نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہاتھ تھامنے کے لمحات۔۔۔رضاعلی عابدی

ہوا یہ ہے کہ اس جان لیوا کور ونا کا لقمہ بننے والے اکثر وہ بوڑھے ہیں جن کی عمریں ستّر اسیّ سے اوپر جا چکی ہیں۔

رضاعلی عابدی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم ہمیشہ سنتے آئے تھے کہ برطانوی معاشرے کا یہ عجیب و غریب چلن ہےکہ یہ لوگ ایک دوسرے کو چھونا پسند نہیں کرتے۔ بس میں یا ٹرین میں بیٹھیں گے تو کوشش کریں گے کہ برابر میں کوئی نہ بیٹھاہو، اپنے شانے سے کسی دوسرے کا شانہ نہ چھو رہا ہو۔یہی سنا تھا ہمیشہ۔ مگر کورونا کی وبا نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے، ہر رویہ، ہر روایت تبدیل ہو رہی ہے اور ایسے ایسے منظر دیکھنے میں آرہے ہیں جو پہلے کبھی دیکھے نہ تھے۔ہیں تو بڑے دل دکھانے والے منظر مگر انسانی فطرت اپنا کام جاری رکھتی ہے، اسے رسم و رواج سے غرض نہیں۔

ہوا یہ ہے کہ اس جان لیوا کور ونا کا لقمہ بننے والے اکثر وہ بوڑھے ہیں جن کی عمریں ستّر اسیّ سے اوپر جا چکی ہیں۔ اب یہ ہورہا ہے کہ زندگی کے آخری لمحات میں ان کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنے بچوں یا پوتوں پوتیوں کا ہاتھ تھامے رہیں اور اسی کیفیت میں دنیا سے سدھاریں۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ کورونا کے مریض کے قریب جانا بھی ممنوع تھا چہ جائیکہ کوئی ان کے سرہانے موجود رہے اور ان کا کانپتا ہوا، لرزتا ہوا ہاتھ تھامے۔ حالت یہ ہوگئی تھی کہ اسپتال کے اندر گھر کا بزرگ بستر پہپڑا زندگی کی آخری گھڑیاں گن رہا ہے اور اس کے بال بچے ، گھر انے کے دوسرے افراد اسپتال کے باہر کھڑے شیشوں والی کھڑکی سے جھانک کر اسے دیکھ رہے ہیں یا وہیں سے ہاتھ ہلا کر اسے خیرباد کہہ رہے ہیں۔

پھر یہ ہوا کہ بعض مریضوں نے ، خاص طور پر اپنی طرف کے بزرگوں نے دم ِ آخر اصرار کیا کہ وہ کسی کا ہاتھ تھامنا چاہتے ہیں۔ یہ مطالبہ انسانی فطرت کا اتنا حسّاس اور نازک جذبہ لئے ہوئے تھا کہ حکام کو کوئی حل نکالنا پڑا۔ طے یہ پایا کہ اسپتال کی نرسوں پر لازم ہوا کہ وہ دم توڑتے مریضوں کا ہاتھ تھامیں۔اس پر عمل ہوا مگر مریض کے عزیزواقارب کی بے بسی اور ان کا تڑپنا کم نہ ہوا۔ بالآخر پہلا حکم بدلا گیا ہے اور فیصلہ یہ ہوا ہے کہ مریض کا ایک ایک رشتہ دار چہرے پر ماسک باندھ کر اس کے قریب پندرہ منٹ گزار سکے گا ۔اور یہ بھی طے پایا ہے کہ دمِ آخر ایک رشتہ دار اس کا ہاتھ تھام سکے گا۔

زندگی کی راہ کے یہ آخری چند قدم کیسے طے ہوتے ہیں ،ہمیں اس کا تجربہ نہیں لیکن مجھے اپنے والد کی عمر کی آخری گھڑیاں یاد ہیں۔ وہ کراچی کے اسپتال میں زیر علاج تھے، فالج کا حملہ ہوچکا تھا، دل لڑکھڑانے لگا تھا اور بلڈ پریشر کی اس وقت تک کوئی دوا دستیاب نہ تھی۔ ابّا رخصت ہورہے تھے، تب انہوں نے ایک ایک بیٹے کا ہاتھ تھاما جس میں حرارت بھی تھی اور گرفت بھی لیکن صاف لگتا تھا کہ حرارت بھی ٹمٹما رہی ہے اور گرفت بھی ڈھیلی پڑتی جارہی ہے۔ ایک ایک بیٹا ان کے سرہانے بیٹھا رہایہاں تک کہ ان کا ہاتھ ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔

یہ لمحے دل و دماغ کو بہت ستاتے ہیں۔ اکثر کسی کے مرنے کی خبر آتی ہے تو اس کے ساتھ یہ جملہ بھی نتھی ہوتا ہے کہ آخر وقت میں مرحوم کے عزیز و اقارب قریب موجود تھے۔انسان کی زندگی کے آخری لمحات کتنے معنی رکھتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اگر پولیس بیان لکھ رہی ہو اور یہ اس شخص کا دم آخر ہو تو اُس بیان کو درست مانا جاتا ہے۔اس وقت انسان سچ بولتا ہے، سچ کے سوا کچھ نہیں بولتا۔

ایک بار پھر کورونا کی طرف آتے ہیں جو جاتا دکھائی دیتا ہے مگر لوٹ لوٹ کر آتا ہے۔ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ اّول تو ظالم کی کوئی دوا نہیں، دوسرے کوئی دوا ، کوئی کیمیائی مادہ اس پر اثر نہیں کرتا جس سے اسے ماردیا جائے۔ پہلے خبر تھی کہ خشک سطح پر ہو تو دو ڈھائی گھنٹے میں خود ہی مر جاتا ہے۔ پھر خبر آئی کہ نہیں، چھ سات گھنٹے میں مرتا ہے، آخریہ سننے میں آیا کہ یہ سب کہنے کی باتیں ہے،وہ مرتا ہی نہیں۔یہ کیسا وائرس ہے کہ تھوک کے نہایت چھوٹے قطروں میں اڑان بھرتا ہے اور آس پاس موجود لوگوں کے وجود میں اتر جاتا ہے۔ عجب بات یہ ہے کہ کچھ مریض دس بارہ دن میں خود ہی صحت یاب ہوجاتے ہیں اور کچھ بدن میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے تڑپ تڑپ کر رہ جاتے ہیںپہلے سنا تھا کہ بچے اس سے محفوظ رہتے ہیں، پھر کہا گیا کہ بچے بھی بیمار ہورہے ہیں۔ تازہ تحقیق یہ ہے کہ جو مریض ٹھیک ہو کر اپنے گھروں کوچلے گئے ، انہیں کوئی نہ کوئی عارضہ لگ رہا ہے اور وہ پوری طرح صحت مند نہیں ہوئے ہیں۔

ایسے ہی اسباب ہیں کہ مرض لوٹ لوٹ کر آرہا ہے اور ان لوگوں سے دانت بھینچ بھینچ کر انتقام لے رہا ہے جو سمجھ بیٹھے ہیں کہ اپنی چوٹی پر پہنچنے کے بعد اب وائرس روبہ زوال ہے۔ یہ محض مغالطہ ہے۔ کورونا اتنی آسانی سے جانے والا نہیں۔ بس شیشوں والی کھڑکی سے ہاتھ ہلا کر اسے خیر باد کہہ دیجئے اور کسی چوں چرا ںکے بغیر چہرے پر نقاب باندھ لیجئے۔ آپ مرض سے بھی محفوظ رہیں گے اور اگر کوئی جرم کرکے بھاگے ہیں اور پولیس آپ کا پیچھا کر رہی ہے تو آپ اُس کی پکڑ سے بھی محفوظ رہیں گے۔

یہ میں نہیں کہہ رہا، حالات کہہ رہے ہیں۔

About The Author