پروفیسر ڈاکٹر مودت رانا، پروفیسر آف کلینیکل سکائٹری ڈیپارٹمنٹ یونیورسٹی ڈاکٹر محمد اسلم نے ان خیالات کا اظہار سیمینار کے شرکاء سے اپنے آن لائن لیکچر کے دوران کیا. شیخ زید ہسپتال ومیڈیکل کالج رحیم یار خان کے شعبہ ذہنی صحت کے زیر اہتمام ذہنی صحت کے عالمی دن کے موقع پر ہونے والےسیمینار کے دوران پاکستان کے ان نامور ماہرین نفسیات کا کہنا تھا کہ حکومت نئی نسل کے بہتر مستقبل کے لیے ذہنی صحت کے مسائل کو اولین ترجیح دے اور ان بیماریوں اور ان سے بچاؤ کے لیے آگاہی مہم جاری رکھی جائے. پرنسپل شیخ زید میڈیکل کالج پروفیسر ڈاکٹرطارق احمد نے کہا کہ ذہنی امراض کا سبب بنے والے عوامل کم کرنے کی ضرورت ہے. معاشرتی رویوں میں بہتری لائے بغیر ذہنی امراض پر قابو پانا مشکل ہے. چیئر مین بورڈ آف منیجمنٹ ڈاکٹر تنویر سلیم باجوہ نے کہا کہ شیخ زید ہسپتال میں ذہنی صحت کی کارکردگی بڑھانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے ڈاکٹرز مینٹل ہیلتھ پر توجہ دیں ایم ایس شیخ زید ہسپتال ڈاکٹرآغا توحید نے کہا کہ ہسپتال کے اس شعبہ نے اپنی کارکردگی کو آگے بڑھایا ہے جس پر ہمیں فخر ہے. سپرنٹنڈنٹ جیل سید بابر علی شاہ نے قیدیوں کی نفسیاتی امراض کا ذکر کیا اور کہا ان کا مکمل نفسیاتی علاج کرکے انہیں مفید شہری بنایا جا سکتا ہے انہوں نے ڈاکٹر علی برہان مصطفے کے تعاون کو سراہا. سربراہ ڈیپارٹمنٹ ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر علی برہان مصطفے نے ذہنی صحت کے مسائل اور ان کے جدید نفسیاتی علاج کے بارے میں خصوصی لیکچر کے دوران بتایا کہ
ضلع میں ذھنی امراض میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے. شیخ زید ہسپتال میں روزانہ 400 سے 500 مریض علاج کے لیےآرہے ہیں گزشتہ سات سالوں میں ذہنی صحت کے وارڈ میں 27 بیڈ کا اضافہ کر دیا گیا ہے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظرانسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے. ڈاکٹر علی برہان مصطفے کا کہنا ہے کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں ذہنی صحت کے حوالے سے سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں. مینٹل ہیلتھ پروفیشںنلز کی تعداد صرف سینکڑوں میں ہے ایک لاکھ افراد کے لیے صرف ایک پروفیشنل موجود ہے. صحت کے بجٹ کا صرف تین فیصد حصہ رکھا جاتا ہے یہ صورت حال تشویشناک ہے. غربت معاشی بدحالی دہشت گردی معاشرتی وخاندانی مشکلات منشیات کے استمال وکرونا سے پیدا ہونے والی صورت حال سے ذہنی امراض اور خودکشی کے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے اس پر توجہ نہ دینے کی وجہ نئی نسل ذہنی وجسمانی کمزوری ودیگر مختلف بیماریوں کا شکار ہونے لگی ہے جو ملک کے لیے خطرناک ثابت ہوگی ڈاکٹر علی برہان مصطفے نے بتایا کہ سیکاٹری ڈیپارٹمنٹ ضلع بھر کے تعلیمی اداروں کا سروے کرارہا ہے جس میں طلبا وطالبات کی نفسیاتی بیماریوں اور منشیات کے استمال کے بارے میں سکریںنگ کر کے علاج کی سہولت فراہم کی جاے گی.
محترم قارئین کرام، تین صوبوں کے سنگھم پر واقع ضلع رحیم یار خان کے شیخ زاید ہسپتال کو وہ سہولیات اور فنڈز مہیا نہیں کیے جا رہے جس کا وہ مستحق وحقدار ہے. شعبہ ذہنی صحت کی طرح ہسپتال کا ہر شعبہ حکومتی توجہ کا متقاضی ہے. ہسپتال میں روزانہ مریضوں کی آمد اور رش اس امر کی گواہی اور ثبوت ہے کہ اکیلا شیخ زاید ہسپتال اب مریضوں کے لیے ناکافی ہو چکا ہے. دوسری بات اس سے بھی زیادہ اہمیت کی حامل ہے کہ سرائیکی خطے رحیم یار خان، راجن پور اور صوبہ سندھ، صوبہ بلوچستان کےملحقہ اضلاع میں مختلف بیماریوں کی شدت، پھیلاؤ اور مریضوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافے کی وجوہات کیا ہیں. اس پر توجہ کرنا اور سروے کروانا بہت ہی ضروری ہے.رحیم یار خان میں علیحدہ سے کڈنی اور کارڈیالوجی ہسپتال کی ضرورت ہے.شعبہ ذہنی صحت کو بھی اپ گریڈ کرنے کی اشد ضرورت ہے.
ہماری زراعت اور فصلات ہم دیکھتے ہیں کہ محکمہ زراعت کی عدم توجہی نااہـلی کی وجہ سے سال بہ سال زوال کا شکار ہونے لگی ہے. ناقص بیج، ملاوٹ شدہ زرعی ادویات و کھادوں نے فصلات کا کباڑا کرکے رکھ دیا ہے. غفلت و لاپرواہی کی وجہ سے نقصان کا باعث بننے والے ذمہ داران کا تعین کرنے کی بجائے بڑے آرام سے سارا بوجھ اور الزام موسمی حالات پر دھر دیا جاتا ہے. کپاس کی تباہی میں زرعی ادویات سرفہرست ہیں. مگر افسوس کہ زرعی ادویات کے درآمد کنندگان، فارمولیشن اور پیکنگ کرنے والے پلانٹس اور کمپنی مالکان کے خلاف جاروائی کرنے کی بجائے بیچارے چھوٹے چھوٹے دکاندروں ڈیلروں پر کاروائی کرکے خانہ پری سے کام چلایا جا رہا ہے. سپلائرز سے کوئی نہیں پوچھتا. سنا ہے کہ بہت ساری فارمیسیوں کا حال بھی بہت پتلا اور برا ہے. لو سینڈرڈ ادویات عام ہیں. پھر اوپر سے فار سیل پرکشش انعامی پیکیجز کا انسانی ادویات میں بڑھتا ہوا ٹرینڈ بڑا نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے. ضرورت اس امر کی ہے کہ ادویات کے معاملہ میں کسی سے بھی کسی قسم کی رعایت ہرگز ہرگز نہ برتی جائے.میں نے رحیم یار خان میں دیکھا ہے کہ کچھ ڈاکٹرز ہیں. کچھ مگر قلیل مسیحا ڈاکٹرز ہیں. بہت سارے قصائی ڈاکٹرز ہیں. ویسے ان کے علاوہ بھی یہاں ڈاکٹروں کی کچھ قسمیں ہیں. یہاں میں اس حقیقت کو بھی بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ عطائی ڈاکٹرز کی طرح عطائیوں کی لیبارٹریز بھی عوام کے مالی اور جسمانی کا باعث بنی ہوئی ہیں. انہیں بھی سختی سے چیک کرنے کی ضرورت ہے. غلط تشخص کی وجہ سے غلط علاج کے اشارئیے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے. فی الوقت یہ میرا موضوع نہیں ہے.
ہم ذہنی صحت کے حوالے سے بات کر رہے تھے. یقینا دل، گردوں، زچکی کے مسائل اور ہیپاٹائٹس کی طرح ذہنی بیماریوں میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے. فرق صرف یہ ہے کہ ذہنی اور نفسیاتی مسائل اور بیماریوں پر لوگ کم توجہ دیتے ہیں.مہنگائی، خاندانی مسائل، بے جا نمود نمائش کی وجہ سے بھی نفسیاتی مسائل بڑھ رہے ہیں ان سمیت دیگر اسباب پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے. صرف بیماریوں کا علاج کرنا کافی نہیں ہوتا. باشعور قومیں اور لوگ بیماری کے علاج کے ساتھ ساتھ اس کے اسباب کو بھی کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں.ہماری صحت، شعبہ ذہنی صحت، ہم اور ہماری حکومت کہاں کھڑے ہیں اور کیا کر رہے ہیں. اس پر غور اور فکر کرنے کی بھی ضرورت ہے.
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ