نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تاریک راہوں کے مسافر۔۔۔ رسول بخش رئیس

کپتان کو یہ کھیل کھیلنا ہو گا‘ دیکھنا ہے کہ وہ جلسوں اور دھرنوں کے کھیل میں اپنا تجربہ کیسے استعمال کرتا ہے۔ میدان تو سجتا دکھائی دیتا ہے۔

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حزبِ اختلاف نے گوجرانوالہ میں کامیاب جلسہ منعقد کیا۔ لوگوں کی تعداد‘ جذبے اور جوش کے بارے میں صرف اندازے لگائے جا سکتے ہیں۔ دور درشن کی سکرینوں پہ رنگارنگ جھنڈے دیکھ کر وطنِ عزیز کی سیاسی تاریخ کے کچھ واقعات ذہن میں گردش کرتے رہے۔ 1977 میں پاکستان قومی اتحاد نو جماعتوں نے تشکیل دیا تھا۔ اس کے بانیوں اور کلیدی رہنمائوں میں مفتی محمود صاحب‘ مولانا فضل الرحمن صاحب کے والدِ محترم‘ نمایاں تھے۔ کالج کے زمانے میں مفتی صاحب کی تقاریر سنیں اور کئی مرتبہ ان کے جلسوں میں شریک ہونے کا شرف حاصل کیا۔ کمال کی گفتگو کرتے تھے‘ مدلل‘ جاذب‘ اور زبان میں تیز بہتے دریائوں کی سی روانی۔ سادہ‘ پُر وقار‘ سنجیدہ اور مخلص ایئرمارشل اصغر خان کی تحریکِ استقلال‘ مسلم لیگ کے کچھ دھڑے‘ حسبِ معمول لسانی‘ سیاسی وڈیرے اور جماعتِ اسلامی تحریک کا حصہ تھے۔ بڑے شہروں میں جماعتِ اسلامی کے متحرک اور منظم کارکن تھے۔ اسلامی جمعیت طلبا کالجوں اور جامعات سے ہزاروں کی تعداد میں پُرجوش نوجوان‘ جلسوں اور جلوسوں میں لاتی تھی۔ گوجرانوالہ میں جھنڈوں کے اعتبار سے تو کم از وہی بہار نظر آئی جو ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک میں دیکھی تھی۔ وہ تحریک تقریباً چار ماہ چلی تھی۔ جلوسوں نے شہری زندگی مفلوج کرکے رکھ دی تھی۔ یاد رہے کہ 1977 کے انتخابات میں ایسی دھاندلی کی گئی تھی جس کی مثال بدترین جمہوری ممالک میں نہیں ملتی‘ کھلم کھلا‘ دھڑلّے سے اور للکار کر کہ جو کرنا ہے‘ کر لو۔ اس سارے معاملے کا جو انجام ہوا اس کو دھرانے کی ضرورت نہیں‘ سب کو معلوم ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ بحران بھٹو صاحب نے خود پیدا کیا تھا۔ وہ حزبِ اختلاف کو سانس بھی نہیں لینے دیتے تھے۔ اس دور میں کئی ممتاز سیاستدان مروا دئیے گئے اور کئی عقوبت خانوں میں پڑے سڑتے رہے۔ دو انتہائی محترم اور اپنے زور پہ ابھرنے والے سیاستدانوں کے دن دہاڑے قتل کو دل کے محفوظ خانوں میں ابھی تک پاتا ہوں۔ یہ تھے محترم خواجہ محمد رفیق صاحب اور ڈاکٹر نذیر احمد صاحب۔ کالج کے زمانے میں ڈاکٹر نذیر احمد صاحب کے خطابات بہت سنے۔ ان کا خلوص‘ جذبہ اور نظریاتی پختگی کمال درجے بلند تھی۔ وہ عام آدمی تھے‘ مگر فکروعمل کی بلندی کا وہ مقام پایا‘ جو عام سیاسی قائدین کو نصیب نہیں ہوا۔ بھٹو صاحب کے خلاف تحریک میں معاملہ صرف انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کا نہ تھا‘ ان کی ذات شریف‘ طرزِ حکومت اور اقتدار کے منہ زور گھوڑے کی سواری جیسے معاملات بھی تھے۔ جنہوں نے آخر کار انہیں اس گھوڑے سے بری طرح گرایا‘ ان کے دلوں سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھٹو صاحب کے کردار کا غبار بھی تھا۔ بھٹو صاحب اکثر کہا کرتے تھے کہ میں بحرانوں کی پیداوار ہوں۔ ان کی یہ بات کسی حد تک درست تھی۔ ایوب خان کے خلاف تحریک چلی تو گول میز کانفرنس‘ جس کے بلانے میں نوابزادہ نصراللہ خان نے اہم کردار ادا کیا تھا‘ کو ناکام کرنے میں کچھ اور نادیدہ ہاتھوں کے علاوہ بھٹو صاحب کے بائیکاٹ کا بھی ہاتھ تھا۔ بلاشبہ وہ ذہین تھے اور سیاست کا ادراک رکھتے تھے۔ ان کا خیال بالکل درست تھاکہ خصوصاً پنجاب میں عام لوگ ان کے ساتھ ہیں اور اگر بحران حل ہو گیا‘ تو پھر ان کے خلاف تحریک کا زور ٹوٹ جائے گا۔ اپنی زندگی کا بڑا اور آخری بحران کھڑا کیا تو اس کی باگ ان کے ہاتھ سے نکل گئی اور وہ بے بس ہو گئے۔ نہ جانے قومی اتحاد کے ساتھ مذاکرات کے کتنے دور ہوئے اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ کسی بڑے یا چھوٹے شہر میں ان کی حکومت کی عمل داری نہیں رہی تھی‘ وہ اقتدار سے چمٹے رہے۔ اندر ہی اندر وہ اپنے آخری معرکے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ بھرتیاں جاری تھیں‘ ہتھیار اور رقوم تقسیم ہو رہی تھیں‘ اور ذمہ داریاں اپنے معتبر ترین لوگوں کو وہ سونپ چکے تھے۔ ”اور پھر لائن کٹ گئی…‘‘ مولانا کوثر نیازی صاحب کی یہ تصنیف‘ پروفیسر غفور احمد صاحب کی تحریر اور اسی حوالے سے لکھی گئی دیگر تصانیف پڑھیں تو ماضی کے بحرانوں کو سمجھنے کا موقع ملے گا۔
بحران ہر دور پیدا کئے جاتے رہے لیکن ماضی کی حکومتیں اس زعم میں رہیں کہ وہ حالات پہ قابو پا لیں گی۔ پرویز مشرف صاحب کی حکومت کی گاڑی بھی بغیر آئینی اور سیاسی رکاوٹوں کے فراٹے بھرتی چلی جا رہی تھی کہ بیٹھے بٹھائے نہ جانے کیوں خیال آیا کہ عدالت سے پیشگی ضمانت لے لیں کہ وہ وردی میں صدرِ پاکستان منتخب ہو جائیں‘ اور انکار پر جو حشر کیا‘ پھر وہی ہونا تھا‘ جو ہوا۔ اپنے بارے میں بہادر‘ نڈر اور بیباک ہونے کا جو افسانوی تصور ذرائع ابلاغ میں کچھ حامیوں کے توسط سے بنایا تھا‘ اس میں کسی کو راہ دینے کی گنجائش نہ تھی۔ یاد ہے‘ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے بارے میں کیا کہا کرتے تھے اور پھر کیسے کئی سال آسمانوں میں پروازیں کرنے کے بعد زمین پہ اترے تو اسے بہت گرم پایا۔ قدم ٹکا نہ سکے۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ اقتدار پر قبضہ آسمان کی بلندیوں پر اڑتے ہوئے کیا۔ بحران تو پیدا کر لیا‘ مگر پھر اس پہ قابو پانا ان کے بس میں نہ رہا۔
میاں نواز شریف صاحب نے تو بحران پیدا کرنے کے کھیل میں ایسے چھکے لگائے ہیں کہ ہر بار گیند سٹیڈیم کی بلند دیواروں سے اڑتی‘ متوازی سڑک کو پار کرتی ہوئی‘ ساتھ والے غریبوں کے محلے کی چھتوں کو چھوتی ہوئی تالاب کی گہرائیوں میں ایسی ڈوبی کہ کھیل کو وہیں روکنا پڑا۔ ہر دفعہ کھیل دوبارہ شروع ہوا‘ اور پھر باری متبادل ٹیم کو ملی۔ ہمارے راہبر ان کھیلوں‘ جنہیں آپ بحران بھی کہہ سکتے ہیں‘ میں باریاں لیتے رہے‘ ایک دوسرے پہ بال ٹیمپرنگ اور میچ فکسنگ کے الزامات بھی دھراتے رہے‘ عوام کے سامنے اپنی ”مظلومیت‘‘ کے قصے منظوم شکل میں سناتے رہے‘ لیکن عوام و قوم کی رہبری کی رسی کو اپنے ہاتھوں میں مضبوطی سے تھامے رکھا‘ جبکہ ہم مسافر پیچھے پیچھے ناک میں نکیل کا کرب سہتے اچھے‘ تابناک‘ روشن مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے بھاری قدموں کے ساتھ چلتے رہے۔ یہ فقیر تو کچھ تھک سا گیا ہے کہ زندگی بحرانوں میں گزر گئی‘ پیر چلنے سے جواب دے چکے‘ ہمت نہیں رہی‘ دل اب رہبروں کی رہبری پر یقین نہیں کرتا‘ اور کیسے کرے یہ سب کچھ دیکھ کر۔ غریب ملک کی دولت کا کیا ہوا؟ کن کن ممالک کے خزانوں میں‘ جزیروں کے بینکوں میں اور طاقتور مغربی ممالک کے بڑے سمگلروں کی جائیدادوں‘ ہوٹلوں‘ محلات‘ زمینوں اور سونے کے انباروں میں اسے تلاش کیا جائے؟
ماضی کا گردوغبار کبھی جستجو کی نمود سے دھل جائے تو راہبروں کے سب چہرے‘ سب قصے‘ سب فریب کاریاں روزِ روشن کی طرح سامنے آ جاتی ہیں۔ منزل تو کچھ اور تھی‘ اس کا وعدہ بھی کچھ اور تھا‘ لیکن قافلے راستے میں ہی لوٹے جاتے رہے۔ سفر وہیں تمام ہوتے رہے۔ کپتان کے لئے ایک اور امتحان کی تیاری ضروری ہو چکی‘ بحرانوں والے اب نو نہیں‘ گیارہ ہیں۔ لیکن ان گیارہ میں سے اکثریت تو انتخابات کی ”بھیانک‘‘ رات ہی اکٹھی ہو چکی تھی اور اپنے عزائم کا اظہار ہفتوں میں نہیں دنوں میں ہی کر دیا تھا۔ وہ نئے انتخابات کرانے پہ تلے ہوئے ہیں کہ شاید ان کی تقدیر بدل جائے کہ موجودہ حالات کا جبر اور یہ خدشہ کہ ملک کے حالات بہتر ہونے کے عمل میں تیزی آ گئی تو پھر ان کا بسیرا تپتے ہوئے سیاسی صحرائوں میں نہ ہو۔ یہ میں نے کیا کہہ دیا ‘ یہ صحرا تو ہماری قسمت میں ہیں اور ہم تو ان سے محبت کرتے ہیں‘ یہ ہمارے تو ہی ہیں۔ کامیابی نے ان کے قدم چومنے سے صاف انکار کر دیا تو پھر ان کی منزلیں تو طے ہیں۔ سرسبز‘ ٹھنڈے‘ چمکتے محلات دیار غیر ہمارے ممالک کے رہنمائوں کے لئے کبھی غیر متوقع نہیں ہو سکتے ہیں۔ کپتان کو یہ کھیل کھیلنا ہو گا‘ دیکھنا ہے کہ وہ جلسوں اور دھرنوں کے کھیل میں اپنا تجربہ کیسے استعمال کرتا ہے۔ میدان تو سجتا دکھائی دیتا ہے۔

About The Author