نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اپوزیشن اتحاد سے حکومت کو کتنا خطرہ؟۔۔۔ احمد اعجاز

بے روزگار نوجوانوں کی اُمیدیں دَم توڑرہی ہیں۔سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو کیا خبر کہ آٹا مہنگا ہوتو غریب دیہاڑی دار کتنا پریشان ہوتا ہے؟
احمد اعجاز 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپوزیشن جماعتوں نے اپنے اتحادکو ،پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم) کا نام دیا اور یہ اتحاد’’جمہوریت کو خطرہ ہے‘‘کے نام پر قائم ہوا۔پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے گوجرانوالہ میں کل جلسہ ہوگا۔گوجرانوالہ ،مسلم لیگ ن کا شہر سمجھا جاتا ہے۔اس شہر کا انتخاب بھی اس لیے کیا گیا کہ جلسے میں لوگوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کی شمولیت کی بِنا پر کامیاب قراردیا جاسکے۔

جلسے جلوسوں کے پہلے مرحلے میں پی ڈی ایم لوگوں کی بڑی تعداد کو ہی اپنی تحریک کی کامیابی پر اکتفا کرے گی،اس کے علاوہ پہلے مرحلے کے جلسے جلوسوں کا منتہااور کچھ نہیں۔پی ڈی ایم میں شامل پی ایم ایل این اور جے یو آئی ف کے پاس اپنے کارکنوں کو گھروں سے نکالنے کی صلاحیت ہے۔آنے والے کل بھی ایسا ہی ہوگا کہ لوگوں کی معقول تعداد گھروں سے نکلے گی،

جلسے کو رونق بخشے گی،سیاسی رہنمائوں کی تقریریں سنے گی ،پھر گھر کو لوٹ جائے گی، اپوزیشن جماعتوں کے رہنما کئی دِن ٹی وی ٹاک شوز اور پریس کانفرنسوں میں کامیاب جلسے کا شورمچاتے رہیں گے۔جلسے میںرہنما تقریروں کے ذریعے لوگوں کو کیا بتائیں گے؟وہی باتیں ،جو کئی دِنوں سے دُہرائی جارہی ہیں۔اس کے علاوہ بتانے کو نیا کیا ہے؟

جلسے میں تقریروں کا شور جیسے ہی تھمے گا،حکومتی وزیر اور مشیر پریس کانفرنس کے ذریعے تمام مقررین کی تقریروں کا پوسٹ مارٹم کریں گے ،لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس پریس کانفرنس کو غور سے سنیں گے اور پھرنئے دِن کا سورج طلوع ہوگا،مگر نیا دِن بھی اپوزیشن جماعتوں کے سربراہان کی تقریروں اور حکومتی وزیروں اور مشیروں کی پریس کانفرنس میں کی گئی گفتگوجیسا ہی ہوگا…پرانااور گھسا پٹا…مگر پی ڈی ایم اور نہ حکومت کو نئے دِن کی یبوست زدگی کا احساس ہوگا اور نہ ہی عوام کی ایک بڑی تعداد کو۔

یہ دِن انگڑائیوں سے پھوٹے گا اور جمائیوں میں غروب ہوجائے گا۔ مئی دوہزار تیرہ کے انتخابات کے ایک سال مکمل ہونے پر پاکستان تحریک انصاف نے گیارہ مئی دوہزارچودہ کو اسلام آباد میں جلسہ کرنے کا اعلان کیا تھا اور بعدازاں جب پی ٹی آئی اور پی اے ٹی نے وفاقی دارالحکومت پر دھاوا بولاتو ٹیلی ویژن کی سکرینوں پر تقریروں کا بازار گرم ہوا،یہ تقریریں ،انتخابات میں دھاندلی سے شروع ہوتیں اور اُس وقت کے وزیرِ اعظم نوازشریف کے استعفیٰ پر ختم ہوتیں تو حکومت کے وزیر مشیر پریس کانفرنس شروع کردیتے۔

اُس عرصہ میں سب سے طویل پریس کانفرنس کرنے کا سہرا چودھری نثارعلی خان کو جاتا ہے،یہ پریس کانفرنس طویل ہوتی ،مگر وہاں موجود رپورٹر زحضرات ایک دوسرے سے پوچھتے پائے جاتے کہ چودھری صاحب نے کہا کیا ہے؟

طویل پریس کانفرنسیں کرنے والے چودھری نثارعلی خان ،معلوم نہیں اِن دِنوں کیا سوچتے رہتے ہیں۔جب اے پی ایس پشاور کا واقعہ رُونما ہوا تو دھرنا بھی اپنے انجام کو پہنچا،مگر تھوڑے ہی وقفے کے بعد دوہزار سولہ میں پانامہ اسکینڈل سامنے آگیا،اس اسیکنڈل کے پاکستانی سیاست اور معاشرت پر گہرے اثرات مُرتب ہوئے ،یہ اثرات آنے والے وقت میں مزید گہرے ہوں گے۔

پانامہ اسیکنڈل کے دِنوں میں حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے طویل پریس کانفرنسیں کی جاتیں۔اُن طویل پریس کانفرنسوں کا سلسلہ تھما نہیں۔یہ ساری تقریریں اور پریس کانفرنسیں ایک دوسرے کے خلاف ہوتی ہیں اور پلیٹ فارم میڈیا کا استعمال کیا جاتا ہے۔ آنے والے کل کے جلسہ سے ایک بارپھر دوہزار چودہ کی تاریخ دہرائی جارہی ہے۔یعنی جلسے ،جلوس اور پریس کانفرنسیں،دعوے اور الزامات۔یہ کیسی سیاسی جماعتیں ہیں ،جن کی جملہ سیاست دعوے اور الزامات کے گرداپنی بنیاد رکھتی ہے۔سیاسی جماعتوں کے پاس اپنے ووٹرز کو دینے کے لیے کچھ ہے؟

گذشتہ چھے ،سات برس کی پریس کانفرنسیں اور جلسے جلوسوں میں کی جانے والی تقریروں سے واضح ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی ترجیح ووٹرزنہیں رہے۔مَیں یہ سُن کر حیران رہ جاتا ہوں کہ فلاں رہنما نے کیا عمدہ تقریر کی ہے۔عمدہ تقریر کا جو معیار میرے ذہن میں ہے ،شاید دوسروں کے ذہن میں نہ ہو،اس لیے اُن کے لیے تقریریں خوش نُما تو ہوسکتی ہیں ،مگر میرے لیے نہیں۔ایک خوش نُما اور عمدہ تقریر کیسی ہونی چاہیے؟جو عوام کے ذکر سے شروع ہواور عوام کے ذکر پر ختم۔لیکن جن کو یہاں عمدہ تقریریں کہا جاتا ہے ،وہ اپنے ذکر سے شروع ہوتی ہیں اور اپنے ہی ذکر پر ختم ہوتی ہیں۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا ایجنڈہ کیا ہے؟

جمہوریت کو خطرے سے نکالنا؟ جمہوریت خطرے سے کیسے نکلے گی؟الزامات اور دعوے ،جمہوریت کو خطروں سے بچا سکتے ہیں؟عوام کو دُکھوں اور مسائل سے نکال کر جمہوریت کو خطرے سے نکالاجاسکتا ہے۔اس وقت عوام کے دُکھ یہ ہیں کہ وہ معاشی مسائل کا شکار ہیں۔یہ معاشی مسائل ،خوف اور بے یقینی کو پروان چڑھارہے ہیں۔جینے کی اُمنگ ختم ہوتی جارہی ہے۔

بے روزگار نوجوانوں کی اُمیدیں دَم توڑرہی ہیں۔سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو کیا خبر کہ آٹا مہنگا ہوتو غریب دیہاڑی دار کتنا پریشان ہوتا ہے؟کوئی بھی بڑا سیاسی رہنما ،موجودہ لمحے میں روٹی کی درست قیمت اور آٹے کا ریٹ بتا سکتا ہے؟ہاں !مگر یہ طویل پریس کانفرنس اور جلسے جلوس میں تقریر کرسکتا ہے۔عوام کی محبت سے عاری جلسے جلوس مسند نشینوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ،وقتی طورپر ہلچل مچتی ہے ،پھر ’’باہمی معاملات‘‘ طے پاجاتے ہیں۔اِن چھ سات سال میں عوام کے ایک بڑے طبقے کو معلوم پڑچکا ہے کہ طویل پریس کانفرنسیں اور جلسے جلوس کیوں کر منعقد کیے جاتے ہیں۔

جس دِن عوام کی اکثریت کو معلوم پڑگیا تو پھر مسند نشینوں کے اقتدار کو حقیقی خطرہ اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔پی ڈی ایم کے مطابق اگر جمہوریت کو خطرہ ہے اور یہ کمزور ہے تو اِ س کی وجہ کچھ اور نہیں محض یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے کارکن کمزور ہیں اور پارٹیاں بذاتِ خود غیر جمہوری ہیں۔یہ سیاسی جمہوری جماعتیں اپنی اصل میں جمہوری نہیں ہیں۔جو سیاسی جمہوری جماعتیں غیر جمہوری ہیں ،وہ جمہوریت کو خطرے سے نکالنے کے لیے اتحاد بناچکی ہیں ۔

About The Author