ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی چولستان اور وسیب کے دوسرے علاقوں میں مسافر پرندوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔ یہ پرندے سائبریا اور دوسرے علاقوں سے ہجرت کر کے وسیب میں امن کی تلاش کے لئے آتے ہیں مگر افسوس کہ شکاری ان کے آنے سے پہلے ہی مورچہ زن ہو جاتے ہیں۔ سابقہ ادوار میں جتنے بھی حکمران آئے یا تو وہ خود شکاری تھے یا پھر مراعات یافتہ طبقے کو شکار کی سہولتیں دیکر مراعات حاصل کرتے رہے ۔ عظیم شاعر خواجہ فرید نے اپنی شاعری میں چولستان کی تعریف مقدس سر زمین کے طوپر کی ہے۔ چولستان کے ٹیلوں کو ’’ کوہ طور ‘‘ سے تشبیہ دی ہے ۔ چولستان کے کانٹے دار درختوں کو شمشاد اور صنوبر کہا ہے مگر میری مقدس سر زمین چولستان کو ظالم شکاریوں نے دبوچ لیا ہے ۔ ان ظالموں نے عرب شکاریوں کے بھی یہاں ڈیرے ڈلوا دیئے ۔ ہم نے سوچنا ہے کہ ہم نے اپنی مقدس دھرتی شکاریوں کے چنگل سے کیسے آزاد کروانی ہے۔ وسیب کا وسیع صحرا چولستان اپنے قدرتی حسن اور شکاریات کے حوالے سے پوری دنیا میں اپنی ایک خاص پہچان رکھتا ہے ، مقامی امراء چولستان میں ہرن کا شکار کرتے ہیں۔ عربی شیوخ تلور اور دوسرے پرندوں کا ۔ان شکاریوں کی کارستانیوں کے سبب چولستان میں ہرن کی نسل ختم ہونے کے قریب ہے اور تلور بھی کمیاب ہوتا جا رہا ہے۔ اگر یہی صورت حال رہی تو ان کا تذکرہ صرف اور صرف کتابوں میں ملے گا۔ تلور کے شکار کیلئے عرب حکمران بہت ہی قیمتی اور مہنگے باز ساتھ لاتے ہیں ان بازوں کی قیمت ہزاروں اور بعض اوقات لاکھوں ڈالر تک ہوتی ہے۔ باز، عقاب اور شکرا وغیرہ ایک خاندان یا نسل سے تعلق رکھتے ہیں مگر باز ان سب سے اہم ہے اور ان کا اپنا الگ سسٹم ہے ۔ بازوں کا بادشاہ بھی ہوتا ہے اسے شہباز کہتے ہیں۔ تلور اور دوسرے پرندے سائبریا سے آتے ہیں ۔ سائبریا کو کالے پانی کا علاقہ کہا جاتا ہے، انگریزی دور میں ہندوستان کے مجاہدین آزادی کو سزا کے طور پر ’’ کالا پانی ‘‘ بھیجا جاتا تھا ، ہمارے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں مجاہدین کی خاک سائبریا کے گلیشئرز کا حصہ بنی ہے ، یہی وجہ ہے کہ وہاں سے آنے والے مہمان پرندوں میں بھی اپنائیت محسوس ہوتی ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے ان سے ہمارا کوئی خونی رشتہ ہے۔ سائبریا سے تھوڑا آگے جائیں تو دنیا کے معروف خطہ قطب شمالی آتا ہے جہاں چھ مہینے دن اور چھ ماہ رات ہوتی ہے یوں سائبریا اور قطب شمالی سے آنے والے تمام پرندوں کی اہمیت مسلمہ ہے مگر تلور اور بازخاص طور پر قابل ذکر ہیں ، تلور کا گوشت عرب شیوخ کی مرغوب غذا ہے۔ نومبر اور دسمبر کے مہینے میں تلور جونہی سائبریا سے چولستان کا رخ کرتے ہیں تو متحدہ عرب امارات کے شیوخ پاکستان آ جاتے ہیں ، ان شیوخ کے ساتھ ایک فوج ظفر موج ساتھ ہوتی ہے ۔ عرب شیوخ کے آمد کے ساتھ ہی وسیب کے چولستان میں چرند پرند کا قتل عام شروع ہو جاتا ہے۔ اس پر وسیب اس قدر صدمے کا شکار ہے کہ وہ رونا بھی چاہتا ہے تو رو نہیں سکتا ، ایک صدمہ چولستان میں ناجائز الاٹمنٹوں کا ہے ۔ دوسرا شکاریوں نے چولستان کے قدرتی حسن کو برباد کر دیا ہے ۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ سردی کے اس موسم میں وسیب آنے والے پرندوں تلور، باز، کونج اور مرغابی وغیرہ کو انگریزی میں Migrated Birds جبکہ اردو میں مسافر یا مہاجر پرندے سرائیکی میں ان پرندوں کو ’’ پناہ گیر پکھی ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ پہلے تو مشکل ہے کہ پناہ کی غرض سے پاکستان کے مختلف علاقوں خصوصاً چولستان میں آنے و الے پرندوں سے وسیب کی روایات سے بر عکس سلوک ہو رہا ہے۔ یہ مہمان پرندے معصوم ہی نہیں دلنواز بھی ہیں ۔ ایک وقت تھا کہ ان مہمانوں کو سرائیکی وسیب میں موت نہیں حیات ملتی ہے ۔ پیار، محبت اور انس ملتا تھا ، شاید انہی پرندوں کے بارے میں عظیم سرائیکی شاعر خواجہ فریدؒ نے کہا تھا:۔ پکھی پردیسی اُبھے سردے ڈٖو ڈٖینھ دے خلقائیں وسیب کے ان پرندوں کو مانوسیت اور محبت کا یہ عالم ہے کہ جیسے ہی کونج سرائیکی وسیب میں داخل ہوتی ہے ، بچے ، بوڑھے ، جوان غول در غول آنیوالی کونجوں کا استقبال کرتے ہیں ، سب کی نظریں آسمان پر ہوتی ہیں اور سب ملکر کونجوں کو سرائیکی میں صدا دیتے ہیں ’’ کونجا ڑی کونجاں سخی سرور دا پھیرا پاتی ونجو‘‘ یہ آواز اور یہ التجا سنتے ہی کونجوں کے غول ڈیرہ غازی خان میں مدفن حضرت سخی سرور کے نام پر پھیرے مارنا شروع کر دیتے ہیں ، ہم آج ان مہمان پرندوں سے کیا سلوک کر رہے ہیں ؟ یہ سوچتے ہی کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ عرب شیوخ نے چولستان کے بعدوسیب کے اہم ڈویژن ڈیرہ غازی خان کا بھی رخ کر لیا ہے اور وہاں بھی پرندوں کی شامت آئی ہوئی ہے۔ جن لوگوں کو’’ مال ‘‘ مل رہا ہے ، وہ شکاریوں کی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں کہ عرب شیوخ یہاں رفاہی کام کرتے ہیں ، وسیب کے لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں اپنی دھرتی کی شان کے بدلے کچھ نہیں چاہئے ۔ خدارا وسیب کو ہر طرح کے شکاریوں سے بچایا جائے ۔ موجودہ حکومت تبدیلی کے نام پر برسر اقتدار آئی ہے ، وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ساتھ وزیراعلیٰ سردار عثمان خان بزدار پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پرندوں کو شکار ہونے سے بچائیں خصوصاً چولستان جو کہ پرندوں اور قیمتی جانوروں کے لئے مقتل گاہ بنا ہوا ہے۔ اگر آج بھی وسیب کے مسائل پر توجہ نہ دی گئی تو پھر کون سا ایسا وقت آئے گا جب وسیب کے مسئلے حل ہونگے ۔ ہماری صرف اتنی درخواست ہے کہ چولستان کو پرندوں کے شکاریوں سے بھی بچایا جائے اور لینڈ مافیا جو کہ مسلسل زمینوں کا شکار کر رہی ہے ‘ ان سے چولستان کو محفوظ بنایا جائے کہ وہ نہ تو چولستان کی تہذیب و ثقافت سے واقف ہیں اور نہ ہی ان کو چولستان کے تقدس کا کچھ خیال ہے ۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ