زاہدہ رحیم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں جب بھی ریپ اورجنسی ہراسمنٹ کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو ایک مخصوص طبقہ ایک عجیب و غریب منطق پیش کرتا ہے کہ ریپ اور جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کی وجہ عورت کا لباس ہے۔
کسی نجی چینل کے ایک پروگرام کا ایک ویڈیو کلپ دیکھ رہی تھی،جس میں گفتگو کرنے والے صاحب کی رائے اب ہمیں اپنے معاشرے میں اکثر سنائی دیتی ہے۔ اس توجیہ کے مطابق ہر لڑکی ہر عورت کے ریپ کی ذمہ داری خود اسی پر عائد ہوتی ہے اور یہ کہ عورت کا لباس ان صاحبان کی منشا کے مطابق نہ پہننا ہی ریپ کی وجہ ہے۔ مثلاً تنگ لباس کیوں پہنا، کھلا لباس پہنا تو دوپٹہ کیوں نہیں لیا۔دوپٹہ لے لیا تو سر پر کیوں نہیں لیا۔ سر پر دوپٹہ لے ہی لیا تھا تو عبایا کیوں نہیں پہنا، عبایا پہن لیا مگر چہرہ جو کہ تمام فتنے کی جڑ ہے وہ تو کھلا ہوا تھا اور اگر عورت مکمل شرعی پردے میں ملبوس تھی تو گھر سے نکلنے کی کیا ضرورت تھی وغیرہ وغیر۔
ہر یپ اور جنسی حراسمنٹ کا شکار ہونے والی خواتین اور بچیوں کے لباس کو الزام دےکر اُنھیں اس گھناؤنے جرم کا ذمہ دار قرار دینا نہ صرف انتہائی سفاکیت ہے بلکہ مجرم کو اپنے جرم پر مجبور سمجھ کر بےقصور ثابت کرنے ریپ کے جرم پر اکسانے اور شہ دینے کی مذموم اور گھٹیا کوشش بھی ہے۔
جب آپ ریپ کا شکار ہوئی عورت کے لباس کو جج کرتے ہیں، تو آپ گویا اس مظلوم کو اپنے ساتھ ظلم پر مورد الزام ٹھہراتے ہیں، اور اس جرم کی ذمہ داری مجرم کے بجائے وکٹم کے سر ڈالنے کی سفاکانہ کوشش کرتےہیں۔
جو وکٹم کے لئیے دوہری اذیت کا باعث ہے۔ بیلجیم میں اُن ملبوسات کی نمائش ہوئی جو ریپ کے وکٹم نےاس روز پہنے ہوئے تھے، جب وہ ریپ کا شکار ہوئے ان ملبوسات میں کہیں جینز اور شرٹ تھی، کہیں منی سکرٹ اور بلاؤز، کہیں گھٹنوں تک لمبے سکرٹ اور مکمل آستینیوں والا بلاؤز کہیں لونیک ملبوس تھے تو کہیں بند گلے والے سویٹر تھے کوئی ٹی شرٹ تھی تو کوئی جیکٹ، کہیں پانچ سالہ بچی کا فراک تھا، تو کہیں ادھیڑ عمر عورتوں کامکمل سوٹ، یہاں تک کہ وہاں عبایا اور گاؤن بھی نمائش میں موجود تھے۔ ہر لباس کے ساتھ ریپ کا شکار ہونے والے مظلوم وکٹم کا ایک ذاتی نوٹ موجود تھا۔ پولیس یونیفارم کے ساتھ ایک ذاتی نوٹ منسلک تھا۔ کہ “میری پولیس یونیفارم اور ہولسٹر میں موجود ریوالور بھی مجھےبچا نہیں پایا۔”
اسی طرح فلم، ٹی وی اور انٹرنیٹ کے میڈیم کو ریپ کی وجہ قراردینےوالےشایدیہ بھول جاتے ہیں کہ ریپ ان دنوں بھی ہوتےتھےجب یہ میڈیم موجود نہیں تھےاورمیڈیاسےسینکڑوں سال پہلےبھی عورتیں اوربچیاں اس ظلم کاشکار ہوتی تھیں۔
لہذٰا ریپ کی وجہ نہ عورت کالباس ہے نہ میڈیا بلکہ یہ فتور ریپسٹ کے دماغ کا ہے، اگر آپ کے اردگرد یا گھر میں نوجوانوں یا بڑوں میں ایسے لوگ ہیں، جن میں یہ رُجہانات پائے جاتے ہوں تو بجائے چھپانے کے کسی ماہر نفسیات سے ملیں اور بجائے خواتیں کے لباس کی پیمائش پر نگاہ رکھنے کے ان پر کڑی نگاہ رکھیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ