وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے جنم میں موہے ٹی وی چینل کا تجزیہ باز کیجئیو
اگلے جنم میں موہے ٹی وی چینل کا تجزیہ باز کیجئیو۔یہ ہے وہ دعا جو میں بیالیس برس کی صحافت کے بعد کر رہا ہوں کہ جس میں سے نصف اخباری، چالیس فیصد ریڈیائی اور دس فیصد ٹی وی چینل کی صحافت ہے۔مگر میں صحافتی عمر کے آخری حصے میں یہ دعا مانگنے پر کیوں مجبور ہوا ؟ اس کا دو حرفی جواب یہ ہے کہ میں تحقیق و تصدیق و موزوں الفاظ کے تحریری استعمال سے تنگ آ چکا ہوں اور اب بچی کھچی عمر اور مبینہ و ممکنہ اگلا جنم اوریجنل تجزیات میں صرف کرنا چاہتا ہوں کہ جو اس قدر شفاف ہوں کہ انھیں علمیت کجا معلومات کی دھول بھی چھو کے نہ گذری ہو۔
میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں ایک بزدل تجزیہ کار ہوں اور مجھے ان بہادر اسکرینچی تجزیہ بازوں پر رشک آتا ہے جنھوں نے طے کرلیا ہے کہ وہ کسی ایک نظریاتی یا شخصی یا ادارہ جاتی یا حساس ادارہ جاتی کیمپ کا حصہ بن کے قلمی و علمی و مادی اعتبار سے آسودہ رہیں گے۔اب چاہے آندھی آئے یا طوفان۔انھیں اپنی بات اور تجزیے پر ڈٹے رہنا ہے۔ دوسرے کو ابلیس اوراپنے والے کو ظلِ الہی ثابت کرنا ہے۔اب یہ دوٹوک دمادم مست قلندری رویہ تجزیہ نگار کو بہاتے ہوئے جہاں تک لے جائے۔جہاں زبان رک گئی بس وہی حتمی پنچ لائن اور حرفِ آخر ہے۔
یہاں اپنا حال یہ ہے کہ یہی اندازہ نہیں ہوپاتا کہ جنابِ شیخ کا قدم اب یوں پڑے گا کہ ووں۔ اس وقت جو آگ ان کے منہ سے نکل رہی ہے اس پر یقین کر کے تجزیہ شروع کروں یا دو گھنٹے بعد ان کے منہ سے جو پھول جھڑنے والے ہیں، کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ان کا انتظار کرلوں۔کہیں یہ نہ ہو کہ کل تک جب میرا مدبرانہ تجزیہ کوٹھوں چڑھ جائے تب تک بازی پلٹ چکی ہو اور میرا قاری میری تجزیاتی عقل پر زنجیر کاماتم کر رہا ہو۔
آنجہانی برطانوی وزیرِ اعظم ہیرلڈ ولسن کا یہ قول تو اب ہر ماجھے ساجھے ، شیدے ، حمیدے کو ازبر ہوچکا ہے کہ سیاست میں ایک ہفتہ بھی بہت لمبا عرصہ ہوتا ہے۔لیکن ولسن نے یہ بات ان بھلے وقتوں میں کہی تھی جب درجہ سوم کا سیاستداں بھی اپنے کہے پر کم ازکم ہفتہ بھر ضرور قائم رہتا ہوگا۔آج کے پاکستان میں تو اسٹاک ایکسچینج کے بھاؤ بدلنے کی رفتار بھی سیاسی ایتھلیٹوں اور ان کے قلمی چوب داروں کے آگے پانی بھرتی ہے۔
’’ بھائی یہ بات میں نے صبح ناشتے کی میز پر یقیناً کہی تھی لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔ارے آپ اب تک میرے دوپہر والے بیان میں الجھے ہوئے ہیں۔غالباً آپ نے میرا سہ پہر والا بیان نہیں دیکھا۔ اسے پڑھ لیں تو بعد از مغرب میں نے جو پریس کانفرنس کی ہے اس کا مفہوم باآسانی آپ کی سمجھ میں آجائے گا۔پھر بھی میرا مشورہ ہے کہ کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے کل صبح دس بجے کی میٹنگ میں ہونے والے میرے خطاب کا انتظار کرلیں ہوسکتا ہے کہ آپ جن خطوط پر سوچ رہے ہیں وہ خطوط ہی نہ رہیں۔‘‘
ایسا نہیں کہ سیاسی رولر کوسٹر آج کی ایجاد ہے۔ بلکہ اوپر نیچے دائیںبائیں آگے پیچھے نیچے اوپر کا سیاسی ورثہ ہمیں ترکے میں ملا ہے۔کیا یاد نہیں وہ قصہ جب تقسیم سے لگ بھگ ایک برس پہلے پنجاب کے کسی علاقے میں ایک مسلم لیگی مقرر تن من کا زور لگاتے ہوئے یونینسٹ وزیرِ اعظم خضر حیات ٹوانہ کے بخیے ادھیڑ رہا تھا۔
’’ اوئے ٹوڈی بچے، ابے انگریزوں کے پٹھو ، ارے او بکاؤ مال، مسلمانانِ پنجاب کے غدار ، موقع پرست سیاست کے خدا ، پست جاگیردارانہ ذہنیت کے مالک خضر حیات تو نے تو اپنی حکومت قائم رکھنے کے لیے انگریزوں کے ساتھ ساتھ کانگریسیوں اور اکالیوں کے تلوے چاٹنے سے بھی گریز نہیں کیا۔
کہاں تھی تیری غیرت خضر حیات جب تیری پولیس نے سیکرٹیریٹ پر جھنڈا لگانے والی قابلِ احترام مسلم لیگی عورتوں کو ایسی بربریت کا نشانہ بنایا کہ چنگیز خان کی روح بھی شرما جائے۔اے ہوسِ اقتدار کے اندھے پجاری خضر حیات خدا کے ہاںدیر ہے اندھیر نہیں۔اوپر والے نے تیری رسی دراز ضرور کر رکھی ہے لیکن وہ وقت بہت جلد آنے والا ہے خضر خیات کہ تیرے ظلم کی رسی تیرے ہی گلے میں۔۔‘‘
اتنی دیر میں کسی مسلم لیگی کارکن نے شعلہ بیاں مقرر کے کان میں کہا کہ یونینسٹوں اور مسلم لیگ قیادت نے پنجاب میں اتحاد کا فیصلہ کرلیا ہے۔شعلہ بیاں مقرر نے ایک منٹ آسمان کی طرف دیکھا اور پھر تقریر شروع کردی۔
’’ تو ساتھیو جیسا کہ میں تھوڑی دیر پہلے کہہ رہا تھا کہ خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔آپ دیکھئے کہ میری بات کیسی سچ ثابت ہوئی۔۔ہنے ہنے خبر آئی اے خضر ساڈا بھائی اے۔مسلم لیگ اور جناب خضر حیات نے مسلمانانِ پنجاب کی وسیع تر بہتری کے لیے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔اوئے ہندو ، اوئے خالصے تے اوئے انگریز کان کھول کر سن لو مسلم لیگ اور جناب خضر حیات صاحب کی انقلابی قیادت میں مسلمانان پنجاب اب سیسہ پلائی دیوار بن چکے ہیں۔اب ہم سے جو ٹکرائے گا وہ پاش پاش ہوجائے گا۔وما علینا الالبلاغ۔‘‘
اب آپ خود ہی بتائیے کہ ان حالات میں میرے جیسا تجزیہ کار کہاں جائے، کیا کرے ،کس کے بال نوچے اور کہاں کے نوچے۔میرا خیال ہے کہ ہم جیسے جوتیاں چٹخانے والے چپڑ قناتی گفتگو بازوں کو غصے اور فرسٹریشن میں اپنا منہ پیٹنے کے بجائے روم میں رہ کر وہی چلن اپنانا چاہیے جیسا کہ اہلِ روم کا چلن ہے۔ اصول پسندی اپنی جگہ لیکن موقع شناسی ( جسے بعض جہلا موقع پرستی کہتے ہیں ) اور عملیت پسندی (جسے بعض جہلا بے غیرتی سمجھتے ہیں)اور بالغ نظری (جسے بعض جہلا خرگوش اور شکاری کے ساتھ بیک وقت دوڑنا گردانتے ہیں ) کا وتیرہ اپنا لینا چاہیے۔
اب میں بھی کسی مشاق چینلی استاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کروں گا جو مجھے گر بتائے کہ بہتی گنگا میں نہانے کے باوجود جسم خشک کیسے رکھا جاتا ہے۔حتمی تجزیہ کرتے ہوئے حتمی نتیجے پر پہنچنے کے بعد جب یہ محسوس ہونے لگے کہ یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور ہے تو اس وقت کیسے پیشانی پر پسینہ چمکائے بغیر خجالت کے روشن دان سے باہر نکل کر آواز کی لرزش کو چھپاتے ہوئے یہ کہنا ہے کہ دیکھا میں نہ کہتا تھا کہ گر یوں ہوا تو پھر یوں ہو جائے گا۔
اب آپ کو سمجھ میں آیا کہ میں اتنے دنوں سے اپنے تجزیات میں کس جانب اشارہ کررہا تھا۔اور سب سننے والے کہیں بے شک بے شک آپ ایک عظیم نباض ہیں جو نہ صرف پسِ دیوار دیکھ لیتا ہے بلکہ دیوار پے سامنے سامنے لکھا بھی ٹھیک ٹھیک پڑھ لیتا ہے۔واہ جی واہ خان صاحب۔یہ آپ کیسے کر لیتے ہیں ؟ ہیں جی۔آفرین آفرین۔۔۔۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ