نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوش نصیب ہوں۔ چند دوست مجھے کسی صورت تنہائی اور گمنامی کی نذر ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے۔ ایسے ہی دو مہربانوں نے جمعہ کی رات فیصلہ کیا کہ گوجرانوالہ کا جلسہ میرے ہمراہ بیٹھ کر ٹی وی پر دیکھا جائے۔ یہ دونوں دوست مختلف ٹی وی چینلوں کی پالیسی سازی میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے لیکن میں ہذیاتی کیفیت میں مبتلا ہوگیا۔ تقریباََ ہر چینل کے ’’سٹار‘‘ اینکرز اس بحث میں الجھے ہوئے تھے کہ جلسے میں کتنے لوگ تھے۔ یہ سوال میری دانست میں انتہائی احمقانہ اور بچگانہ تھا۔ وقت کا غیر پیشہ وارانہ زیاں۔ اپوزیشن کی مختلف الخیال جماعتیں حکومت مخالف اتحاد میں یکجا ہو کر اگر کوئی جلسہ کریں تو ’’کتنے آدمی تھے؟‘‘ والا سوال کوئی معنی نہیں رکھتا۔ غور اس امر پر ہونا چاہیے کہ عوام کی توجہ کس ’’بیانیے‘‘ یعنی Narrative کی جانب مرکوز کرنے کی کوشش ہورہی ہے اور مذکورہ بیانیے کی پذیرائی کا کیا عالم ہے۔ ٹی وی سکرینوں پر یہ سوال کماحقہ Time لیتا نظر نہیں آیا۔
گوجرانوالہ کے جلسے سے قبل تواتر سے اس کالم میں اصرار کرتا رہا ہوں کہ مسلم لیگ (نون) کے گڑھ میں ’’لاکھوں کا اجتماع‘‘ بھی ہوجائے تو کوئی ’’انقلاب‘‘ برپا نہیں ہوگا۔ موسلادھار بارش کی طرح آئے گا اور گزرجائے گا۔ پنجاب پُلس اور انتظامیہ نے مگر روایتی پھرتیوں سے مذکورہ جلسے کو ضرورت سے زیادہ Hype فراہم کردی۔ سوشل میڈیا پر میسر بے تحاشہ کلپس کے ذریعے پیغام یہ ملا کہ مذکورہ جلسے میں لوگوں کی متاثر کن تعداد کو جمع ہونے سے روکا جارہا ہے۔ ناکوں اور کنٹینروں کی مدد سے گوجرانوالہ کے نواحی شہروں اور قصبات سے اس جلسے میں مقامی رہ نمائوں کو جلوسوں کے ہمراہ آنے کی سہولت غالباََ دستیاب نہیں ہوگی۔ اپوزیشن کے سرکردہ چودھریوں کے ڈیروں میں گھس کر ڈی ایس پی حضرات پولیس کی نفری سمیت جمع ہوئے افراد کو کرونا سے بچانے کے لئے منتشر ہونے کے احکامات بھی صادر کرتے رہے۔ ان تمام کاوشوں کو بالآخر کارِ بے سود ہی ثابت ہونا تھا۔ گوجرانوالہ میں بالآخر ’’میلے‘‘ جیسا ماحول بن گیا۔ مختلف جماعتوں کے قائدین بھی ’’قافلوں‘‘ کی رہ نمائی کرتے وہاں پہنچے۔ رونق لگ گئی۔
عمران حکومت کے خلاف جمع ہوتا غصہ بھی کئی مقامات پر بھرپور اظہار کی صورت اختیارکرتا نظر آیا۔ لطیفہ یہ بھی ہوا کہ ہم تین نام نہاد ’’سینئر صحافیوں‘‘ کو گوجرانوالہ جلسے کی “Live” ہونے کی دعوے دار Coverage دیکھتے ہوئے بھی موبائل فونزکی مدد سے ’’خبر‘‘ ملی کہ نواز شریف صاحب نے بھی لندن میں بیٹھے ہوئے اس سے ایک طویل اور دھواں دھار خطاب فرمایا ہے۔ وہ جو فرمارہے تھے اس کا ایک فقرہ جاننے کا موقع مگر نہیں ملا۔ کم از کم میں نے ہفتے کی صبح اُٹھ کر ناشتے کے بعد فیس بک کی بدولت مذکورہ خطاب کو سنا ہے۔ ’’کتنے بندے تھے؟!‘‘ والا سوال اس خطاب کے نتیجے میں فروعی ہی ثابت ہورہا ہے۔
عمران حکومت کے بلند آہنگ ترجمانوں اور وزراء کی ساری توجہ اس کا ’’جواب‘‘ دینے پر فوکس ہوگئی۔ حتیٰ کہ ہفتے کے دن وزیر اعظم صاحب کو بھی اپنی ٹائیگر فورس کے روبرو اس خطاب کی بدولت خود میں ’’نیا عمران خان‘‘ ڈھونڈنے کا اعلان کرنا پڑا۔ اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے انہوں نے ’’بھگوڑے‘‘نواز شریف کو وطن لوٹنے کا چیلنج دیا۔ اس عہد کے ساتھ کہ اب کی بار لوٹے تو جیل جائیں گے اور عام مجرموں کے ساتھ رہیں گے۔
انہیں کوئی “NRO” نہیں دیا جائے گا۔ نواز شریف کے حوالے سے NRO نہ دینے والے دعوے مجھے اب یاوہ گوئی سنائی دیتے ہیں۔ وہ عدالتی حکم پر لاہور جیل میں سزا کاٹ رہے تھے۔ وہاں سے سرنگ کھود کر بیرون ملک کسی آبدوز میں بیٹھ کر نہیں پہنچے۔ حکومت ہی نے پہلے انہیں جیل سے نکال کر ہسپتال پہنچایا اور بعدازاں ایک عدالتی حکم اور وفاقی کابینہ کی اجازت کے بعد وہ جیب میں پاسپورٹ ڈال کر ایک باقاعدہ پرواز کے ذریعے براستہ قطر لندن چلے گئے۔ برطانیہ میں باقاعدہ ویزے کے ساتھ داخل ہوئے کسی غیر ملکی شہری کو وہاں کی حکومت اپنے ہاں سے بیدخل کرنے کی عادی نہیں۔
’’غداری‘‘ کے مقدمات بلکہ اسکے وہاں قیام کو یقینی بنادیتے ہیں۔ یہ حقیقت اب تسلیم کرلینا ہوگی کہ نواز شریف کسی نہ کسی نوعیت کے NRO کی بدولت ہی ان دنوں برطانیہ میں موجود ہیں۔ وہاں سے لوٹنے کا اختیار بھی انہیں حتمی انداز میں منتقل ہوچکا ہے۔ ’’بھگوڑے‘‘ کے خلاف بیان بازی لہٰذا محض Spin Doctoring ہے۔ بڑھک بازی کے سوا کچھ نہیں۔ ہمارے ہاں ’’تاریخ میں پہلی بار‘‘ والی یاوہ گوئی بھی جاری رہتی ہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو اپریل 1986 میں جلاوطنی کے بعد پاکستان لوٹی تھیں تو اپنے ہرجلسے کے اختتام پر ایک سوال اٹھاتی تھیں:’’ضیا رہے یا جاوے؟‘‘۔ ان کے اس سوال کا جواب ’’جاوے- جاوے‘‘ کی مجذوبانہ گردان سے ملتا۔ یاد رہے کہ ان دنوں جنرل ضیاء چیف آف آرمی سٹاف کی وردی پہنے ہمارے بااختیار صدر ہوا کرتے تھے۔ ’’جاوے جاوے‘‘ کی گردان کے باوجود مگر وہ 17 اگست 1988 تک اپنے منصب پر فائز رہے۔ کسی ’’عوامی تحریک‘‘ نے انہیں فارغ نہیں کیا تھا۔ فضائی حادثے کی نذر ہوئے تھے۔ نواز شریف کی جانب سے ’’چندنام‘‘ لے کر ان سے ’’جوابدہی‘‘ کی گفتگو کو بھی میں اس تناظر ہی میں دیکھنے کو مجبور ہوں۔ جو ’’نام‘‘ لیا گیاہے صرف چند ہی ماہ قبل مسلم لیگ (نون) کے اراکین پارلیمان کی بھرپور معاونت کی بدولت بنائے ایک قانون کے ذریعے اپنے منصب میں ’’باقاعدہ‘‘ ہوئی توسیع کے ذریعے براجمان ہیں۔
ان کام نام لیتے ہوئے درحقیقت گلے شکوے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان صاحب کو ان کی بابت چراغ پا ہونے کی ضرورت نہیں۔ انگریزی محاورے کے مطابق بلکہ انہیں Last Laugh سے لطف اندوز ہونا چاہیے۔خدارا گورننس پر توجہ دیں۔ وطنِ عزیز کا اہم ترین مسئلہ اس وقت ناقابل برداشت حدود کو چھوتی مہنگائی اور بے روزگاری ہے۔ ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کی گزشتہ حکومتوں کو اُس گندم کی موجودہ قیمت کا ذمہ دار ٹھہرایا نہیں جاسکتا جو رواں برس کے اپریل اور مئی کے درمیان کٹی تھی۔ وفاقی اور پنجاب حکومت نے سینہ پھیلاتے ہوئے ہمیں یقین دلایا تھا کہ ’’ذخیرہ اندوزوں‘‘ کو ان کی مستعد نگہبانی نے ضرورت سے زیادہ ایک دانہ بھی جمع کرنے نہیں دیا۔ بجلی اور گیس کے نرخ بھی عمران حکومت ہی تواتر سے بڑھاتی رہی ہے۔ IMF مگر اب بھی مصر ہے کہ Cost Recovery نہیں ہورہی۔ اس کے ساتھ اقساط میں 6 بلین ڈالر کی ’’امدادی رقم‘‘ حاصل کرنے کا ایک معاہدہ ہوا ہے۔
آئندہ قسط کے حصول کے لئے بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے کا تقاضاہورہا ہے۔ مطلوبہ اضافے کے باوجود سردیوں کے موسم میں گیس کا ریکارڈ بحران نمودار ہونا یقینی بتایا جارہا ہے۔ ’’ٹائیگرفورس‘‘ اس وسیع تر تناظر میں کوئی کردار ادا کر ہی نہیں سکتی۔ طلب اور رسد کی منطق اور اسے انتظامی فیصلوں سے Regulate کرنے کے طریقے ڈھونڈنا ہوں گے۔ منہ پر ہاتھ پھیر کر ہوئی ’’جوابی‘‘ تقاریر کے بجائے مہنگائی اور بے روزگاری کو قابو میں رکھنے کی مؤثر حکمت عملی تیار کرنا ہوگی۔ نواز شریف کے گوجرانوالہ میں ہوئے خطاب کا ’’حقیقی بوجھ‘‘ ان کے نام سے منسوب ہوئی جماعت ہی کو برداشت کرنا ہوگا۔ PDM میں شامل چند جماعتیں بھی اس ضمن میں ’’ریڈ لائن‘‘ کھینچے کو مجبور ہوں گی۔ انگریزی کا ایک اور محاورہ مشورہ دیتا ہے کہ اپنے مخالفین کو ان کے اپنے اندر ’’اُبلتے شوربے‘‘ کی زد میں رہنے دو۔ نواز شریف کے خطاب سے اصل ’’اُبال‘‘ PDM کی ہانڈی میں آئے گا۔ تحریک انصاف کو اس کی بابت پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ سوشل میڈیا نے ہمیں لیکن ہیجان کی علت میں مبتلا کردیا ہے۔ اس ہیجان کے ہوتے ہوئے عقل کا استعمال کسی کام نہیں آتا۔ میں بھی ذاتی طورپر غور و فکر سے جند چھڑانے کی کاوشوں میں مصروف ہوچکا ہوں۔ اپنا جی علم نجوم کے اسرار سے آشنا ہونے کی لگن میں بہلاتا ہوں۔
16 اکتوبر کے جلسے کی بدولت پھوٹے ہیجان سے پریشان ہوا تو یاد آیا کہ چند ہی روز قبل میرے ایک پسندیدہ نجومی -Steve Judd- نے ایک وڈیو تیار کی تھی۔ عطارد کے رجعت پذیر ہونے پر توجہ دیتے ہوئے اس نے متنبہ کیا کہ 16 اکتوبر کو جو ’’نیا چاند‘‘ نمودار ہوگا کہ وہ دُنیا کے کئی ممالک میں ہیجان برپا کرے گا۔ سیاسی فریق تخت یا تختہ والے رویے کے ساتھ ایک دوسرے کے خلاف جارحانہ رویے اختیار کرتے نظر آئیں گے۔ یہ کالم دفتر بھیج دینے کے بعد میں دوبارہ اس کے تازہ ترین خیالات سے رجوع کروں گا۔ سیلاب پریشان تو کرتے ہیں مگر بالآخر گزرجایا کرتے ہیں۔ میں بھی اپنے گھر تک محدود ہوا سیلاب کے گزرجانے کا منتظر رہوں گا۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر