گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آجکل شادی کی رخصتی کے وقت دلہن کا رونا دھونا بند ہو گیا ہے جس سے معاشرہ ایک دیرینہ روایت سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ دلہن کے نہ رونے کی ایک وجہ تو ہزاروں روپے کے میک اپ کا خراب ہونا ہے جس سے بیوٹی پالر والی کی محنت ضائع ہو جاتی ہے اور دلہن کا چاند جیسا چہرہ خراب نظر آتا ہے دوسری وجہ موبائیل فون بتائی گئی ہے کہ دلہن کا مسلسل رابطہ گھر والوں سے رہتا ہے اور جدائی کا احساس نہیں ہوتا۔
اب ان دو وجوہات کی بنیاد پر اگر یہ صدیوں کی روایت ٹوٹ رہی ہے تو سچی بات یہ ہے کہ مجھے اس پر خود بڑا رونا آیا۔انسان اگر عقل سے کام لے تو ایسی روایت بچ بھی سکتی ہے اور میک اپ بھی۔ میں نے پہلے تو سوچا کہ اگر دلہن کی جگہ دلھا کی ڈیوٹی لگا دی جاے تو کم از کم اس موقع پر وہ سچی مچی رو کر ہماری دیرینہ روایت کو بچا لے پھر مجھے یاد آیا کہ ایک ہیر کٹنگ سیلون پر لکھا تھا ۔یہاں دلھا تیار کیا جاتا ہے۔
میں نے جھانک کر دیکھا تو دلھا کا میک اپ بھی تقریبا” اسی طرح کیا جا رہا تھا جس طرح دلہن کا کیا جاتا ہے۔ میں یہ دیکھ کر دفتر چلا گیا اور تین گھنٹے بعد بریک میں جا کر دیکھا تو دلھا کی تیاری مکمل نہیں ہوئی تھی اور آخری ٹچیس دیے جا رہے تھے۔
تو ایسے تیار کیے گیے دلھا کو بھی یہ کہا جاے کہ رخصتی کے وقت وہ تھوڑا رو کر ہماری ماضی کی روایت کو زندہ رکھے تو جواب نفی میں ہو گا کیونکہ وہ بھی ہزاروں کا خرچہ کیوں ضائع کرے۔بہر حال میں ایک قدامت پسند آدمی ہوں دماغ پر زور دیتا رہا کہ کوئی تھرڈ آپشن پر غور کروں ۔پھر مجھے صدیوں پرانے ایک دیہات کا قصہ یاد آ گیا۔وہ کچھ یوں ہے کہ ایک دور دراز گاوں میں دو میاں بیوی رہتے تھے ۔شوھر کا نام ۔۔
حیات اور بیوی کا ملوکاں تھا۔ ایک دفعہ ان کے ہاں کوئی ندیدہ قسم کا آدمی مہمان بن کے ٹھرا ۔دونوں نے بڑی خدمت کی مگر ہفتہ سے بھی زیادہ ہو گیا وہ جانے کا نام نہیں لے رہا تھا کیونکہ وہ ایک ٹھگ قسم کا بندہ تھا جو لوگوں کے گھروں کئی روز گزار کر ٹایم پاس کرتے ہیں ۔میاں بیوی نے اس ٹھگ سے جان چھڑانے کی سکیم بنائی۔ ایک روز میاں گھر آیا بیوی کو مارنے لگا اور بیوی زور زور سے رونے لگی ۔
ٹھگ اس شخص کو غصے میں دیکھ کر چلتا بنا ۔اور دونوں میاں بیوی نے سکھ کا سانس لیا۔اب میاں بیوی کا مکالمہ شروع ہوا ۔
شوہر نے ہنستے ہوے سرائیکی میں کہا۔۔۔ناں میڈا حیات۔۔میں کوڑی ماری چاٹ۔مارا میں وی نیں۔۔ بیوی نے کہا ۔۔۔ناں میڈا ملوکاں میں کوڑیاں بھریاں کوکاں رُنی میں وی ناں۔۔
یہ مکالمہ جاری تھا کہ پچھواڑے سے اچانک وہ ٹھگ سامنے آگیا اور کہا۔۔ناں میڈا ڈتہ ۔۔ میں ساڑاے ہاں دا پِتہ گیا میں وی ناں۔۔۔مطلب میاں بیوی کی ٹھگ سے جان چھڑانے کی سکیم تو ناکام ہو گئی لیکن اس ساری کہانی میں ایک مارل سامنے آتا ہے کہ عورت جھوٹی موٹی کوکاں مار سکتی ہے ۔ کوکاں اصل میں ایک خاص قسم کی آواز نکال کر رونا ہوتا ہے جس میں آنسو نہیں نکلتے اور دردبھری موسیقی جیسی آواز نکلتی ہے۔
اب رخصتی کی صدیوں کی روایت کو بچانے کا یہ نادر طریقہ میری ایجاد ہے۔بس کرنا یہ ہو گا کی شادی سے ایک ہفتہ پہلے دلہن کو روزانہ ایک ایکسپرٹ عورت کے ذریعے کوکاں مارنے کا ایک گھنٹہ ریاض کرایا جاۓ اور رخصتی کے وقت دلہن اپنے کمرے سے گھر کے دروازے کی دہلیز تک کوکاں مارتی رخصت ہو اس طرح ہماری روایت بھی برقرار رہے گی میک اپ بھی خراب نہیں ہو گا اور دلھا بھی رونے دھونے سے بچ جاے گا۔
آپ دیکھیں میرے زرخیز ذھن میں کیسے کیسے نادر آڈیاز موجود ہیں ۔میں مشکل سے مشکل مسئلہ سیکنٹوں میں حل کر سکتا ہوں۔ آپ ک سائیکل کی چین بار بار اتر جاتی ہے۔روٹی پکتے وقت جل جاتی ہو۔ بجلی بار بار چلی جاتی ہو ۔بل اور جرمانے آتے ہوں۔ سبق یاد نہیں رہتا۔فیس بک پر لایکس کم ملتے ہیں۔ ہر قسم کے قدیم اور جدید مسائیل کا حل میرے پاس موجود جس کا ثبوت آج آپ نے دیکھ لیا کہ دلہن کے رونے کا کیسا بہترین حل پیش کیا ہے۔ میں کوئی عامل نہیں لیکن تمام مسائیل سائنسی بنیادوں پر حل کرتا ہوں بس پاکستانی قوم قدر کرے تو شاید کشمیر کا حل بھی نکل آے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ