دسمبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گوجرانوالہ میں جلسہ پر نظریں ۔۔۔ نصرت جاوید

1986 کے دس اپریل سے تین مئی کے دوران محترمہ بے نظیر بھٹو نے وطن لوٹ کر پنجاب بھر میں ہلچل مچادی تھی۔

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اقبالؔ کے ایک مصرعہ میں تحریف کی جسارت کرتے ہوئے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ’’صحافت نام تھا جس کا ‘‘ وطن عزیز میں باقی رہ گئی ہوتی تو بدھ کے روز ہمارے میڈیا کے لئے اہم ترین موضوع وہ رپورٹ ہونا چاہیے تھی جو IMF نے بعداز کرونا معیشت کے بارے میں تیار کی ہے۔ پاکستان کے حوالے سے عالمی معیشت کے نگہبان ادارے نے اس رپورٹ میں پریشان کرنے والی Projections کی ہیں۔

کلیدی پیغام یہ ہے کہ جولائی2018 کے انتخاب سے قبل ہماری سالانہ شرح نمو نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کے دور میں 5 سے چھ فی صد کے درمیان رہی۔ ہمیں اس مقام تک واپس لوٹنے کے لئے اب 2025 تک انتظار کرنا پڑے گا۔ دریں اثناء اس مقام تک پہنچتے ہوئے ہمارے ہاں بے روزگاری اور اشیائے صرف کی قیمتوں میں ناقابلِ برداشت اضافے کی پیش گوئی بھی ہے۔ آئندہ پانچ برس گزرجانے کے بعد گویا ہانپتے کانپتے ہم ’’ترقی‘‘ کی اُسی شرح پر ہی واپس لوٹیں گے جو شاہد خاقان عباسی کی وزارتِ عظمیٰ کے ا ٓخری ایام میں نظر آرہی تھی۔ ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ سے نجات حاصل کرنے کے بعد ’’مدینہ کی ریاست‘‘ چلانے والے پارسائوں کی قیادت میں ایک طویل سفر کے بعد’’آنے والی تھاں‘‘ پر لوٹنے کے امکانات چند بنیادی سوالات اٹھانے کا باعث ہونا چاہیے تھے۔ یہ سوال اٹھانے کی مگر کسی نے زحمت ہی گوارہ نہیں کی۔

میڈیا کی تمام تر توجہ اس امر پر مبذول رہی کہ PDM کو 16 اکتوبر کے روز گوجرانوالہ میں جلسے کی ’’اجازت‘‘ دی جائے گی یا نہیں۔ اس سوال کے تناظر میں ٹی وی سکرینوں پر مچی ہلچل مزید حیران اس لئے بھی کرتی ہے کہ عمران خان صاحب تو گزشتہ کئی دنوں سے اصرار کئے جا رہے ہیں کہ وہ مذکورہ جلسے کی بابت ہرگز پریشان نہیں۔ انہیں تو بلکہ بخوبی اندازہ تھا کہ NRO نہ ملنے کے باعث بالآخر ’’چور اور لٹیرے‘‘ اکٹھے ہوجائیں گے۔ ان کی حکومت گرانے کی کوشش کریں گے۔

اقتدار سنبھالنے کے بعد وزیر اعظم کمال فیاضی سے اپوزیشن کو یہ یقین بھی دلاتے رہے ہیں کہ اگر انہیں دھرنے یا جلسے وغیرہ کرنے کی ضرورت محسوس ہو تو حکومت ان کی آسانی کے لئے ’’کنٹینر‘‘ فراہم کرنے کو تیار ہوگی۔ اطلاعات مگر اب پنجاب سے یہ آرہی ہیں کہ کنٹینر جاتی امراء کے باہر لگادئیے گئے ہیں۔ کوشش ہو رہی ہے کہ ان کی بدولت محترمہ مریم نواز صاحبہ کو ایک بڑے جلوس کے ساتھ لاہور سے گوجرانوالہ جانے سے روکا جائے۔ PDM کو یہ کالم لکھنے تک گوجرانوالہ سٹیڈیم میں جلسے کی اجازت بھی نہیں ملی تھی۔ رانا ثناء اللہ اب تواتر سے متنبہ کررہے ہیں کہ اگر سٹیڈیم میسر نہ ہوا تو جی ٹی روڈ کو جلسہ گاہ میں تبدیل کردیا جائے گا۔

سوشل میڈیا پر ایسے ویڈیو کلپس کی بھرمار ہے جو پولیس افسروں کو گوجرانوالہ اور نواحی قصبات میں ضرورت سے زیادہ متحرک دکھارہی ہیں۔ قمر زمان کائرہ، اویس لغاری اور عطاء اللہ تارڑ جیسے رہ نما گوجرانوالہ کے جلسے کے لئے ’’اکابرین‘‘ کے ڈیروں میں جمع ہوئے کارکنوں کو ’’گرمانے‘‘ کے لئے ملنا چاہیں تو انہیں ’’کرونا‘‘ کے بہانے روکا جارہاہے۔ قیام پاکستان سے کئی دہائیاں قبل ’’پنجاب پلس‘‘ سیاسی کارکنوں سے ایسے ہی رویے اختیارکرتی تھی۔ خان صاحب نے مگر وعدہ کیا تھا کہ وہ ’’تبدیلی‘‘ لائیں گے۔ پولیس کو ’’غیر سیاسی‘‘ بنائیں گے۔ ’’پنجاب پلس‘‘ برطانوی استعمار اور ’’آزاد‘‘ پاکستان میں جلسے جلوس روکنے میں لیکن کبھی کامیاب نہیں ہوئی۔ مارشل لاء ہی ملک کو ’’غیر سیاسی‘‘ بناتا رہا۔ یہ ’’نسخہ‘‘ بھی لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد کارآمد نہیں رہتا۔

2007 کے دوران وفاقی اور پنجاب میں جو حکومتیں قائم تھیں فوجی وردی پہنے ہوئے صدر مشرف اس کے محافظ و سرپرست ہوا کرتے تھے۔ اس برس بھی لیکن عدلیہ بحالی کی تحریک پھوٹ پڑی تھی۔ جنرل مشرف کو اس سے زچ ہوکر بالآخر ’’ایمرجنسی پلس‘‘ لگانا پڑی۔ 2008 کے انتخابات کو لیکن وہ مؤخر نہ کرپائے۔ اس کے بعد جو ہوا حالیہ تاریخ ہے۔ اسے دہرانے سے کیا حاصل؟

طالب علمی کے زمانے سے احتجاجی تحاریک میں حصہ لیتا رہا ہوں۔ اسی باعث جن اخبارات کے لئے کام کیا وہ جلسے جلوسوں اور ممکنہ تحاریک کی Coverage کے لئے میری ڈیوٹی لگادیتے تھے۔ تین سے زائد دہائیوں پر مشتمل مشاہدے و تجربے کی بنیاد پر نہایت اعتماد سے یہ اصرار کرتا رہا ہوں کہ گوجرانوالہ میں ’’لاکھوں انسانوں پر مشتمل‘‘ اجتماع بھی منعقد ہوگیا تو عمران حکومت کو فکر مند نہیں ہونا چاہیے۔ 16 اکتوبر کے دو دن بعد اپوزیشن جماعتوں کا ایک اور جلسہ کراچی میں ہونا ہے۔ پنجاب میں فی الحال PDM کا ’’شو‘‘ فقط ایک ہی دن کا ہے۔ ’’پنجاب پلس‘‘ نے لیکن شہزاد اکبر صاحب کی رہ نمائی میں اس کے لئے پانچ دنوں تک پھیلی Hype مہیا کردی۔ اپوزیشن جماعتیں لاکھوں روپے کے خرچے کے باوجود ایسی Hype برپا نہیں کرسکتی تھیں۔

لطیفہ یہ بھی ہے کہ ہیجان کے اس موسم میں اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے سیاسی کماندار -جناب عثمان بزدار صاحب- کہیں نظر نہیں آرہے۔ عدلیہ بحالی کی تحریک نے تمام تر رونق پنجاب کے شہروں ہی میں لگائی تھی۔ چودھری پرویز الٰہی مگر ان دنوں بھی سینہ پھلا کر مشرف کو وردی میں ’’دس بار‘‘ صدر منتخب کرنے والی تقریر فرماتے رہے۔ پورے صوبے میں کسی ایک مقام پر بھی آنسو گیس کے گولے پھینکنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ افتخار چودھری کے ’’خیر مقدمی‘‘ والے جلوس سیلاب کی صورت آئے اور گزرگئے۔ عدلیہ بحالی کی تحریک کو اصل طاقت جنرل مشرف نے ’’ایمرجنسی پلس‘‘ مسلط کرتے ہوئے فراہم کی تھی۔

1986 کے دس اپریل سے تین مئی کے دوران محترمہ بے نظیر بھٹو نے وطن لوٹ کر پنجاب بھر میں ہلچل مچادی تھی۔ نواز شریف ان دنوں پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔ وہ محترمہ کے جلسوں سے ہرگز پریشان نہیں ہوئے۔ ان کی لاتعلقی نے بلکہ کچھ عرصے کے لئے جنرل ضیاء کو بھی اس الزام پر غور کرنے کو مجبور کردیا کہ ان کے ’’چہیتے‘‘ اور جواں سال وزیر اعلیٰ نے محترمہ کے ساتھ کوئی سازشی ’’مک مکا‘‘ کرلیا ہے۔ مرحوم جہانگیر بدر سے حسد میں مبتلا پیپلز پارٹی کے چند پنجابی رہ نمائوں نے یہ افواہ بھی پھیلائی کہ وہ نواز شریف سے رابطے میں ہیں۔ کہانی یہ بھی چلی کہ محترمہ کے جلسوں کو ’’کامیاب‘‘ بنانے کے لئے شریف خاندان نے بھاری بھر کم ’’چندہ‘‘ بھی فراہم کیا ہے۔ عمران خان صاحب کے ’’وسیم اکرم پلس‘‘ اس تناظر میں خوش نصیب ہیں۔ ان کا رویہ واقعتا ایک حکایت میں بیان کردہ ا س ’’بادشاہ‘‘ جیسا ہے جو ’’کھیر پکائو تے کھیر کھائو‘‘ کا ورد کرتے ہوئے اقتدار میں اپنا ڈنگ ٹپاتا رہا۔

گوجرانوالہ وسطی پنجاب کے عین قلب میں واقعہ ہے ’’ووٹ بینک‘‘ کے حوالے سے یہ نوازشریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کا گڑھ ہے۔ سیالکوٹ، شیخوپورہ، نارووال، وزیر آباد اور شکرگڑھ جیسے اضلاع اور ان کے مضافاتی علاقوں سے یہاں تک پہنچنے کے لئے دو سے زیادہ گھنٹے درکار نہیں۔ لاہور کے ساتھ بھی ایسا ہی عالم ہے۔ اس شہر میں اگر ’’لاکھوں کا مجمع‘‘ اکٹھا ہوجائے تو ہرگز کوئی ’’انقلابی‘‘ پیغام نہیں دے گا۔ موسلادھار بارش کی طرح برس کر گزر جائے گا۔ ’’پنجاب پلس‘‘ کو اسے روکنے کے لئے ’’آنیاں جانیاں‘‘ میں لہٰذا اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ افسر شاہی مگر ’’پھرتیاں‘‘ نہ دکھائے تو خود کو حکمرانوں کے روبرو ’’مستعد‘‘ کیسے ثابت کرے؟ یہ ’’مستعدی‘‘ اگرچہ لاہور سیالکوٹ ہائی وے پر ایک خاتون کی وحشیانہ بے حرمتی کے مرتکب درندے کو بازیاب کرنے میں ڈیڑھ مہینہ لگادیتی ہے۔ یہ ’’بازیابی‘‘ بھی بنیادی طورپر ان جدید ترین آلات ِجاسوسی کی وجہ سے ممکن ہوئی جو War on Terror کے دنوں میں ہماری سرکار کو امریکہ جیسے ممالک سے تحفے میں ملے تھے۔ کرونا کے دنوں میں TTQ کے نام پر اس ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال ہوا۔ موبائل فون میں موجود ’’مخبری‘‘ کے کرشمے۔ اس کے باوجود ’’فرض شناس‘‘ افسروں نے فراخ دل ’’وسیم اکرم پلس‘‘ سے 50 لاکھ روپے انعام کی صورت حاصل کرلئے۔

’’پنجاب پلس‘‘ کی گوجرانوالہ کا جلسہ ’’ناکام‘‘ بنانے کے لئے برتی پھرتیوں کا بغور جائزہ لیں تو بآسانی دریافت ہو جائے گا کہ ان کا تمام تر فوکس ان چودھریوں کے ڈیروں پر ہے جہاں قمر زمان کائرہ ،اویس لغاری اور رانا ثناء اللہ جیسے ’’سیاسی‘‘ اپنے کارکنوں سے ملنا چاہ رہے ہیں۔ جی ٹی روڈ کے ذریعے لاہور سے گوجرانوالہ تک سفر کرتے ہوئے دائیں بائیں دیکھیں تو آپ کو ’’مدرسوں‘‘ کے طویل رقبے بھی نظر آتے ہیں۔ ان میں سے بے تحاشہ مدرسوں کا تعلق ان مسالک سے بھی ہے جو رہ نمائی کے لئے مولانا فضل الرحمن اور ساجد میر صاحب سے رجوع کرتے ہیں۔

’’پنجاب پلس‘‘ کے کسی ’’فرض شناس‘‘ افسر کو میں نے ایسے مدرسوں کی ’’تلاشی‘‘ لیتے مگر نہیں دیکھا۔ اسلام آباد میں اپنے گھر تک محدود ہوا اعتماد سے بیان کرسکتا ہوں کہ ایسے کئی مدارس میں سینکڑوں کارکن 16 اکتوبر کے اجتماع میں اپنی شرکت کو یقینی بنانے کئی روز قبل پہنچ چکے ہوں گے۔ مولانا فضل الرحمن کو گوجرانوالہ جانے سے روکا گیا تو جی ٹی روڈ پر ’’اصل جلوہ‘‘ یہ کارکن ہی دکھائیں گے۔ بہتر یہی ہے کہ مریم نواز صاحبہ اور بلاول بھٹو زرداری کو 16 اکتوبر کے روز جلوسوں سمیت گوجرانوالہ جانے دیں۔ ایک ہی دن کی توبات ہے۔ آئے گا اور گزرجائے گا۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت

About The Author