سہیل وڑائچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے چند دنوں میں سیاسی میدان گرم ہونے والا ہے، دو سال سے نسبتاً خاموش اپوزیشن احتجاجی انداز میں پیش رفت کرنا چاہتی ہے۔ دوسری طرف حکومت نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اُس نے اپوزیشن کو جلسے جلوس کرنے دینا ہیں یا اُنہیں روکنا ہے؟ پہلے تو یہ جائزہ لیتے ہیں کہ اب تک جو ہوا ہے، وہ کیسے ہوا اور کس نے کیا؟
آل پارٹیز کانفرنس میں میاں نواز شریف کی تقریر سے احتجاجی موڈ اور جارحانہ انداز ظاہر ہو گیا تھا۔ وفاقی حکومت نے جو جوابی بیانیہ دیا وہ اُنہیں روکنے اور دبانے کا تھا۔ اسی پالیسی کی روشنی میں پہلے کیپٹن صفدر پر غداری کا پرچہ ہوا اور پھر شاہدرہ میں مسلم لیگ کی ساری قیادت کے خلاف غداری اور سازش کا مقدمہ درج ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ پرچہ درج کرنے سے پہلے انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس نے پرنسپل سیکرٹری ٹو پرائم منسٹر اعظم خان کو فون کر کے بتایا کہ اپوزیشن کو روکنے کے لئے اُن کے خلاف اِس طرح کا مقدمہ درج کیا جا رہا ہے، چنانچہ وفاقی حکومت اور وزیراعظم کا یہ دعویٰ درست معلوم نہیں ہوتا کہ انہیں سرے سے مقدمے کے اندراج کا علم ہی نہیں تھا۔ دراصل غداری کے مقدمے پر جو ردِعمل آیا، پی ٹی آئی نے اپنے آپ کو مقدمے سے الگ اور دور کرنے کا سیاسی فیصلہ کیا اور معاملہ اداروں پر ڈال دیا کہ اُنہوں نے وفاقی حکومت سے پوچھے بغیر ہی یہ مقدمہ درج کر لیا حالانکہ حقیقت یہ نہ تھی۔
18اکتوبر کو گوجرانوالہ کے جلسے سے پہلے وفاقی اور پنجاب حکومت نے یہ طے کرنا ہے کہ کیا وہ محمد خان جونیجو کی طرح اپوزیشن کو فری ہینڈ دے کر بےنظیر بھٹو کے 1986جیسے جلوسوں کا ہلہ برداشت کر پائیں گی؟۔ جلسے جلوسوں سے حکومتیں گرتی نہیں مگر ہل ضرور جاتی ہیں۔ اگر تو حکومت عالی حوصلگی اور برداشت کا مظاہرہ کرے، جلسہ جلوس ہونے دے تو اسے شارٹ ٹرم نقصان ہوگا، حکومت کمزور دکھائی دے گی مگر جلسہ جلوس گزرنے کے بعد حکومت ببانگِ دہل کہہ سکے گی کہ اُنہوں نے جمہوری انداز میں کھلی چھٹی دی اور جلسہ جلوس ہونے دیا۔ دوسرا راستہ جلسے جلوس کو روکنے کا ہے۔ جلسے سے پہلے کارکنوں کی گرفتاریاں کی جائیں، پہلے جلسے جلوس کے بارے میں خوف و ہراس پھیلا کر اُسے محدود کرنے کی کوشش کی جائے اور اگر اُس کے باوجود اپوزیشن باہر نکلے تو لیڈر شپ کو بھی گرفتار کر لیا جائے تاکہ ہر طرف دھاک بیٹھ جائے کہ حکومت مضبوط ہے اور اپوزیشن حکومت کو ڈینٹ نہیں ڈال سکی لیکن سینکڑوں کارکنوں کو گرفتار کرنے سے جو گڑبڑ اور سیاسی انتشار پیدا ہو گا اُس کے اثرات لانگ ٹرم ہوں گے۔ حکومت کے جمہوری رویوں پر بھی سوال اُٹھنے لگیں گے۔ اندازہ یہ ہے کہ حکومت، اپوزیشن کو فری ہینڈ نہیں دے گی اور آئندہ چند دنوں میں کارکنوں کی گرفتاریاں شروع ہو جائیں گی۔ گوجرانوالہ میں پولیس نے ایک کارنر میٹنگ پر لاٹھی چارج کیا تو وفاقی حکومت نے پھر کہا، اُن کا ایسا کوئی حکم نہیں ہے۔ اندیشہ یہ ہے کہ اگر عوام زیادہ تعداد میں نکل آئے تو لاہور اور گوجرانوالہ کے جلوس ایک ہو جائیں گے اور اُنہیں سنبھالنا پولیس کیلئے مشکل ہو جائے گا۔ پولیس کو پہلے بھی تھپکی اور شاباشی نہیں مل رہی، اِسی لئے ان کا حوصلہ ٹوٹا ہوا لگتا ہے۔
اپوزیشن کے گوجرانوالہ جلسہ کا سب سے بڑا اہم واقعہ مریم نواز کی شرکت ہوگا۔ شریف فیملی نے پچھلے چند ماہ میں اپنی جو اسٹرٹیجی بنا رکھی ہے اُس کے مطابق وہ آسانی سے گرفتاری نہیں دیتے۔ مریم نواز بھی جاتی امرا سے باہر تب نکلیں گی جب کارکن اُنہیں لینے کے لئے گھر سے باہر آ جائیں گے تاکہ وہ باہر نکلیں تو کوئی اُنہیں گرفتار نہ کر سکے۔ حکومت اپنا مورچہ جاتی امرا لگائے گی اور کوشش کرے گی کہ کارکن وہاں پہنچ کر جمع نہ ہو سکیں۔ معاملہ جو بھی ہوگا حکومت اور اپوزیشن کی آنکھ مچولی بس شروع ہونے کو ہے۔ اس جنگ میں کون سرخرو ہوگا یہ چند دنوں میں سامنے آ جائے گا۔
قومی منظر نامے پر نظر دوڑائیں تو سب ادارے اور حکومت ایک صفحے پر ہیں، بظاہر حکومت کو کوئی فوری خطرہ نہیں اور بقول وزراء کے 2023تک اُن کی حکومت ایسے ہی چلتی رہے گی۔ دوسری طرف نواز شریف کا احتجاجی بیانیہ دو طرح کا ردِعمل پیدا کر سکتا ہے۔ پہلا ردِعمل تو یہ ہے کہ ادارے اور حکومت سب مل کر نواز شریف اور ن لیگ کا تیاپانچہ کردیں، فارورڈ بلاک بنا دیں، مزید مقدمات، مزید گرفتاریاں اور مزید دبائو ڈالیں مگر اس آپشن پر پہلے ہی اتنا عمل ہو چکا ہے کہ نواز شریف اور ن لیگ دیوار کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ انہیں مزید زخمی کر کے کوئی بڑا سیاسی فائدہ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ نواز شریف کے احتجاجی بیانیے کا توڑ کرنے کے لئے دوسرا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ ن لیگ کے لئے ادارے یا حکومت میں سے کوئی ایک سافٹ کارنر پیدا کرے تاکہ ن لیگ کو بھی سیاسی نظام میں کوئی امید نظر آئے اور انہیں یہ آس لگے کہ آج نہیں تو کل وہ بھی اقتدار میں آ سکتے ہیں۔ اگر وہ مکمل طور پر مایوس کر دیے گئے تو پھر انہیں یہ بندوبست قابلِ قبول نہیں ہو گا اور پھر وہ حکومت اور اداروں، دونوں کے خلاف لڑنے کو ہی ترجیح دیں گے۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دو مختلف افواہیں زیر گردش ہیں۔ ایک تو یہ کہ چند دنوں میں وفاقی کابینہ میں اہم ردوبدل ہونے والا ہے جس سے گورننس میں بہتری لانا مقصود ہے۔ دوسری افواہ یہ ہے کہ اگر حکومت اور اپوزیشن کا ملاکھڑا خطرناک ہو گیا، سیاسی گھڑمس میں اور اضافہ ہوگیا تو پھر عدلیہ کو ایک ریفرنس بھیج کر ایک سال کے لئے عبوری آئینی حکومت قائم کی جا سکتی ہے۔ یہ حکومت عدلیہ کی زیر نگرانی الیکشن کو شفاف بنانے، عدالتی و انتظامی اور انتخابی اصلاحات کے لئے کام کرے گی۔ بظاہر یہ بہت دور کی کوڑی ہے۔ دلائل اور عقل اس تھیوری کو تاحال تسلیم کرنے سے انکاری ہیں لیکن جس ملک میں کئی بار مارشل لا نافذ ہوئے ہوں، ایمرجنسی نافذ رہی ہو، حکومتیں ٹوٹی ہوں اور اسمبلیاں تحلیل ہوئی ہوں وہاں کوئی بھی انہونی ہو سکتی ہے۔
نومبر اور دسمبر پاکستان کے لئے اندرونی اور بیرونی دونوں لحاظ سے اہم ترین مہینے ہیں۔ نومبر میں امریکہ کے صدارتی انتخابات ہونے ہیں۔ زلمے خلیل زاد اور امریکی صدر ٹرمپ کی خواہش ہو گی کہ نومبر سے پہلے طالبان اور افغان حکومت کے مذاکرات میں کوئی اہم پیش رفت ہو تاکہ صدر ٹرمپ کو انتخابات میں اس کا فائدہ ملے۔ اس حوالے سے پاکستان پر بھی دبائو ہوگا کہ وہ اس عمل کو تیز ترین اور موثر ترین بنائے۔ پاکستان یہ معاملہ حل کروا سکے گا یا نہیں، اس کا پاک امریکہ تعلقات کے مستقبل پر گہرا اثر ہوگا۔ نومبر اور دسمبر میں اپوزیشن اندرونی طور پر حکومت پر اپنا دبائو بڑھائے گی، اپوزیشن اپنی احتجاجی تحریک کو مارچ 2021میں سینیٹ الیکشن سے پہلے پہلے کامیاب بنانا چاہتی ہے تاکہ پی ٹی آئی دونوں ایوانوں میں اکثریت حاصل کرکے اتنی مضبوط نہ ہو جائے کہ وہ اپوزیشن کو اور دبا سکے۔
سیاست گرم ہوگی، مزاج برہم ہوں گے، حکومت اور اپوزیشن دونوں میں گرجنے اور برسنے کا مقابلہ ہوگا۔ کوشش یہ ہونی چاہئے کہ اس ہنگامہ خیز دور میں کوئی چنگاری کہیں کسی دامن میں آگ نہ لگا دے، چھوٹے چھوٹے واقعات بڑے سانحات کو جنم دیتے ہیں۔ دعا یہی کرنی چاہئے کہ خدا ملک پاکستان میں جمہوریت کو قائم دائم رکھے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ