ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
متحدہ عرب امارات کی طرف سے 1700 تلور رحیم یارخان سے ملحقہ چولستان میں چھوڑے گئے ہیں اور بتایا گیا ہے کہ یہ پاکستان کیلئے متحدہ عرب امارات کا تحفہ ہے۔ تلور چھوڑنے کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ چولستان میں دنیا کی قیمتی پرندے تلور کی افزائش ہو لیکن سوال یہ ہے کہ تلور کی نسل کس نے ختم کی؟
چولستان میں اب ہرن بھی تقریباً نایاب ہو چکا ہے ، اس کا شکار کس نے کیا؟ چولستان جو کہ امن کی دھرتی ہے اور جہاں سے سائبریا کی سردی سے بچ کر پناہ لینے کیلئے مسافر پرندے چولستان میں آتے ہیں ‘ ان کو کس نے ختم کیا ؟
جب اس بات کی تحقیق کرتے ہیں تو ساری بات شکاریوں پر آتی ہے ، پاکستان میں سرمایہ دار جاگیردار اور بڑے بڑے سیاستدان چولستان کے پرندوں اور جانوروں کے قاتل ہیں ، رہی سہی کسر عرب سے آنے والے شکاریوں نے پوری کر دی ۔ متحدہ عرب امارات و دیگر عرب ممالک کے شیوخ سے اتنی درخواست ہے کہ وہ تلور کے تحفے دینے کی بجائے چولستان کے پرندوں پر رحم کریں اور شکار کھیلنا بند کر دیں ۔
میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ تلور کا شکار عرصہ دراز سے جاری ہے اور حکومت پاکستان کی طرف سے تلور کے شکار پر 1972 سے پابندی ہے ، کوئی پاکستانی تلور کا شکار نہیں کھیل سکتا، البتہ غیرملکی عرب شکاریوں اور شہزادوں کو تلور کے شکار کیلئے خصوصی پرمٹ جاری کئے جاتے ہیں ۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پاکستان میں تلور معدوم ہو گیا اور سائبریا سے اس کی آمد کا سلسلہ کم ہو گیا ۔ 1983 میں پشاور میں ایک سمپوزیم تلور کی بقاء کیلئے منعقد ہوا ۔ سمپوزیم میں شرکاء نے جنرل ضیا الحق سے مطالبہ کیا کہ پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ غیر ملکیوں کو بھی تلور کے شکار کی اجازت نہ دی جائے ۔
جنرل ضیاء نے اس پر قطعا توجہ نہ دی ۔ جنرل ضیا کے بعد پی پی حکومت نے بھی ہماری عرضداشتوں پر توجہ نہیں دی اور پنجاب میں تو جنرل ضیا کے حامیوں کا مسلسل اقتدار چلا آ رہا ہے ، وہ وسیب کے کروڑوں انسانوں کی فریاد کہاں سنتے ہیں ؟ ایک غیر ملکی تنظیم ’’ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ ‘‘ تلور کی نسل معدوم ہونے سے بچانے کیلئے ایک عرصے سے کام کر رہی ہے ، اس تنظیم کے صدر ’’ پرنس فلپ ‘‘ کئی سال پہلے مختلف سربراہان مملکت کو یاداشتیں روانہ کیں جس میں تلور کے شکار پر پابندی کی اپیل کی گئی، ان کی اپیل پر ایران ، تیونس ، مصر اور لیبیا نے پابندی عائد کر دی مگر مراکش، الجزائر اور پاکستان نے ایسا نہیں کیا۔
حالانکہ اس اہم مسئلے پر ہمدردانہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ تلور کے شکار کیلئے عرب شیوخ نت نئی ترکیبیں ایجاد کرتے رہتے ہیں ، شکاریوں نے چولستان میں تلور کے شکار کیلئے زون بنارکھے ہیں ۔ ہر زون میں شکاری فوج کے سپاہیوں کی طرح چوکس و کمر بستہ رہتے ہیں ، وائرلیس اور موبائل کے ذریعے ایک دوسرے کو تلور کی آمد ، پرواز اور سمت سفر کی اطلاع دی جاتی ہے ۔
پھر شکاری لشکر حرکت میں آ جاتے ہیں اور تلور کو شکار کیلئے تربیت یافتہ باز چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ تلور بہت اونچی پرواز کرتا ہے اور باز بھی تلور سے جنگ کیلئے بہت اوپر چلا جاتا ہے ۔ تلور باز کو شکست دینے کیلئے سائنسی حربے بھی استعمال کرتا ہے اور پانا زہریلا سیال مادہ اس پر پھینکے کی کوشش کرتا ہے تاکہ باز اندھا ہو کر گر پڑے ، اگر اس میں تلور کامیاب نہ ہو سکے تو پھر تلور اور باز کی باقاعدہ جنگ ہوتی ہے۔
پلٹنے جھپٹنے کے ان داؤ پیچ اور چنگی حربوں کو دور بینوں کے ذریعے دولت مند شکاری بڑی توجہ سے دیکھتے ہیں اور اگر تلور کے پنجوں کا داؤ چل جائے تو باز نیچے آ گرتا ہے اور اگر باز تلور کو شکار کر لے تو ایسے سمجھیں جیسے اسرائیل فتح ہو گیا ، پھر جشن ہوتا ہے ا ور ایک آدھ کلو تلور کا گوشت جو لاکھوں اور بعض اوقات کروڑوں میں پڑتا ہے ، بڑے شوق سے بھون کر کھایا جاتا ہے۔ یہ عیاشیاں مسلم دنیا کے زوال کا باعث ہیں۔ ایٹمی تباہ کاریوں ، کیمیائی اسلحے کے استعمال ، زرعی ادویات کی وباء ، کارخانوں کے زہریلے دھویں سے خصوصاً جنگلوں اور درختوں کے اتلاف کے نتیجے میں صرف جنگلی حیات ہی نہیں موسم بھی تبدیل ہو رہے ہیں ۔ موسموں کی تبدیلی سے صرف زمین ہی متاثر نہیں ہو رہی بلکہ زیر زمین دنیا بھی تغیرات کا شکار ہے ، زیر زمین پانی آلودہ ، کڑوہ اور خراب ہو رہا ہے اور پانی کا لیول گرنے کے ساتھ ساتھ زمین کی پلیٹیں ہلنے سے زلزلے بھی آ رہے ہیں ۔
یہ تمام صورتحال آنے والے وقتوں کیلئے نہایت ہی تباہ کن خطرات کی نشاندہی کر رہی ہے ۔ آج یورپ ، امریکا کو جنگوں اور انسانی تباہ کاریوں کی بجائے انسانیت اور کائنات کی بقاء کیلئے دولت خرچ کرنے کی ضرورت اور اس طرح عرب کے مسلم دولت مند ملکوں کو پرندوں کے شکار پر دولت ضائع کرنے کی بجائے ان چرند پرند اور زمین کے جمادات و نباتات کی افزائش پر دولت خرچ کرنا چاہئے۔ بصورت دیگر یاد رکھنا چاہئے کہ یہ زمین ہی نہ رہی تو پھر شکار کہاں سے آئے گا ؟ اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ پرندے اس کائنات کا حسن ہیں ، ان کی چہچہاہٹ ہماری سانسوں اور ہمارے اپنے دل و دماغ کی تازگی ہے اور ان کی بقاء در اصل ہماری اپنی ہی زندگی ہے ۔
ان پرندوں کو خدارا کہیں جانے نہ دیں اور انہیں مرنے نہ دیں ، احمد فراز نے سچ کہا :۔ پیڑ اسی احساس سے مر جاتے ہیں سارے پرندے ہجرت کرجاتے ہیں راہ گیروں کی آوازوں کو غور سے سن یوں ہے جیسے ماتم کر جاتے ہیں بات صرف پرندوں تک محدود نہیں ، یہ ظالم شکاری چولستان کے اصل وارثوں کو بھی دھرتی پر نہیں رہنے دے رہے ۔ جہاں عرب بدو پرندوں کے شکاری ہیں ، وہاں وہ پریوں کے بھی شکاری ہیں جو کہ پنجاب کے کارندے ان کو مہیاکرتے ہیں اور ان سے بھاری فیس لیکر وسیب کے بڑے چوہدری بنے ہوئے ہیں ۔ اب کا شکار پورا وسیب اس کے وسائل اور یہاں کی بہشت نما مقدس سر زمین ہے ، وسیب کے سوجھوان کو یہ سوچنا چاہئے کہ ہم نے اپنے آپ کو اور اپنی دھرتی کو ان شکاریوں سے کیسے بچانا ہے ۔ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ عظیم خطہ وچولستان کے وارث وسیب کے لوگ ہیں ۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ