نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کتاب دوستی۔۔۔ظہوردھریجہ

صاحب حیثیت ہونے کے باوجود ان میں تکبر اور رعونت نام کی کوئی چیز نہ تھی ، وہ رحیم یارخان کی تاریخ بھی تھے اور تاریخی حقیقتوں کے چشم دید گواہ بھی

 

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کائنات میں مادی ترقی نے جہاں انسان کو سہولتیں دی ہیں ، وہاں مسائل بھی پیدا کئے ، اس ترقی نے انسان کو انسان سے چھین لیا اور انسانیت جاتی رہی ۔ ان حالات میں

میرے کالم کا عنوان ’’ چوہدری بشیر امانت علی اور کتاب دوستی ‘‘ ہے ۔
میں اپنی گزارشات اس حوالے سے پیش کروں گا ، تاہم تھوڑی سی گزارشات بہاولپور کے حوالے سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ گزشتہ روز بہاولپورکے احباب نے بندہ ناچیز کے اعزاز میں تقریب پذیرائی کا اہتمام کیا ، تقریب میں وزیراعلیٰ سردار عثمان خان بزدار کی ترجمان محترمہ سمیرا ملک ، پیر آف کوٹ مٹھن شریف خواجہ غلام فرید کوریجہ ، ممبر اسلامی نظریاتی کونسل اللہ بخش کلیار اور کمشنر بہاولپور کی نمائندگی اسسٹنٹ کمشنر جنرل سید لیاقت علی گیلانی نے کی ۔ بہاولپور کی معروف و معزز شخصیات کے ساتھ ساتھ شعراء کرام کی کثیر تعداد نے شرکت کی ۔
دھریجہ نگر خانپور اور رحیم یارخان سے بھی بہت سے احباب آئے ہوئے تھے ۔ اس موقع پر میں نے کہا کہ دوستوں نے مجھے جو اعزاز بخشا ہے ، میں قطعی طور پر اس قابل نہیں تاہم یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے جو کچھ حاصل ہوا ہے وہ کتاب دوستی کے حوالے سے ملا ہے ۔ اب میں اپنے موضوع کی طرف آؤں گا کہ چوہدری بشیر امانت علی کا رحیم یار خان میں بک سٹال اور کتابوں کی دوکان ہم فقیروں کا ٹھکانہ تھا ۔
ان کو رحیم یارخان میں بابائے صحافت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ ان کا شمار رحیم یارخان پریس کلب کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ رحیم یارخان پریس کلب کے اہم عہدوں پر فائز رہے ‘ کئی مرتبہ عہدہ صدارت ان کے پاس رہا ۔ انہی خدمات کی بناء پر رحیم یارخان پریس کلب نے ان کو تاحیات سرپرست اعلیٰ مقرر کیا ۔ چوہدری بشیر امانت علی نہایت شریف النفس اور وضعدار انسان تھے ۔ ان کے والد چوہدری امانت علی کو رحیم یارخان میں بہت جائیداد حاصل ہوئی اور اس پر انہوں نے ایک ہاؤسنگ سکیم’’ چوہدری امانت علی کالونی ‘‘ کے نام سے بنائی ،
صاحب حیثیت ہونے کے باوجود ان میں تکبر اور رعونت نام کی کوئی چیز نہ تھی ، وہ رحیم یارخان کی تاریخ بھی تھے اور تاریخی حقیقتوں کے چشم دید گواہ بھی ۔ انہوں نے پاکستان بنتے دیکھا ، وہ مشرقی پاکستان میں بہت عرصہ مقیم رہے ،ا سی بناء پر انہوں نے پاکستان کو دو لخت ہوتے بھی دیکھا ، مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ان کو بہت صدمہ تھا ۔ 1978-82ء میرا رحیم یارخان قیام رہا ۔ اس دوران چوہدری بشیر امانت علی سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا ۔
مجھے اخبار اور کتابیں پڑھنے کا شوق شروع سے تھا ۔’’ پیاسا کنویں کے پاس آتا ہے ‘‘ چوہدری بشیر امانت علی ایند سنز پر ہمارا آنا جانا رہتا ، چوہدری بشیر امانت علی صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ اخبارات کے نیوز ایجنٹس اور بک سیلر تھے ۔ انہوں نے اپنے اس کاروبار کو پورے ضلع رحیم یارخان سے لیکر روہڑی تک وسعت دی ۔ رحیم یارخان میں ’’ چوہدری امانت علی اینڈ سنز ‘‘ آج بھی کتابوں کی بڑی دوکان اور اخبارات و رسائل کی سیل کا بہت بڑا پوائنٹ ہے ۔ رحیم یارخان میں یہ دکان ریلوے چوک پر ہے ۔ چند قدم کے فاصلے پر ریلوے اسٹیشن ہے ، چوک سے مشرق اور مغرب کی طرف جانیوالے بازار شاہی بازار کہلاتے ہیں ۔
چوہدری بشیر امانت علی بتاتے تھے کہ جب ہم نے یہاں دکان بنائی تھی تو یہاں جنگل اور جھاڑیاں تھیں ، بجلی نہیں تھی ، شام کو یہاں آتے ہوئے ڈر لگتا ، رات کو ریلوے اسٹیشن کی روشنی آبادی کے ہونے کا احساس دلاتی، وہ بتاتے تھے کہ خانپور اس وقت بڑا شہر تھا ، خانپور جنکشن ہونے کے ساتھ ساتھ وہاں کی انگلش طرز کی ریلوے کالونی ، اس کے فوارے اور صدر بازار کی رونقیں دیکھنے سے تعلق رکھتی تھیں ، ہم شوق سے دیکھنے جاتے، ان دنوں پورے ضلع میں ایک ہائی سکول تھا اور وہ خانپور میں تھا ۔ رحیم یارخان سے بہت سے لوگوں نے میٹرک خانپور سے کیا تھا ۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ چوہدری بشیر امانت علی رحیم یارخان کی ایک تاریخ تھے ‘ انہوں نے ایک مرتبہ رحیم یارخان کے بارے میں بتایا کہ اس کا پہلا نام ’’ نوشہرہ ‘‘ ہے ، یہ ضلع خانپور کا چھوٹا سا قصبہ تھا ۔ 1751ء میں اس کا قیام عمل میں آیا۔1880ء میں ریلوے لائن بچھائی گئی تو نوشہرہ اسٹیشن کا نام نواب آف بہاولپور نے اپنے مرحوم بیٹے رحیم یارخان کے نام پر رکھا اور 1881ء میں نواب بہاولپور نے خانپور کی ضلعی حیثیت ختم کرکے رحیم یارخان کو ضلع کا درجہ دے دیا ۔
1905ء میں ٹاؤن اور 1923ء میں رحیم یارخان میں میونسپل کمیٹی کا درجہ ملا اور اسی سال رحیم یارخان کو سیراب کرنے والا پنجند ورکس مکمل ہوا اور رحیم یارخان پر آبادکاروں کی آمد شروع ہوئی ۔ 1927ء میں رحیم یارخان میں محکمہ آبپاشی کے وفاتر اور انہار کالونی قائم ہوئی ۔ 1948ء میں رحیم یارخان میں عباسی ٹیکسٹائل ملز اور 1952ء میں بہت بڑا صنعتی پلانٹ لیور برادرز کے نام سے قائم ہوا۔ چوہدری بشیر امانت علی نے ساری زندگی صحافت کی ،
انہوں نے کبھی سیاست میں قدم نہ رکھا ۔ ہماری آنکھوں کے سامنے بہت سے لوگ چوہدری سے بڑے چوہدری اور پھر اس سے بھی بڑھ کر ’’ میاں صاحبان ‘‘ ہوگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے بڑے بڑے کارخانوں اور مِلوں کے مالک بن گئے مگر چوہدری بشیر امانت علی اور ان کے بھائیوں نے ’’بڑا‘‘ بننے کیلئے کوئی غلط کام نہ کیا ۔ چوہدری امانت علی مرحوم کے بیٹوں چوہدری منیر امانت علی ، چوہدری صغیر امانت علی ، چوہدری مجید امانت علی ، چوہدری امیر امانت علی اور چار بہنوں میں سے چوہدری بشیر امانت علی سب سے بڑے تھے ۔
تمام بہن بھائی ان سے پہلے فوت ہوئے ۔ ان کے بھائی چوہدری منیر امانت علی جن سے میری بہت زیادہ قربت اور دوستی تھی، امریکا میں فوت ہوئے ، تعزیت کیلئے گیا ،پہلی مرتبہ چوہدری بشیر امانت علی کو بہت زیادہ مغموم دیکھا ، حالانکہ وہ بہت حوصلہ مند اور مضبوط عصاب کے مالک تھے ۔ مرحوم کے بھتیجے اپنے بزرگوں کے مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں ، خانپور میں بھی چوہدری فقیر محمد اور ان کے صاحبزادے چوہدری محمد قیصر نے انیس بک ڈپو کی شکل میں علم کی شمع روشن کر رکھی ہے ‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ چوہدری بشیر امانت علی کی دو سال قبل وفات ہوئی ، آج بھی ان کی یاد آتی ہے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔ یاد ماضی عذاب ہے یارب چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

 

About The Author