نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

قائد اعظم اکادمی پر تالے پڑنے والے ہیں۔۔۔ سعید خاور

قائد اعظم کے ملک میں قائد اعظم سے منسوب اداروں کے ساتھ اس قسم کا سلوک ہماری حکومتوں، اداروں اور مقتدر شخصیات کے لئے شرمندگی کا باعث ہے۔

سعید خاور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بانی پاکستان محمد علی جناح بر صغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک عظیم رہبر کی حیثیت رکھتے ہیں، انہوں نے شب و روز جدوجہد کر کے ہمیں ایک آزاد ریاست عطا کی، جس میں ہمیں آزاد فضاؤں میں زندگی گزار نے کا موقع ہاتھ آیا لیکن ہم نے اپنی خود غرضیوں سے یہ موقع گنوا دیا۔ محمد علی جناح کی زندگی، ان کے کارناموں اور ان کے افکار و خیالات کی بنا پر انہیں مسلم دنیا کا ہیرو اور قائد اعظم قرار دیا گیا۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ان کی وفات کے بعد ہم نے ان کے نصاب سے منہ موڑ کر اپنی راہیں کھوٹی کر لی ہیں اور آج استعماری قوتوں کی غلامی کرنے پر مجبور ہیں۔

پینتالیس برس پہلے 1975 ء میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی، ان کے کارناموں اور ان کے افکار اور سیاسی نظریات پر کیے جانے والے تحقیقی کاموں کی نشر و اشاعت اور انہیں عوام تک پہنچانے کے لئے ایک غیر معمولی مقاصد کی حامل ”قائد اعظم اکیڈمی“ شہر قائد میں قائم کی گئی تھی، جو آج اپنے قیام کی کم و بیش نصف صدی بعد عضوئے معطل بن کر رہ گئی ہے۔ قائد اعظم اکیڈمی پاکستان کا ایک علمی و تحقیقی ادارہ ہے جو قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن، وزارت اطلاعات و نشریات حکومت پاکستان کے ماتحت کام کرتا رہا ہے، جس کا مقصد قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی و افکار پر تحقیقی مواد کی اشاعت تھی۔

6 نومبر، 1975 ء کو قائد اعظم کے صد سالہ جشن ولادت کے موقع پر تشکیل دی جانے والی کمیٹی نے ایک ایسا خود مختار ادارہ بنائے جانے کی تجویز پیش کی تھی جو قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی، ان کے کارناموں اور ان کے افکار اور سیاسی نظریات پر کیے جانے والے تحقیقی کاموں کی نشر و اشاعت کا ذمہ دار ہو۔ اس تجویز کی روشنی میں 25 دسمبر 1975 ء کو وزیر تعلیم عبدالحفیظ پیرزادہ نے کراچی میں ایک پریس کانفرنس میں قائد اعظم اکیڈمی کے قیام کا اعلان کیا۔

انہوں نے کہا کہ اس اکیڈمی کا انتظام ایک بورڈ آف گورنرز سنبھالے گا اور وزیر تعلیم اس کے سربراہ ہوں گے۔ 9 جنوری 1976 ء کو قائد اعظم اکیڈمی کا قیام باقاعدہ طور پر عمل میں آ گیا اور جامعہ کراچی کے شعبۂ صحافت کے سربراہ پروفیسر شریف المجاہد کو اس اکیڈمی کا ڈائریکٹر مقرر کر دیا گیا۔ 28 جنوری، 1976 ء کو اس اکیڈمی کو خود مختار ادارے کا درجہ دے دیا گیا۔ ابتدا میں یہ اکیڈمی پاکستان سیکریٹریٹ کے ایک بلاک میں قائم کی گئی مگر نومبر 1979 ء میں اسے قائد اعظم کے مزار کے سامنے ایک بنگلے میں منتقل کر دیا گیا جو اکیڈمی کی ملکیت میں ہے۔

ابتدا میں قائد اعظم اکیڈمی میں دس ہزار سے زیادہ کتابوں پر مشتمل ایک لائبریری بھی قائم کی گئی تھی جس سے قائد اعظم کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر تحقیق کرنے والے طلبہ اور تحقیق و تدوین کے شعبے سے سے وابستہ شخصیات استفادہ کرتی رہی ہیں لیکن اب یہ لائبریری کم و بیش 33 ہزار کتابوں اور دستاویزات کا خزانہ سمیٹے ہوئے ہے۔ یہ لائبریری پاکستان کی واحد لائبریری ہے جہاں ایک چھت کے نیچے برصغیر پاک و ہند کی تاریخ، قائد اعظم محمد علی جناح، ان کے رفقا کی سوانح اور تحریک پاکستان سے متعلق کتابیں اور دستاویزات میسر ہیں۔

اسی طرح آل انڈیا مسلم لیگ کا سارا ریکارڈ 700 جلدوں، قائد اعظم پیپرز 1100 جلدوں میں موجود ہے جبکہ انڈیا اور پاکستان کی اسمبلیوں میں قانون سازی کا سارا ریکارڈ بھی اس میں موجود ہے۔ گردش دوراں میں پاکستان کی اس عظیم ترین لائبریری کا وجود بھی خطرے میں پڑ گیا ہے، مناسب دیکھ بھال اور توجہ نہ ہونے کے سبب یہ تاریخی اثاثہ تباہ ہو رہا ہے۔ اب اس لائبریری کو سنبھالنے کے لئے کوئی کوالیفائڈ لائبریرین ہی موجود نہیں، جبکہ اس وقت اکیڈمی کو سولہ گریڈ کے صرف ایک آفس اسسٹنٹ، پانچ اپر ڈویژن اور ایک لوئر ڈویژن کلرکوں اور آٹھ گارڈوں اور چپڑاسیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، جو بانی پاکستان کے نام پر بننے والے قومی ادارے کی زبوں حالی، ہماری قائد نا شناسی اور حکمرانوں کی پس ماندہ ذہنیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

13 جون 2014 ء کو اس وقت کی حکومت نے ”قائد اعظم اکیڈمی“ پر شب خون مارا اور اس کی خود مختار حیثیت ختم کر کے اسے وزارت اطلاعات و نشریات اور نیشنل ہیریٹیج کے تابع کر دیا گیا۔ 25 مئی 2015 ء کو ”قائد اعظم پیپرز اسلام آباد برانچ“ قائداعظم اکیڈمی میں ضم کر دی گئی۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد امید بندھی تھی کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں ”قائد اعظم اکیڈمی“ کی خود مختاری کے خواب کو تعبیر مل جائے گی اور اس اکیڈمی کو اس کی روح اور قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت کی عظمت و شان کے عین مطابق ایک بڑے علمی اور تحقیقی ادارے کی شکل مل جائے گی لیکن اس وقت قوم کو مایوسی ہوئی کہ جب حکومت نے آتے ہی ”قائد اعظم اکیڈمی“ کی جداگانہ حیثیت بحال کر نے کی بجائے اسے ”مزار قائد اعظم منیجمنٹ بورڈ“ میں ضم کر دیا جس کے سربراہ (ریذیڈنٹ ڈائریکٹر) ایک سول انجینیئر محمد عارف ہیں، جن کا قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت، کارناموں اور ان کے افکار و خیالات پر آگاہی اور تحقیق و تدوین سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔

اس بورڈ کی نگہبانی موجودہ وفاقی وزیر تعلیم ڈاکٹر شفقت محمود کرتے ہیں۔ اس طرح موجودہ حکومت کے ایک عاقبت نا اندیشانہ فیصلے نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح سے منسوب ایک تاریخی منصوبے کا مستقبل کھٹائی میں ڈال دیا ہے۔ نئے پیرہن کے بعد ”قائداعظم اکیڈمی“ روز بروز رو بہ زوال ہے۔ دو برس سے اس اکیڈمی کا کوئی ڈائریکٹر نہیں ہے۔ حالانکہ ماضی میں کئی نابغہ روزگار علمی اور تحقیقی شخصیات پروفیسر شریف المجاہد، ڈاکٹر وحید احمد، ڈاکٹر یعقوب مغل اور خواجہ رضی حیدر اس کی سربراہی کے منصب پر فائز رہی ہیں۔ یہاں کچھ عرصہ ڈاکٹر شہلا کاظمی بھی قائم مقام ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دیتی ر ہیں۔ گزشتہ دس برسوں سے ”قائد اعظم اکیڈمی“ میں کوئی نئی تعیناتی نہیں ہوئی حالانکہ یہاں کئی خالی آسامیاں موجود ہیں جن پر بھرتیاں کر کے اس اکیڈمی کو فعال کیا جا سکتا تھا۔

جب معروف اسکالر خواجہ رضی حیدر یہاں بطور ڈائریکٹر تعینات تھے، تو انہوں نے بہت کوششیں کیں کہ کسی طرح ”قائد اعظم اکیڈمی“ کو شایان شان بنا کر قوم کو تحفہ پیش کیا جائے، لیکن ان کی ساری کوششیں اکارت گئیں۔ خواجہ رضی حیدر نے متعلق ادارے ”نیشنل ہسٹری اینڈ کلچرل ڈویژن“ کو بیسیوں خطوط لکھ کر ”قائد اعظم اکیڈمی“ کی حالت زار کی طرف توجہ مبذول کرائی لیکن ”قائد اعظم اکیڈمی“ جیسے قومی اہمیت کے ادارے کی بہتری کے لئے کسی کے کانوں پر کوئی جوں تک نہیں رینگی۔

خواجہ رضی حیدر نے اپنے دور میں قائد کی شخصیت اور رہنما کردار کے حوالے سے آٹھ ضخیم کتابیں شائع کیں لیکن مارکیٹنگ اور سرکولیشن کا عملہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کتابوں کو مارکیٹ نہ کیا جا سکا، جس کی وجہ سے کم و بیش 35 ہزار کتابیں گوداموں میں پڑی سڑ رہی ہیں۔ خواجہ رضی حیدر نے ”نیشنل ہسٹری اینڈ کلچرل ڈویژن“ اور ”مزار قائد اعظم منیجمنٹ بورڈ“ کو یہ تجویز بھی پیش کی کہ ایم اے جناح روڈ پر واقع ”قائداعظم اکیڈمی“ کی عمارت، جس کی قیمت لگ بھگ 60 کروڑ بنتی ہے، کو بیچ کر اس کی آمدنی سے مزار قائد اعظم سے متصل ڈھائی ایکڑ پر محیط قطعہ ارضی پر ”قائداعظم اکیڈمی“ کی شان دار عمارت تعمیر کی جا سکتی ہے لیکن اس تجویز کو کار آمد قرار دیے جانے کے باوجود، اس پر عمل نہیں کیا گیا بلکہ نئی حکومت کے آتے ہی ”قائد اعظم اکیڈمی“ کی خود مختاری ختم کر کے اسے ”مزار قائد اعظم منیجمنٹ بورڈ“ کے زیر نگیں کر دیا ہے۔

قائد اعظم کے ملک میں قائد اعظم سے منسوب اداروں کے ساتھ اس قسم کا سلوک ہماری حکومتوں، اداروں اور مقتدر شخصیات کے لئے شرمندگی کا باعث ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی ذات اور شخصیت سے منسوب ماضی کے اس عظیم ادارے کے ساتھ حکمرانوں کا ناروا سلوک ہم سب کے لئے شرمندگی کا باعث ہے، لگتا ہے کہ کسی روز کسی اخبار میں ایک چھوٹی سی خبر چھپے گی کہ ”حکومت نے قائد اعظم اکیڈمی پر تالے ڈال دیے۔“

About The Author