نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

غداری کے فتووں کی فیکٹری ۔۔۔ عمار مسعود

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ماضی کی طرح لوگ اس فتوے سے خوفزدہ ہو کر چُپ ہو جائیں۔ حب الوطنی کے معروف طریقے کے مطابق خاموش ہو جائیں،

عمار مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عجب زمانہ آ گیا ہے کہ لوگوں پر غداری کے فتوے لگ رہے ہیں اور ان فتووں کو لوگ سینے پر تمغوں کی طرح سجا رہے ہیں۔ ان فتووں سے اب کسی کو مفر نہیں۔ اب ہر کوئی اس کی زد میں آسکتا ہے۔ کسی پر بھی دھرتی سے بے وفائی کا الزام آسکتا ہے۔ سیاست دان ہوں یا سوشل میڈیا ایکٹوسٹ، صحافی ہوں یا سول سوسائٹی کے ممبر، اراکین پارلیمنٹ ہوں یا پھر وکلا برادری۔ سب غدار کہلائے جا چکے ہیں۔ سب کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ لگ چکا ہے۔
غداری بہت گھناؤنا الزام ہے۔ وطن ماں جیسا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ بے وفائی غداری کہلاتی ہے۔ اس زمین کو بیچ دینا، اس کے مفادات پر سمجھوتا کرنا، اس کو غیر ملکی آقاؤں کے سامنے سجدہ ریز کر دینا غداری کی تعریف میں آتا ہے، لیکن ہمارے ہاں غداری کی موجودہ تعریف مختلف ہے۔

اب سوال کرنا غداری ہے۔ اب حکومت پر تنقید کرنا غداری ہے۔ اب سیاسی تحریک چلانا غداری ہے۔ اب خبر دینا غداری ہے۔ اب سچ بولنا غداری ہے۔ اب حق کی بات کرنا غداری ہے۔ اب جلسہ کرنا غداری ہے۔ اب اپنے حقوق کے لیے جلوس نکالنا غداری ہے۔ اب اپنے مطالبات کی بات کرنا غداری ہے۔ اب جمہوری حق مانگنا غداری ہے۔ اب سیاسی جماعتوں کا اکھٹا ہونا غداری ہے۔ اب حکومتی ارکان کی لندن میں خفیہ ملاقات غداری ہے۔ اب غیر جمہوری قوتوں کے خلاف بات کرنا غداری ہے۔ اب جمہوریت کے حق میں بیان دینا غداری ہے۔
جس طرح ہم نے غداری کی تعریف بدل دی ہے اسی طرح ہمارے ہاں حب الوطنی کی تعریف بھی مختلف ہو گئی ہے۔ اب اس سماج میں خاموش رہنا حب الوطنی ہے۔ ظلم دیکھ کر آواز نہ اٹھانا حب الوطنی ہو گیا ہے۔ اپنی تضحیک، توہین اور تمسخر برداشت کرنا حب الوطنی ہو گیا ہے۔ عوامی نمائندوں کی تذلیل پر ٹھٹھے لگانا حب الوطنی ہو گیا ہے۔ اپنے جمہوری حقوق سے درگزر کرنا حب الوطنی ہو گیا ہے۔ اپنی نافرمان زبان کو دانتوں تلے پیس لینا حب الوطنی ہو گیا ہے۔ اپنے افکار کو اپنی قوت اظہار کو مقید رکھنا حب الوطنی ہو گیا ہے۔ اپنی سوچ کے دریا کو کوزے میں تھام لینا حب الوطنی ہو گیا ہے۔

غداری کے فتوے لگنا اس سماج میں کوئی نئی بات نہیں۔ یہ روایت ہمارے ہاں دہائیِوں پرانی ہے۔ ہر مختلف آواز کو یہی طعنہ دیا گیا۔ ہر نئی بات کو یہی الزام دیا گیا۔ ایسے فتوے لگانے والی فیکٹری نے بنیادی طور پر تین طرح کی نفرتیں تقسیم کی ہیں۔ ہر مخالف آواز کو کافر کہا گیا، اس سے کام نہیں چلا تو کرپٹ کا نعرہ لگا دیا گیا اور اس سے بھی کوئی منہ زور باز نہ آیا تو اس پر غداری کا الزام ٹھونک دیا گیا۔ یہ کہانی اتنی پرانی ہے کہ ہماری ساری سیاسی تاریخ انہی فتووں سے آلودہ ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کے سربراہ کا نام لے لیں وہ انہی خون آشام الزامات سے گزرا ہے۔
فاطمہ جناح کو بھی اس الزام کا سامنا کرنا پڑا، بھٹو بھی غدار کہلائے، بے نظیر بھی سکیورٹی رسک کہلائیں، نواز شریف بھی یہی الزام سہہ رہے ہیں، مریم نواز کو بھی اب غدار کہا گیا۔ مولانا فضل الرحمان بھی اس فتوے کی زد میں آگئے ہیں۔ پہلے پہل یہ تمغے صرف سیاسی قائدین میں تقسیم ہوتے تھے مگر اب لوگ منہ زور ہو گئے ہیں، اب ان کی تقسیم عام ہو گئی ہے۔ اب صحافی، سماجی کارکن، سوشل میڈیا ایکٹوسٹ سب اسی الزام میں رنگے ہوئے ہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ماضی کی طرح لوگ اس فتوے سے خوفزدہ ہو کر چُپ ہو جائیں۔ حب الوطنی کے معروف طریقے کے مطابق خاموش ہو جائیں، لیکن اس دفعہ مماملہ مخلتف ہے۔ اب لوگ ان باتوں سے ماورا ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ نڈر ہو گئے ہیں۔ وہ اس الزام سے ڈرتے نہیں اس پر ہنستے ہیں۔ پہلے یہ الزام لوگوں کے ماتھوں پر کلنک کا ٹیکہ بن جاتا تھا۔ اب لوگ اسے تمغے کی طرح سینے پر سجاتے ہیں۔ الزام لگنے پر جشن مناتے ہیں۔ غداری کے فتوے لگانے والی فیکٹری اس صورت حال سے پریشان ہو کر زیادہ مال بنا رہی ہے۔ اب زیادہ فتوے لگ رہے ہیں۔ تماشا یہ ہے کہ جب ہر شخص غداری کے فتوے سے سرفراز ہو جائے گا تو لوگوں کا خوف ختم ہو جائے گا۔
لوگ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس دور میں غداری جس کو طعنہ دیا گیا وہ شخص کہیں نہ کہیں سچ بولنے پر مصر ہو گا۔ کوئی حق بات کہہ رہا ہو گا۔ کسی بڑے بُرج کو گرا رہا ہو گا۔ کوئی نئی سوچ لا رہا ہو گا۔ اب لوگ ایسے افراد کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ان کی تعظیم کرتے ہیں۔ ان کی تکریم کرتے ہیں۔ دل ہی دل میں ان کی بہادری پر انہیں سرہاتے ہیں۔

غداری کے لفظ سے ہمارا تعارف نیا نہیں۔ ہم نے انسانوں کے علاوہ ملکوں کو بھی غدار کہا ہے۔ ایک نعرہ جو بچپن سے سنتے سنتے یادداشت میں بس گیا ہے وہ یہ کہ امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے۔ بچپن میں امریکہ کے حوالے سے استعماری اور صہیونی قوتوں جیسے الفاظ بھی بہت سنے ہیں۔ اس وقت بس اتنا ہی سمجھ آتا تھا کہ جو بھی امریکہ سے تعلقات رکھے گا وہ غدار کہلائے گا۔ آج یہ عقدہ بھی کھل گیا۔ امریکہ میں کاروبار کرنا، بچے پڑھانا غداری نہیں ہو سکتا لیکن سویلینز کو اسی کام پر غداری کا الزام دینا اصل میں غداری ہے۔ جانے کیوں دل اس بات کو اب تسلیم کرتا جا رہا ہے کہ جو غداری کے الزامات لگاتے ہیں وہ دراصل اپنا جرم چھپاتے ہیں

About The Author