سمیرا راجپوت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچیس سالہ منیبہ، جن کا تعلق وزیرستان کے علاقے لدھا سے ہے، چھاتی کے کینسر کا شکار ہوئیں اور بروقت علاج نے انہیں نئی زندگی بھی بخش دی۔ اس طالبہ کی کہانی سننے کے بعد میں خود بھی حیران رہ گئی۔ وزیرستان ایسا علاقہ ہے جہاں ہر چیز گھر کے مردوں کی مرضی کی محتاج ہے۔ ایسے میں چھاتی کے کینسر کے بارے میں گھر کے مردوں کو آگاہ کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ گھر کے مرد تو دور خواتین بھی اس قسم کے موضوعات پر آپس میں بات کرتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہیں۔
میں جب انٹرویو کر رہی تھی تو میرے تمام سوالات منیبہ کو دوران تعلیم انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہ ہونے کے بارے میں تھے لیکن منیبہ کے جوابات انکشافات سے بھرپور تھے۔ منیبہ نے بتایا کہ انٹرمیڈیٹ کے بعد انہیں اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں اسکالرشپ پر داخلہ مل گیا۔ علاقے کے اساتذہ کی منت سماجت کے بعد انہیں وہاں جاکر پڑھنے کی اجازت مل گئی۔ اسلام آباد میں پڑھنے کی اجازت تو مل گئی لیکن موبائل رکھنے کی نہ تو اجازت ملی نہ ہی پیسے۔
منیبہ شروعات میں لائبریری جاکر انٹرنیٹ استعمال کرتی تھیں جبکہ ان کے تمام دوست موبائل پر ہی ہر مشکل کا حل دریافت کر لیتے تھے۔ یہ تمام صورتحال اسے یہ سوچنے پر مجبور کرتی تھی کہ ان کا علاقہ اور اس میں بسنے والے لوگ کس قدر پیچھے رہ گئے ہیں۔ منیبہ نے بتایا کہ خود بھی وہ خود اعتمادی کی کمی کا شکار تھیں۔ شروعات میں تو انہیں بات کرنے میں بھی دقت محسوس ہوتی تھی۔
اس کے بعد تو میرا تجسس اور بھی بڑھا کہ آخر پھر منیبہ نے چھاتی کے کینسر کے بارے میں کیسے پتہ لگایا، کیونکہ ہمارے ہاں بھی معلومات کا فقدان ہے۔ بہت سے لوگ اس معاملے پر آگاہی سے جان بوجھ کر محروم ہیں اور کچھ مردوں کے لیے تو خواتین کی برا کی ایک اسٹریپ ہی نظر آجانا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ منیبہ نے اپنی بیماری کے بارے میں بتایا کہ ایک دن انہیں اپنی بغلوں کے نیچے کچھ گلٹی سی محسوس ہوئی۔ شرماتے شرماتے انہوں نے اس بات کا ذکر اپنی یونیورسٹی کی ایک دوست سے کیا جس نے فورا سرچ کر کے چھاتی کے کینسر کے خدشے کا اظہار کیا۔
وہی دوست منیبہ کو ہسپتال لے گئی جہاں معائنے کے بعد ڈاکٹر نے بتایا کہ انہیں چھاتی کا کینسر ہی ہے۔ منیبہ کے خاندان میں کینسر کی کوئی ہسٹری تھی یا نہیں منیبہ اس بات سے بھی لاعلم تھی۔ ڈاکٹرز نے فوری علاج کا کہا۔ لیکن علاج تو دور کی بات، یہ بات بھی گھر والوں کو بتانا ممکن نہیں تھا۔ کسی طرح منیبہ نے اپنی والدہ تک یہ معاملہ پہنچایا اور دوستوں کی مدد سے ہی اس کا علاج ممکن ہوا۔
چھاتی کا کینسر لاعلاج نہیں لیکن اس کا علاج بروقت ضروری ہے ۔ منیبہ کہتی ہیں کہ نہ جانے ان کے علاقے سے تعلق رکھنے والی کتنی خواتین اس مرض کا شکار ہوئی ہوں گی اور کتنی ہی خواتین اسی مرض کی وجہ سے اس دنیا سے رخصت ہو گئی ہوں گی، جس کی بڑی وجہ آگاہی نہ ہونا اور ہسپتالوں کا فقدان ہے۔
اکتوبر چھاتی کے کینسر سے آگاہی کا مہینہ ہے، پاکستان کے تمام شہروں میں بریسٹ کینسر سے متعلق سیمینار منعقد کیے جاتے ہیں، پنک ربن باندھے جاتے ہیں۔ لیکن یہ بھی صرف سہولیات سے بھرپور طبقے کے لیے ہی ہے کیونکہ وزیرستان کی خواتین ایسی آگاہی سی بھی محروم ہیں۔ چھاتی کے کینسر کی علامات پڑھیں اور اپنے ارد گرد اس سے متعلق آگاہی پھیلائیں تاکہ اس مرض سے خواتین بروقت چھٹکارا پاسکیں۔ ایسے علاقوں میں بھی آگاہی کا اہتمام کریں جہاں یہ ناممکنات میں سے ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر