بیرسٹر عامر حسن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلیکٹرز کے مر ہون منت حکمران کیا جانیں کہ جمہوریت کن پرآشوب ،کٹھن مراحل اور جانوں کی قربانیاں دے کر حاصل کی گئی ہے ۔ وہ کیا جانیں کہ شہداء کارسازکا غم کیا ہے! 13سال قبل کراچی انسانوں کے سمندر کا سماں پیش کر رہا تھا، ہر طرف جشن کا سماں تھا جوش و ولولہ ،عشق و جنون سے سر شار لاکھوں لوگ جذبہ امید میں رقصاں تھے۔ پس منظر یقینا مختلف تھا لیکن جذبہ ایک سا تھا اور سب یک زبان تھے ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘ ’’بے نظیر آئے گی انقلاب لائے گی‘‘۔
بھٹو ز اور عوام کے درمیان امیدو عشق کا یہ رشتہ دیرینہ ہے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے ان بے زبانوں کی آواز بن کر ان محروم طبقات کو عزت دی۔ یہیں سے اس رشتہ کا آغاز ہوا اور اسی جرم کی پاداش میں وہ سرِ دار جا پہنچے۔ مگر عوام کے ساتھ بھٹو کے لافانی تعلق کو نہ توڑا جا سکا۔ بھٹو شہید نے اپنی سب سے اہم میراث اپنی بے نطیر بیٹی کے سپرد کرتے ہوئے کہا ’’میری پیاری بیٹی صرف عوام پر بھروسہ کرو ، ان کی بھلائی اور مساوات کیلئے کام کرو۔ خُدا کی جنت ماں کے قدموں تلے ہے اور سیاست کی جنت عوام کے قدموں تلے ہے ۔ آج میں تمہارے ہاتھ میں عوام کا ہاتھ دیتا ہوں‘‘۔
پی ڈی ایم آج کراچی میں سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرے گی
بی بی نے اس رشتے کو مزید مضبوط کیا اور اپنی ساری زندگی اس عہد کی تکمیل کیلئے وقف کر دی۔ قید و بند کی صعوبتیں ، آمرانہ حکومتوں کے ظالمانہ ہتھکنڈے باپ اور بھائیوں کی شہادتیں ، شوہر کی جوانی کے 12سال قید ماں کی بیماری اور بچوں کی محرومیاں بھی بی بی کو ان کے مقصد سے ہٹا نہ سکیں۔ جنرل مشرف آٹھ سال سے اقتدار پر قابض تھا کوئی سیاسی قوت اس کے سامنے ٹھہر نہ سکی اور نہ وردی اترواسکی۔ عدالتیں بھی آمر کو گھر نہ بھیج سکیں۔صرف آصف علی زرداری جرات و بہادری سے قید کی تکالیف برداشت کر تے رہے اور محترمہ نے دنیا کی بڑی طاقتوں کے ساتھ گفت و شنید کے ذریعے اور ان کے تھنک ٹینکس کو اس بات پر قائل کیا کہ پاکستان کا مقدر جمہوریت سے وابستہ ہے اور جمہورت کے بغیر امن نا ممکن ہے لہٰذا محترمہ نے اپنی حکمت اور تدبر سے جنرل مشرف کو ریٹائرڈ جنرل مشرف بنا کر ملک میں از سرِ نو جمہوریت کی بنیاد رکھی۔ اور آج کے بہت سے نام نہاد سے سیاستدانوں کو سیاست کے مواقع حاصل ہوئے۔ محترمہ نے وطن واپسی کا فیصلہ کیا تو غیر جمہوری قوتوں اور دہشت گرد انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دینے لگے۔ مگر بی بی کا جواب کچھ یوں تھا۔
سدرن پنجاب کی فائنل میں رسائی
مشکل ہیں اگر حالات وہاں دل بیچ آئیںجاں دے آئیں
دل والو کوچہء جاناں میں کیا ایسے بھی حالات نہیں
بی بی نے تمام خدشات کے باوجود عوام کے درمیان آنے کا فیصلہ کیا اپنی آخری کتا ب Reconciliation میں وہ لکھتی ہیں ’’میں آمروں اور انتہا پسندوں کے خلاف جمہوریت کی بحالی کیلئے جدو جہد میں اپنا مثبت کردار ادا کروں گی۔ یہی میری تقدیر ہے میں اپنی ذمہ داری سے پیچھے نہیں ہٹوں گی بلکہ اسے ادا کرنے کیلئے تیار ہوں۔‘‘
بی بی کے واپسی کے اعلان نے آمرانہ قوتوں اور دہشت پسند عناصر پر لرزہ طاری کر دیا۔ وہ اور ان کے حواری بی بی کے خلاف شدید پروپیگنڈہ کر نے لگے اور ڈیل کے الزامات لگانے لگے ۔حالانکہ جان بخشی کروا کر ملک سے بھاگنا ڈیل ہوتا ہے یا جان ہتھیلی پررکھ کر وطن واپس آنا ڈیل کہلاتا ہے؟۔ مگر جمہور نے اس پروپیگنڈہ کو یکسر مسترد کر دیا کہ محروم عوام بھٹو ہی کو اپنا نجات دہندہ اور امید گردانتے ہیں۔ پاکستان کے عوام اس منظر کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے جب بی بی نے اپنی سر زمین پر قدم رکھا بی بی اپنے جذبات کو یوں بیان کرتی ہیں’’آخر کار میں اپنے گھر میں واپس آگئی ہوں میں جانتی ہوں مجھے کیا کرنا ہے بہت پہلے میں یہ انتخاب کر چکی ہوں کہ عوام میرے لئے معتبر ہیں اور سب سے معتبر رہیں گے‘‘
بی بی لاکھوں لوگوں کے ساتھ مزارِ قائد کی طرف رواں دواں تھی ہر چہرہ خُوشی سے دمک رہا تھا عوام ؑ مست و رقصاں نعرہ زن تھے۔ ’’چاروں صوبوں کی زنجیر بے نطیر ،بے نظیر‘‘ ایسی زنجیر جس نے ہر قومیت ، مذہب، مسلک اور علاقہ کے لوگوں کو ’’میں بھٹو ہوں ‘‘ کی لڑی میں پرو رکھا تھا ۔ محروم طبقات کو یقین تھا کہ ان کی قائد ان کے حقوق آزادی اظہارِ رائے اور معاشی انصاف کیلئے کی جانے والی جدو جہد کو پایہء تکمیل تک پہنچائے گی۔لاکھوں عوام اس جلوس میں شریک تھے اور کروڑوں لوگ ان مناظر کو ٹیلی وژن کے ذریعے دیکھ رہے تھے کہ یکا تک یہ جشن خون کی ہولی میں تبدیل ہو گیا اور پاکستان کی تاریخ کے بد ترین دھماکوں سے صفِ ماتم بچھ گئی ۔ اس بد ترین صورتِ حال میں جیالے اپنی قائد کے ٹرک کی طرف دوڑنے لگے کیونکہ انہیں اپنی جانون سے زیادہ اپنی قائد کی جان عزیز تھی۔ روزِ ازل سے فساد پر عمل پیرا لوگ ہمیشہ سے امن کے پیامبروں کے دشمن رہے ہیں۔ یہ جہل والے ہمیشہ اُجالے سے گھبراتے ہیں ۔ یہ مردہ ضمیر ہمیشہ زندگی کے در پے رہتے ہیں۔ کیونکہ نا اہل کبھی صاحبِ کردار سے مسابقت نہیں کر سکتا یہ گروہ ظلم کی راہ پر گامزن ہیں۔ ان بزدل ظالموں نے امید کو نا امیدی میں بدلنے کی کوشش کی ۔ 177افراد شہید ہو گئے اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ کئی شہداء کی شناخت نہ ہو سکی اور جب انہیں لاوارث قرار دیا جانے لگا تو ان کی وارث بی بی آگے بڑھی اور کہا یہ میرے بھائی ہیں یہ بھٹو کے بیٹے ہیں لہٰذا انہیں گڑھی خُدا بخش میں دفن کیا گیا۔ ان کی قبروں پر یہ کتبے لگائے گئے جن پر کنندہ تھا ’’میں بھٹو ہوں‘‘ بھٹو کسی ذات یا قبیلے کا نام نہیں رہا یہ ایک نظریہ اور فلسفے کا روپ دھار چکا ہے۔ امیدوں کا وہ قافلہ جو مزارِ قائد کی طرف رواں دواں تھاوہ آج بھی بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں محروم عوام کے انسانی ،جمہوری اور معاشی حقوق کے حصول کیلئے پر عزم ہے ۔
آج پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی قومی قیادت مزار قائد پر اکٹھی ہو کر روح قائد سے سوال کر رہی ہے کہ اپنے عشاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے۔ ہم شہداء کارسازکی قربانی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوے عہد کرتے ہیں کہ
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ