ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک خبر کے مطابق سمہ سٹہ تا بہاولنگر (امروکہ ریلوے سیکشن) کی بحالی کیلئے ٹینڈر جاری کر دیئے گئے ہیں، اس منصوبے پر ساڑھے 12 کروڑ روپے لاگت آئے گی۔ یقینا سمہ سٹہ بہاولنگر بہت اہم روٹ ہے،میں انہی صفحات کے ذریعے عرصہ دراز سے لکھ رہا تھا کہ بہاولنگر کے لوگوں کو سفری سہولتیں میسر نہیں ہیں‘ اس کو بحال کیا جائے کیونکہ بہاولنگر قدم قدم پر مشکلات کا شکار ہوا‘ سب سے بڑا عذاب تو دریائے ستلج کی فروختگی کا ہے‘ جس سے بہاولنگر، بہاولپور اور رحیم یارخان کے علاقوں میں چولستان کے بعد ایک اور چولستان وجود میں آ رہا ہے‘
اس موقع پر ہم وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی سے بھی مطالبہ کریں گے کہ خارجہ سطح پر ہندوستان سے مذاکرات کر کے دریائے ستلج کی پھر سے بحالی کیلئے اقدامات کریں۔ اس کے ساتھ میں نے ایک درخواست کے ذریعے وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد سے مطالبہ کیا تھا کہ وسیب کے لئے بند ہونیوالی ٹرینوں خصوصاً سمہ سٹہ امروکہ سیکشن کو بحال کیا جائے،اچھی بات ہے کہ حکومت ریل کی بحالی کی سلسلے میں سمہ سٹہ بہاولنگر سیکشن کو بھی بحال کر رہی ہے اس سے جہاں اس علاقے کے لوگوں کا فائدہ ہے وہاں حکومت کا بھی فائدہ ہے کہ مردہ ٹریک ایک بار پھر زندہ ہو جائے گا اور اس سیکشن پر جو ملازمین مفت میں تنخواہیں وصول کر رہے تھے وہ مصروف کار ہو جائیں گے۔
اس کے ساتھ میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ شیخ رشید صاحب کا یہ بیان کہ ریلوے ہیڈ کوارٹر لاہور کی بجائے کراچی ہونا چاہئیے قرین انصاف نہیں بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ریلوے ہیڈ کوارٹر ملتان ہونا چاہئیے کہ ملتان کراچی،پشاور کے وسط میں ہے اس کو سب سے برابر سہولتیں حاصل ہونگی۔تھوڑا پسِ منظر کے بارے میں عرض کروں کہ سمہ سٹہ بہاولنگر ریلوے لائن 1895ء میں تعمیر ہوئی، یہ ریلوے لائن مملکت خداداد بہاولپور اور ہندوستان کے درمیان تجارت اور مواصلاتی سہولت کا اہم ذریعہ تھی۔ یہ ریلوے لائن امروکہ، بٹھنڈہ کے نام سے مشہور ہے۔
اس کی اہمیت اس لحاظ سے زیادہ ہے کہ یہاں سے دہلی کا سفر واہگہ بارڈر اور کھوکھرا پار سے کہیں کم ہے اور مزید اس کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ یہ علاقہ کراچی، پشاور کے وسط میں ہے اور اس وجہ سے اس کی مرکزی حیثیت بنتی ہے۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ واہگہ سے پہلے اس بارڈر کو کھولا جاتا تاکہ پاکستان کے درمیانی علاقوں کے ساتھ کوئٹہ، کراچی اور پشاور والوں کو ہندوستان جانے کیلئے برابر مسافت طے کرنا پڑتی اور سب لوگ سمہ سٹہ سے بذریعہ ٹرین دہلی چلے جاتے مگر ریلوے ہیڈ کوارٹر لاہور میں بیٹھے ہوئے حکمرانوں کی اپنی ترجیحات اور اپنی سوچ ہے۔
اگر قومی یا ملکی سوچ ہے تو سب سے پہلے امروکہ بٹھنڈہ بارڈ کھولا جانا چاہئے، واہگہ اور کھوکھرا پار کی باری بعد میں آتی ہے۔قیام پاکستان سے پہلے سمہ سٹہ تا دہلی براستہ امروکہ بٹھنڈہ بہت بڑا ریلوے روٹ تھا اور یہاں سے چلنے والی پسنجر و گڈز ٹرینوں کی تعداد دوسرے روٹوں سے کہیں زیادہ تھی اور بہاولنگر اس روٹ کا بہت بڑا اسٹیشن اور تجارت کا بہت بڑا مرکز تھا۔ بہاولنگر کا ریلوے اسٹیشن اتنا وسیع اور خوبصورت تھا کہ سیاح محض اسے دیکھنے کیلئے آتے تھے۔
مگر قیام پاکستان کے بعد امروکہ بٹھنڈہ روٹ بند ہونے سے سب کچھ اجڑ گیا۔ آج اگر اس سٹیشن کی زبوں حالی اور بربادی کا نظارہ کیا جاتا ہے تو سنگدل سے سنگدل آدمی کی آنکھوں میں بھی آنسو آ جاتے ہیں۔کہنے کو کہا جاتا ہے پاکستان نے بہت ترقی کر لی ہے مگر صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں ریلوے نظام کو توسیع دینے کی بجائے پاکستان میں انگریز کی طرف سے بنائے گئے کئی ریلوے سیکشن بند ہوئے اور سینکڑوں کلومیٹر ریلوے لائنیں اکھاڑ لی گئیں جبکہ بھارت نے ہزاروں کلومیٹر نئی ریلوے لائن بچھائیں اور کئی میٹر گیج سے براڈ گیج یعنی چھوٹی لائنوں کو بڑی لائنوں میں تبدیل کیا۔
جبکہ پاکستان میں 126 کلومیٹر طویل سیکشن پر 31 ریلوے اسٹیشن عملی طور پر بے کار پڑے ہیں۔ اب موجودہ حکومت یہ سیکشن بحال کر دیتی ہے تو یہ اس کا مثبت قدم ہے اور علاقے کے لوگ دعائیں دیں گے مگر دوسری طرف بھارت کا ایک ریلوے اسٹیشن فاضلکا جو امروکہ سے آگے والا اسٹیشن ہے بند ہوا جبکہ اس سے اگلے سٹیشن بٹھنڈہ جنگشن کو بھارت نے اتنی وسعت دی کہ اب وہاں سے سات ریلوے لائنیں مختلف علاقوں کیلئے نکلتی ہیں اور ہمارا میکلوڈ جنکشن جسے اب منڈی صادق گنج کہا جاتا ہے، دیدہ عبرت بنا ہوا ہے۔
بٹھنڈہ سے آگے فیروز پور ہر طرح کی ترقی اور مواصلاتی سہولتوں سے مزین ہے جبکہ ہمارا بہاولنگر اسٹیشن بندہے۔ کیا ہمارے حکمرانوں نے اس پر کبھی غور کیا کہ یہ ترقی ہے یا ترقی معکوس؟لیڈ ر شپ کے مقابلے میں غریب اور پسے ہوئے لوگ بہت با شعور ہو چکے ہیں، میں نے ان سے گفتگو کی تو وہ ستلج دریا کی موت، امروکہ، بٹھنڈہ ریلوے بارڈر کی کشادگی، بہاولنگر میں کیڈٹ و میڈیکل کالج کے قیام اور لاہور کیطرح بہاولنگر کیلئے بھی سندر انڈسٹریل اسٹیٹ کی باتیں کر رہے تھے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بہاولنگر سمیت تمام پسماندہ علاقوں میں میڈیکل کالج بنائے جائیں اور وہاں مقامی طالب علموں کا کوٹہ مقرر کیا جائے۔
امروکہ، بٹھنڈہ بارڈر کھولا جائے، دریائے ستلج کیلئے پانی کا انتظام کیا جائے، تعلیمی سہولتوں کے ساتھ بے روزگاری کے خاتمے کیلئے انڈسٹریل سٹیٹس قائم کی جائیں۔ انسانی ضرورتوں اور سہولتوں کیلئے آج اگر ہر وقت حالت جنگ میں رہنے والے خطے کشمیر کے بارڈر کو کئی جگہوں سے کھول دیا گیا تو انسانی ہمدردی کے تقاضے کے عین مطابق امروکہ بٹھنڈہ بارڈر کھولنے میں کیا حرج ہے؟
وسیب کے لوگ عرصہ دراز سے مطالبات کرتے آ رہے ہیں‘ وسیب کے لوگ پاکستان سے محبت کرتے ہیں‘ پاکستان کی سرزمین اور اداروں سے محبت کرتے ہیں‘ وسیب کے لوگ ماسوا اس کے کچھ نہیں چاہتے کہ ان کو ان کا حق دیا جائے‘ وفاق پاکستان میں ایک اکائی کے طور پر ان نمائندگی دی جائے‘ وہ کسی بھی لحاظ سے نہیں چاہتے کہ ان کو برتر صوبہ دیا جائے بلکہ وسیب کے لوگوں کا مطالبہ فقط اتنا ہے کہ ان کو اسی طرح کا صوبہ دیا جائے جس طرح کے دوسرے صوبے ہیں‘ وسیب کے لوگ برتر صوبہ مانگتے ہیں اور نہ کمتر قبول کریں گے۔ وزیراعظم عمران خان‘ ان کی کابینہ اور وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار اس سلسلے میں جتنا جلد ہو سکے اقدامات کریںاگر آج بھی وسیب کے کیلئے اقدامات نہ ہوئے تو وسیب کو ملنے والے طعنوں میں اضافہ ہو جائے گا اور کہا جائے گا کہ وزیراعظم عمران خان‘ وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور بھاری بھرکم کابینہ کا وسیب سے تعلق ہونے کے باوجود کوئی اقدام نہیں کیا تو پھر تخت لاہور و تخت پشور کو دوش کیوں؟
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ