آفتاب احمد گورائیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنے والے دو تین مہینوں میں جوں جوں موسم کا درجہ حرارت کم ہوتا جائے گا ویسے ویسے ہی سیاست کا درجہ حرارت بڑھتے چلے جانے امکان ہے۔ جلسے جلوس اور سیاسی تحریک کے لئے یہ مہینے ویسے بھی سازگار سمجھے جاتے ہیں۔ آل پارٹیز کانفرنس کے بعد لگتا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں یکسوُ ہو چُکی ہیں اور اب حکومت کے خلاف سڑکوں پر دما دم مست قلندر ہو کر رہے گا۔ حکومت کی دو سالہ بدترین کارکردگی، مہنگائی اور بیڈ گورننس کی وجہ سے حکومت کے خلاف پورے ملک میں ایسی سازگار فضا بن چُکی ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اگر اتحاد اور ثابت قدمی سے کام لیں تو حکومت کے لئے بہت بڑی مشکل پیدا ہو سکتی ہے۔
موجودہ دور حکومت میں قومی اداروں کی حکومتی معاملات میں مداخلت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تمام تر حکومتی معاملات پسِ پردہ موجود خفیہ ہاتھوں کے ذریعے چلائے جا رہے ہیں جبکہ نام نہاد حکومت مکمل طور پر کٹھ پتلی کا کردار ادا کر رہی ہے۔ خارجہ پالیسی، دفاع اور معاشی امور میں حکومتی کردار صرف نمائش کی حد تک ہے۔ سلیکٹڈ وزیراعظم کی حکومتی معاملات پر گرفت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بیوروکریسی وزیراعظم کے احکامات کو خاطر میں ہی نہیں لاتی جبکہ خود وزیراعظم اہم ترین فیصلوں اور معاملات سے اکثر بے خبر پائے جاتے ہیں کیونکہ بیشتر فیصلے وزیراعظم سے بالا بالا ہی کر لئے جاتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں گلگت بلتستان کے بارے ہونے والی نیشنل سیکیورٹی کی میٹنگ جس میں تمام پارلیمانی جماعتوں کے رہنما موجود تھے اس میں بھی وزیراعظم موجود نہیں تھے جس پر پیپلزپارٹی کی شیریں رحمان نے یہ سوال اٹھایا بھی کہ ایسی اہم نیشنل سیکیورٹی سے متعلقہ میٹنگ کی صدارت وزیراعظم کو کرنی چاہیے تھی۔ ایسی اہم میٹنگ میں وزیراعظم کو دعوت نہ دینا ظاہر کرتا ہے کہ معاملات وزیراعظم کی بجائے کہیں اور سے چلائے جا رہے ہیں۔ حکومت اور وزیراعظم کا کام صرف نیب کے ذریعے اپوزیشن رہنماوں کی گرفتاریوں اور کردار کشی تک محدود ہو چکا ہے۔ نام نہاد احتساب کے ذریعے ذاتی انتقام کی روش کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ وزیراعظم کسی بھی اہم قومی معاملے پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں کیونکہ وزیراعظم اہم ترین قومی معاملات پر اتفاق رائے کے لئے اپوزیشن سے بات چیت کے لئے بھی اپنی نام نہاد انا کے خول سے باہر آنے کے لئے تیار نہیں۔ حکومتی معاملات میں مقتدر اداروں کی بے جا مداخلت اور حکومتی معاملات چلانے میں وزیراعظم کی ناکامی سے نہ صرف امورِمملکت کا حرج ہو رہا ہے بلکہ قومی اداروں کے وقار پر بھی حرف آ رہا ہے جس کی ایک جھلک شہباز شریف کی گرفتاری کے موقع پر لگنے والے نعروں میں بھی نظر آتی ہے۔ لاہور میں لگنے والے ان نعروں سے عوام کے موڈ کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
اپوزیشن کی تحریک کا اعلان ہونے کے بعد نیب بھی متحرک ہو چکی ہے، اپوزیشن رہنماوں کو نوٹس بھیجے جارہے ہیں۔ زرداری صاحب پر فرد جرم عائد کر دی گئی ہے جبکہ شہباز شریف کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان حکومتی اقدامات کا اپوزیشن کی تحریک پر کیا اثر پڑتا ہے۔ عام طور پر دیکھا یہ گیا ہے کہ گرفتاریاں اور انتقامی ہتھکنڈے کسی بھی تحریک کو ختم کرنے کی بجائے اس کے لئے مہمیز کا کردار کرتے ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں بھی انتقامی ہتھکنڈوں سے مرعوب ہوتی نظر نہیں آ رہیں اور تحریک کے لئے اپنا ہوم ورک شروع بھی کر چکی ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید حسن مرتضی کی دعوت پر پیپلزپارٹی کی مرکزی سیکرٹری اطلاعات سیدہ نفیسہ شاہ، پلوشہ خان اور چوہدری منظور احمد سمیت دیگر عہدیداروں نے پچھلے ہفتے چنیوٹ کا دورہ کیا جس کے دوران مجوزہ تحریک کے بارے تنظیمی تیاریوں کا جائزہ لیا گیا۔ اس دورے کی وجہ سے فیصل آباد ڈویزن کی قیادت اور کارکنوں کو متحرک ہونے کا موقع ملا۔
دوسری طرف ن لیگ کے قائد میاں نواز شریف اور مریم نواز کو بھی اس چیز کا بخوبی احساس ہو چکا ہے کہ ان کی سیاسی بقا اب اسی میں ہے کہ تمام تر مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر اب مزاحمت کا راستہ اختیار کرنا ہو گا۔ میاں نواز شریف کی تقریر اور مریم نواز کی پریس کانفرنس کے بعد لگتا ہے کہ ن لیگ نے کھل کر کھیلنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ن لیگ میں موجود فاختاؤں کا بیانیہ اب پیچھے رہ گیا ہے اور عقابوں کا بیانیہ آگے بڑھ رہا ہے۔ میاں نواز شریف کی طرف سے خواجہ آصف کے سابق صدر آصف علی زرداری کے بارے دئیے گئے بیان سے بھی لاتعلقی کا اظہار کیا گیا ہے۔ میاں نواز شریف نے آصف علی زرداری کے بارے نہایت اچھے جذبات کا اظہار کیا ہے اور آصف علی زرداری کو ایک اہم اتحادی قرار دیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف پی ڈی ایم اور اپوزیشن تحریک کے بارے کافی سنجیدہ ہیں۔ اس لئے دونوں جماعتوں کو ماضی بُھلا کر صاف دل اور ذہن کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔ دونوں بڑی جماعتوں کے کارکنان اور قائدین کو ماضی کے قصے کہانیوں سے آگے نکلنا ہوگا۔ ماضی میں زندہ رہنے کی بجائے ماضی سےسبق سیکھ کر آگے بڑھنا ہوگا تب ہی اصل جمہوریت کی بحالی اور آمریت کو شکست دی جاسکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دونوں بڑی جماعتوں کو اپنی صفوں میں موجود ایسے عناصر سے بھی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے جو اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک کو سبوتاژ کرنے کے لئے اپوزیشن کے اتحاد میں دراڑیں ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مجوزہ اپوزیشن تحریک کی خاص بات یہ ہے کہ پہلی دفعہ پنجاب سے مقتدرہ کے خلاف تحریک اٹھے گی جس میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ شانہ بشانہ ہوں گی اور اس تحریک کا اصل میدان بھی پنجاب ہو گا۔ ن لیگ پنجاب کی ایک بڑی جماعت ہے جس کا پنجاب میں ایک بڑا حلقہ اثر موجود ہے جبکہ پیپلزپارٹی کی بھی پنجاب میں ایک بڑی حمایت موجود ہے جسے متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ پیپلزپارٹی کی پنجاب میں حمایت کا ثبوت بلاول بھٹو زرداری کی دو ہزار اٹھارہ کی الیکشن مہم کے دوران عوام کا بہت بڑی تعداد میں بلاول بھٹو زرداری کے جلسوں جلوسوں میں شرکت کرنا ہے۔ دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں پیپلزپارٹی نے پنجاب کے بہت سے اضلاع میں بہت اچھے ووٹ بھی حاصل کئے لیکن بوجوہ یہ ووٹ سیٹوں میں تبدیل نہ ہو سکے۔ پچھلے سال بی بی شہید کی برسی کے موقع پر راولپنڈی کا جلسہ بھی سب کو یاد ہو گا جب راولپنڈی میں ہر طرف پیپلزپارٹی ہی نظر آرہی تھی۔ پیپلزپارٹی کا ورکر بہت عرصہ سے ایسی کسی تحریک کا منتظر ہے اس لئے امید کی جاتی ہے کہ پیپلزپارٹی کے ورکر چاروں صوبوں سے جوق در جوق اپوزیشن کی تحریک میں شامل ہوں گے۔
پی ڈی ایم کے زیراہتمام چلنے والی اپوزیشن تحریک کے اغراض و مقاصد کس حد تک پورے ہوتے ہیں اس بات کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا لیکن ایک بات طے ہے کہ اپوزیشن کی تحریک کو بھرپور عوامی تائید حاصل ہو گی اور حکومت کے لئے تحریک میں ملک بھر سے شامل ہونے والے پیپلزپارٹی، ن لیگ اور دیگر اتحادی جماعتوں کے پرجوش کارکنان کے سِیل رواں کو روکنا آسان نہیں ہو گا۔ پیپلزپارٹی کے نوجوان قائد بلاول بھٹو زرداری اور ن لیگ کی رہنما مریم نواز کی قائدانہ صلاحیتوں کے لئے بھی اپوزیشن کی تحریک ایک کڑا امتحان ہو گی کیونکہ اصل جمہوریت کی بحالی کے لئے چلائی جانے والی یہ تحریک اقتدار پر قابض آمرانہ قوتوں کے خلاف براہ راست جنگ ہو گی۔ اس تحریک کی کامیابی کی صورت میں ملک ہمیشہ کے لئے ان آمرانہ قوتوں کے شکنجے سے آزاد ہو سکتا ہے جبکہ ناکامی کی صورت میں آمریت کے سائے مزید گہرے ہو جائیں گے اس لئے دونوں بڑی جماعتوں اور ان کے قائدین کے پاس غلطی کی گنجائش بالکل نہیں ہے۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ میثاقِ جمہوریت کی روشنی میں تحریک کے اغراض و مقاصد پر تمام جماعتوں کا مکمل اتفاق ہو تاکہ تمام جماعتیں مکمل یکسوئی کے ساتھ جمہوریت کی اصل شکل میں بحالی اور سول سپریمیسی کے ایجنڈے پر آگے بڑھ سکیں۔
اپوزیشن کی تحریک کے نتیجے میں اقتدار پر قابض آمرانہ قوتوں کے مفادات پر بہت بڑی زد پڑے گی اور مستقبل کے لئے بھی ان قوتوں اور اداروں کو ان کے اصل کام اور کردار تک محدود کیا جا سکتا ہے اس لئے حکومت اور مقتدر قوتوں کی جانب سے سخت مزاحمت بھی متوقع ہے۔ اپوزیشن کو نہ صرف اس مزاحمت کے لئے تیار رہنے کی ضرورت ہے بلکہ صف اوّل کی قیادت کی گرفتاری کی صورت میں پلان بی اور پلان سی بھی تیار رکھنا چاہیے تاکہ قائدین کی گرفتاری کی صورت میں کارکنوں کا مورال بھی بلند رکھا جا سکے اور تحریک بھی بغیر کسی رکاوٹ کے آگے بڑھتی رہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ