نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ایک محبِ وطن شہری کی درخواست پر فرض شناس پولیس افسر کی فوری کارروائی ۔۔۔ نصرت جاوید

Sedition کی اصطلاح ہمارے مجموعہ تعزیرات میں جرائم کی اس فہرست میں شامل ہے جو قیامِ پاکستان کے بعد ہمیں مجموعہ تعزیراتِ ہند سے ورثے میں ملی تھی۔

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نواز شریف صاحب نے اپوزیشن جماعتوں کے سربراہی اجلاس سے ’’شرانگیز خطاب‘‘ 20 ستمبر کے روز کیا تھا۔ اس کے بعد وہ اپنی جماعت کے دو اہم اجلاسوں سے بھی ایسی ہی گفتگو فرماتے رہے۔ شہباز گِل صاحب نے 20 ستمبر کے خطاب سے قبل ٹی وی چینلوں کو متنبہ کردیا تھا کہ وہ اسے نشر کرنے سے باز رہیں۔ بعد ازاں ہمیں مگر ’’ذرائع‘‘ کی بدولت مطلع کیا گیا کہ وزیر اعظم صاحب مذکورہ خطاب کے براہِ راست نشر ہونے کی بابت ہرگز پریشان نہیں۔ ان کی تو بلکہ خواہش ہے کہ اپنی تقاریر کے ذریعے عدالتوں سے نااہل اور مجرم قرار پائے نواز شریف عوام کے روبرو بے نقاب ہوتے رہیں۔ نظر بظاہر رات گئی بات گئی والا معاملہ ہوگیا۔

لاہور کے ایک محب وطن شہری مگر یہ خطاب نظرانداز کرنے کو تیار نہ ہوئے۔ ریاستی اداروں کے تحفظ ووقار کے جذبے سے مغلوب ہوکر اتوار کی رات اس شہر کے شاہدرہ تھانے پہنچ گئے۔ ان کی خوش نصیبی کہ ایک فرض شناس افسر اِن دِنوں وہاں کا تھانے دار ہے۔ رات کے دو بجے بھی جاگ رہا تھا۔ اس نے شہری کی فریاد پر ایف آئی آر کاٹ لی۔ نوازشریف اور ان کے ساتھیوں کے خلاف ’’غداری‘‘ کا پرچہ درج ہونے کی ’’خبر‘‘ جنگل کی آگ کی طرح پھیلنا شروع ہوگئی۔ اس ’’خبر‘‘ میں ڈرامائی موڑ مگر یہ پہلو اجاگر کرتے ہوئے آیا کہ نوازشریف کے علاوہ پاک فوج کے تین سابق جرنیل بھی شاہدرہ تھانے میں کٹی ایف آئی آر کے مطابق ’’غداری‘‘ کے مرتکب ہوئے ہیں۔ پریشان کن حقیقت یہ بھی تھی کہ آزادکشمیر کے منتخب وزیر اعظم کا نام بھی مجرموں کی فہرست میں شامل تھا۔ ان ناموں کی وجہ سے عمران حکومت کے نگہبان ترجمانوں کو سبکی کا احساس ہوا۔ فواد چودھری صاحب نے بالآخر قوم کو ایک ٹویٹ کے ذریعہ مطلع کیا کہ عمران خان صاحب سیاسی بنیادوں پر ایسے مقدمات قائم کرنے کے حامی نہیں۔ ان کے علاوہ ایک ماہر لسانیات کی مانند شہباز گِل صاحب اخبارات اور ٹی وی نیوز کے مدیروں کو سمجھاتے رہے کہ مذکورہ مقدمے میں جو دفعات لگائی گئی ہیں وہ ’’غداری‘‘ کا ذکر نہیں کرتیں۔ ریاستی اداروں کے خلاف نفرت یا اضطرابی جذبات ابھارنے کو قابلِ گرفت ٹھہراتی ہیں۔ اتوار کی رات کٹی ایف آئی آر میں جن دفعات کا ذ کر ہوا وہ بنیادی طورپر “Sedition” سے متعلق ہیں۔ مقتدرہ قومی زبان نے ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب کی نگرانی میں جو انگریزی -اُردو لغت مرتب کی ہے اس میں اس لفظ کا ترجمہ ہے ’’سرکشی‘‘۔ اس کے علاوہ یہ وضاحت بھی ہے کہ Sedition’’ وہ حرکت ہے جو غداری کی سمت تو جاتی ہو مگر اس کی حدیں نہ چھوتی ہو‘‘۔ شہباز گِل صاحب لہذا یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب سنائی دیتے ہیں کہ پاک فوج کے تین سابق جرنیلوں اور آزادکشمیر کے وزیر اعظم کو ’’غدار‘‘ نہیں ٹھہرایا گیا۔ ’’اس سمت‘‘ جانے سے بلکہ روکا گیا ہے۔ اس تناظر میں منیرؔ نیازی کا ’’اس سمت مجھ کو یارنے جانے نہیں دیا‘‘ والا مصرعہ یاد آگیا۔ لاہور کے محب وطن شہری اور شاہدرہ کے تھانے دار نے پاک فوج کے تین سابق جرنیلوں اور آزادکشمیر کے وزیر اعظم کو درحقیقت ’’غداری کی سمت‘‘ جانے سے روکا ہے۔ اس کی بابت واویلا مچانے کی ضرورت نہیں۔

Sedition کی اصطلاح ہمارے مجموعہ تعزیرات میں جرائم کی اس فہرست میں شامل ہے جو قیامِ پاکستان کے بعد ہمیں مجموعہ تعزیراتِ ہند سے ورثے میں ملی تھی۔ اس مجموعہ کا مسودہ برطانوی سامراج کی سرکار ہند نے 1830 میں تیار کرنا شروع کردیا تھا۔ Sedition کی تشریح کے لئے جو زبان استعمال ہوئی ہے وہ شہرئہ آفاق لارڈ میکالے نے ا پنے ہاتھ سے لکھی تھی۔ سامراجی آقائوں نے اگرچہ اسے قابل اطلاق شمار نہ کیا۔ 1857میں لیکن ’’غدر‘‘ ہوگیا۔ اس پر قابو پانے کے بعد 6 اکتوبر 1860 میں جومجموعہ تعزیرات منظرعام پر آیا اس میں لارڈ میکالے کی جانب سے Sedition کی تشریح کرتی اور اسے قابل تعزیر قراردیتی زبان بھی شامل کردی گئی۔ وہی زبان 14 اگست 1947کے دن آزاد ہوئے پاکستان کے مجموعہ تعزیرات میں 2020 کے برس بھی مستعمل ہے۔ اس کی دفعہ 124-A کے مطابق ’’تحریری یا زبانی الفاظ‘‘ کے ذریعے عوام میں حکومت کے خلاف نفرت،حقارت اور بے چینی کے جذبات ابھارنے کو قابلِ تعزیر ٹھہرایا گیا ہے۔ یادرہے کہ اس ضمن میں لفظ ’’حکومت (Government)‘‘ استعمال ہوا ہے State یعنی ریاست نہیں۔ اس دفعہ کے ہوتے ہوئے ہر وہ ٹی وی رپورٹر ’’سرکشی‘‘ کا مرتکب ٹھہرایا جاسکتا ہے جو مائیک اٹھائے لوگوں سے بھرے بازار میں مثال کے طور پر مہنگائی کی بابت سوال اٹھانا شروع ہوجائے۔  اس سے بات کرنے والے اگر مہنگائی کی دہائی مچائیں تو ان کا واویلا لوگوں میں Disaffection یعنی اضطراب کے جذبات ابھارنے کی ’’سازش‘‘ ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ عمران ’’حکومت‘‘ دفعہ 124-A کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کے خلاف کارروائی کی ہر صورت مجاز ہوگی۔ اس حقیقت کو نگاہ میں رکھتے ہوئے سوال اٹھانا یہ بھی ضروری ہے کہ برطانیہ کی غلامی سے 1947 میں آزاد ہوئے پاکستان میں کم از کم 1970 سے متعدد بار عوام کی منتخب شدہ ’’قانون ساز اسمبلیاں‘‘ معرضِ وجود میں آئیں۔ ہمارے نام نہاد ’’نمائندوں‘‘ میں سے کسی ایک کو بھی آج تک توفیق کیوں نہ ہوئی کہ Sedition سے متعلق قوانین کو ’’جمہوری ملک کے شہریوں‘‘ کے بنیادی حقوق کو نگاہ میں رکھتے ہوئے مؤثر نظرثانی کے عمل سے گزارا جائے۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے اس ضمن میں ایک مسودہ تیار کررکھا ہے۔ اس مسودے کو سینٹ کی جس کمیٹی نے منظور کرنا ہے اس کے سربراہ پیپلز پارٹی ہی کے رحمن ملک صاحب ہیں۔ ملک صاحب نے FATF کی تسلی کے لئے تیار ہوئے قوانین کو منظور کروانے میں ماہرانہ عجلت دکھائی تھی۔ اس جانب بھی توجہ فرماسکتے ہیں۔ ایوانِ بالا میں اپوزیشن جماعتیں بھاری بھرکم اکثریت کی حامل ہیں۔ وہ یکسوہوکر Sedition کی بابت ’’دورِ غلامی‘‘ میں لارڈ میکالے کی جانب سے ہوئی تشریح سے ہماری جان بآسانی چھڑاسکتی ہیں۔ فواد چودھری صاحب مصر ہیں کہ ان کے قائد عمران خان صاحب سیاسی مخالفین کے خلاف سرکشی اور بغاوت والے مقدمے قائم کرنے کے حامی نہیں۔ ان کی خواہش کو قانون کی صورت عملی جامہ پہنانے میں لیکن کیا امرمانع ہے۔ بجائے ٹویٹ لکھنے کے چودھری صاحب کابینہ کے اجلاس میں 1860 میں لاگو ہوئے قوانین کو ’’مدینہ کی ریاست‘‘ کے قابل بنانے کا بیڑا کیوں نہیں اٹھارہے۔ ٹویٹس لکھنا تو پنجابی محاورے والے ’’بول بچن‘‘ہیں۔ا نگریزی والی Spin Doctoring۔ فواد چودھری کو مگر مورودالزام کیوں ٹھہرانا؟ تلخ ترین حقیقت ہے تو محض اتنی کہ ’’خوئے غلامی‘‘ کے عادی ہمارے معاشرے میں جو بھی منتخب یاغیر منتخب شخص ’’سرکار‘‘ کا حصہ بن جاتا ہے اسے لارڈ میکالے کے بنائے قوانین بہت بھاتے ہیں۔ یہ ’’آقا‘‘ اور ’’غلام‘‘ کے رشتے کو برقرار رکھتے ہیں۔ اپنے تئیں ہر حکومت کو “1857” سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ عمران خان صاحب پسند کریں یا نہیں ان کے خواب والی ’’مدینہ کی ریاست‘‘ میں 124-A کا استعمال لہذا جاری رہے گا۔

شاہدرہ کے فرض شناس تھانے دار نے ایک محب وطن شہری کی فریاد پر رات کے دو بجے کے بعد ایف آئی آر کاٹتے ہوئے 1860 سے قانون کی کتاب میں باقاعدہ لکھی اور کئی دہائیوں سے موجود دفعات ہی کو استعمال کیا ہے۔ وہ اپنے فرائض سے غفلت کا مرتکب ہوتا تو شاہدرہ کا رہائشی لاہور پولیس کے کماندار عمر شیخ صاحب سے رجوع کرتا۔ وہ لاہور کو ’’بدلنے‘‘ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ہر دوسرے روز کسی نہ کسی تھانے دار کو اپنے فرائض کماحقہ انداز میں استعمال نہ کرنے کی وجہ سے معطل کرکے حوالات کے سپردکردیتے ہیں۔ شاہدرہ کے فرض شناس افسر نے ایک محب وطن شہری کی فریاد پر فوری کارروائی کرتے ہوئے اپنی نوکری اور عزت بچائی ہے۔ اس کی فرض شناسی کو سلام۔

About The Author