نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جگن ناتھ آزاد اور قومی ترانہ۔۔ اشفاق نمیر

قائداعظم کی وفات کے بعد نہ یہ قومی ترانہ باقی نہ رہا آپ احباب کی دلچسپی کے لیے وہ ترانہ حاضر خدمت ہے

اشفاق نمیر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جگن ناتھ آزاد اردو کے معروف شاعر تھے ان کی مختلف موضوعات پر مبنی تصنیفات کی تعداد 70 سے زائد ہیں جگن ناتھ آزاد پنجاب کے ضلع میانوالی کے چھوٹے سے قصبے عیسی خیل میں 5 دسمبر 1918 کو پیدا ہوئے ان کے والد تلوک چند محروم کا شمار بھی اردو کے معروف شعرا میں ہوتا ہے جگن ناتھ آزاد کو ایک شاعر کے طور پر شاید بہت سے لوگ جانتے ہوں لیکن یہ بات بہت کم لوگوں کے علم میں ہو گی وہ پاکستان کے پہلے قومی ترانے کے خالق تھے قائد اعظم محمد علی جناح کی خواہش پر جگن ناتھ آزاد نے یہ ترانہ لکھا تھا اور قائداعظم کو پیش کیا قائد اعظم نے اسے منظور کیا تھا اور 18 ماہ تک یہ پاکستان کے قومی ترانے کے طور پر رائج رہا البتہ قائد اعظم کی وفات کے بعد اسے تبدیل کر دیا گیا

ڈاکٹر خلیق انجم اپنی کتاب "جگن ناتھ آزاد حیات اور ادبی خدمات ” (سن اشاعت 1993) میں لکھتے ہیں ” یہ واقعہ ان دنوں کا ہے جب آزاد صاحب اپنے وطن پاکستان ہی میں تھے پاکستان کے ذمہ داروں نے آزاد صاحب سے ترانہ پاکستان لکھوایا تھا اس سے بڑا اعزاز ایک شاعر اورخاص طور سے ایک غیر مسلم شاعر کے لیے اور کیا ہو سکتا ہے کہ 14 اگست 1947 کی رات کو پاکستان کے قیام کے اعلان کے فورََا بعد ریڈیو پاکستان لاہور سے جو ترانہ نشر ہوا وہ آزاد صاحب کا لکھا ہوا تھا”

جگن ناتھ آزاد نے اپنی کتاب "حیاتِ محروم ” تلوک چند محروم: شخصیت اور فن” کے حاشیے میں صفحہ نمبر 138 (1987) پر ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے جو دلچسپی سے خالی نہ ہو گا وہ لکھتے ہیں کہ” میں ابھی لاہور میں تھا اور اس ارادے کے ساتھ اپنے گھر (رام نگر ) میں مقیم تھا کہ میں لاہور چھوڑ کے نہیں جاؤں گا اُس وقت تک پاکستان بھر میں غالباََ دو ریڈیو سٹیشن تھے ایک لاہور میں دوسرا پشاور میں تھا رات کو جب قیام پاکستان کا اعلان ہوا تو ریڈیو پاکستان لاہور سے میرا قومی ترانہ ۔۔۔۔ ذرے ترے ہیں آج ستاروں سے تابناک ۔ ۔ ۔ اے سرزمین پاک ! ۔۔۔۔ نشر ہوا اور اس تصویر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ دوسرے دن 15 اگست کو جب ہندوستان کا جشن آزادی منایا جا رہا تھا تو آل انڈیا ریڈیو دہلی سے حفیظ جالندھری کا ترانہ ۔۔۔۔ اے وطن ، اے انڈیا ،اے بھارت ، اے ہندوستان ۔۔۔۔۔۔ نشر ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔”

آزاد کہتے ہیں کہ میرے تمام عزیز و اقارب ہندوستان جا چکے تھے لیکن میرے لیے لاہور کو چھوڑنا بہت مشکل ہو رہا تھا میرے مسلمان دوست بھی رکنے پر اصرار کر رہے تھے ۔ اور میری حفاظت کا ذمہ بھی اُٹھا رہے تھے اسی اثنا میں 9 اگست 1947 کی صبح مجھے ایک دوست نے جو لاہور ریڈیو سٹیشن میں کام کرتا تھا مجھے دفتر بلایا اور پاکستان کے پہلے گورنر جنرل محمد علی جناح کا پیغام دیا کہ قائداعظم چاہتے ہیں کہ تم پاکستان کا قومی ترانہ لکھو میں نے کہا کہ 5 دنوں میں یہ کام کرنا بہت مشکل ہے لیکن دوست کا اصرار تھا کہ یہ پاکستان کے سب سے بڑے لیڈر کی خواہش ہے اور اسے پورا ہونا چاہیئے

قائداعظم کی وفات کے بعد نہ یہ قومی ترانہ باقی نہ رہا آپ احباب کی دلچسپی کے لیے وہ ترانہ حاضر خدمت ہے

اے سرزمینِ پاک

ذرے ترے ہیں آج ستاروں سے تابناک

روشن ہے کہکشاں سے کہیں آج تیری خاک

تندیء حاسداں پہ ہے غالب ترا سواک

دامن وہ سل گیا ہے جو تھا مدتوں سے چاک

اے سرزمینِ پاک

اب اپنے عزم کو ہے نیا راستہ پسند

اپنا وطن ہے آض زمانے میں سربلند

پہنچا سکے گا اس کو نہ کوئی بھی اب گزند

اپنا علم چاند ستاروں سے بھی بلند

اب ہم کو دیکھتے ہیں عطارد ہو یا سماک

اے سرزمینِ پاک

اُترا ہے امتحان میں وطن آج کامیاب

اب حریت کی زلف نہیں محوِ پیچ وتاب

دولت ہے اپنے مُلک کی بےحد و بے حساب

ہوں گے ہم اپنے ملک کی دولت سے فیض یاب

مغرب سے ہم کو خوف نہ مشرق سے ہم کو باک

اے سرزمینِ پاک

اپنے وطن کا آج بدلنے لگا نظام

اپنے وطن میں آج نہیں ہے کوئی غلام

اپنا وطن ہے راہِ ترقّی پہ تیزگام

آزاد ، بامراد جواں بخت شاد کام

اب عطر بیز ہیں جو ہوائیں تھیں زہر ناک

اے سرزمین پاک

ذرّے ترے ہیں آج ستاروں سے تابناک

روشن ہے کہکشاں سے کہیں آج تیری خاک

اے سرزمینِ پاک

About The Author