عمار مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نواز شریف اس وقت تمام کشتیاں جلا چکے ہیں۔ غیر جمہوری قوتیں بھی اپنی ضد پر اڑی ہیں۔ دونوں طرف سے تلواریں میان سے باہر آ گئی ہیں۔ فریقین ایک دوسرے کے سامنے آ چکے ہیں۔ ادھر نواز شریف نے پہلی تقریر کی ادھر شہباز شریف کو گرفتار کر لیا گیا۔
دوسری تقریر کے بعد مریم نواز پر بھی گرفتاری کی تلوار لٹک رہی ہے۔ مریم نواز ٹوئٹر پر سرگرم ہو چکی ہیں۔ میڈیا ٹوٹل آؤٹ آف کنٹرول ہو چکا ہے۔ چینلوں میں عوام کی دلچسپی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اخبارات کی سرکولیشن کم ہوتی جا رہی ہے۔ ہو کچھ رہا ہے دکھایا کچھ جا رہا ہے۔ بات کیا ہو رہی ہے تبصرہ کیا کیا جا رہا ہے۔
نواز شریف نے فیصلہ سنایا کہ اب وہ دوبارہ عملی سیاست میں آگئے ہیں۔ ہر میٹنگ میں خطاب کا بھی فیصلہ ہوا۔ کارکنوں کو تیار رہنے کا حکم دیا جا چکا۔ جلسے جلوسوں کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ مولانا جلتی پر آگ چھڑک رہے ہیں۔
عبدالغفور حیدری وہ خبریں دے رہے ہیں کہ کوئی بھی اشاعتی یا نشریاتی ادارہ اس کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔ دوسری جانب سے بھی کوئی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ آمنے سامنے کھڑی ان قوتوں میں ٹکراؤ کا وقت آ چکا ہے۔
پی ڈی ایم تشکیل پا چکا۔ تمام اہم جماعتیں ایک پوزیشن لے چکیں۔ اب اعلان جنگ تو ہوچکا بس نقارہ جنگ بجنے کا انتظار ہے۔ اس وقت کسی سیاسی جماعت کے لیے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں۔ جو پیچھے ہٹا وہ پتھر کا ہو جائے گا۔ اپنی سیاست کے ساتھ خاک میں مل جائے گا۔
ن لیگ نے جتنا انتقام برداشت کرنا تھا کر لیا۔ اب وہ گرفتاریوں سے نہیں ڈرتے۔ ن لیگ کے عہدیداروں کو پتہ ہے کہ جو آج جیل جائے گا وہ کل ہیرو کہلائے گا۔ اب انہیں اس اندیشہ سود و زیاں سے نہیں ڈرایا جا سکتا۔ اب وہ نڈر ہو گئے ہیں۔ کارکنوں کا اعتراض تھا کہ قائدین بولتے نہیں۔ اب قائدین بول رہے اور کھل کر بول رہے ہیں۔
نواز شریف نے کٹھن کام کا بیڑا اٹھایا ہے۔ جو وہ کرنا چاہتے ہیں وہ اس ملک میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔ 70 سال سے ملک کو جو صورتِ حال درپیش ہے اس کو چیلنج کرنا کوئی سہل کام نہیں۔
نواز شریف کا کہنا ہے کہ ان کا مقابلہ عمران خان کو لانے والوں کے ساتھ ہے۔ فوٹو ٹوئٹر
پنجاب میں رہتے ہوئے یہ کام جان جوکھوں کا ہے۔ اس میں سیاست بھی جا سکتی ہے، پارٹی میں بھی رخنے پڑ سکتے ہیں اور جان کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ یہ سب جانتے بوجھتے احتجاج کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اوکھلی میں سر دیا گیا ہے۔
حکومت کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے نواز شریف کو زیادہ انتظار نہیں کروایا، دو سال میں ہی اپنی کارکردگی کا پردہ چاک کر دیا۔ نئے پاکستان کا خواب خاک کر دیا۔ اس گھمسان کے رن میں کیا ہوتا ہے اس بارے میں کہنا مشکل ہے۔ لیکن یہ بات حتمی ہے کہ آخر میں کسی ایک فریق کو پیچھے ہٹنا پڑے گا۔ کسی کو اپنی غلطی پر پشیمان ہونا پڑے گا۔
یہ کہنا تو مشکل ہے کہ شکست کون قبول کرے گا لیکن قیافے لگائے جا سکتے ہیں۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ہمیشہ ایک قدم پیچھے وہ ہٹتا ہے جس کو اپنے نقصان کا زیادہ اندیشہ ہوتا ہے۔ جس کے پاس گنوانے کے لیے مال متاع زیادہ ہوتا ہے۔ جس کو زادہ راہ کی فکر ہوتی ہے۔ جس کے اثاثہ جات داؤ پر لگے ہوتے ہیں۔
وہ شخص جس کے پاس کھونے کو کچھ بھی نہ ہو اس سے زیادہ خطرناک کوئی شخص نہیں ہو سکتا۔ اس سے زیادہ نڈر کوئی اور شخص نہیں ہو سکتا۔
نواز شریف کے پاس اب کھونے کو کچھ نہیں بچا۔ وزارت عظمیٰ سے وہ بے دخل کیے جا چکے۔ اہلیہ کا قید میں انتقال ہو چکا۔ بیٹی کے ساتھ قید و بند کی صعوبتیں وہ برداشت کر چکے۔
ایک فیصلے کے تحت وہ سیاسی پارٹی کی قیادت بھی نہیں کر سکتے۔ تمام قریبی ساتھی زندان کا مزا چکھ چکے۔ پورے خاندان کی تذلیل ہو چکی۔ دنیا بھر میں بدنام کیا جا چکا۔ اب آپ خود سوچیے ایسے شخص کو اب کس بات کا ڈر ہو سکتا ہے؟
دوسری طرف جو ہیں ان کے پاس کھونے کو بہت کچھ ہے۔ اقتدار داؤ پر لگا ہوا ہے۔ تمام تر پاور ان سے چھن سکتی ہے۔ تمام مخفی سرمایہ طشت از بام ہو سکتا ہے۔ اونچے اونچے برج گر سکتے ہیں۔ ذہنوں پر حکمرانی تاراج ہو سکتی ہے۔
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پیچھے ہٹنے میں پہل نواز مخالف قوتوں کو کرنا پڑے گی کیونکہ ان کے پاس نواز شریف کے مقابلے میں کھونے کو بہت کچھ ہے۔ ابھی اس جنگ کی ابتداء ہے۔ ابھی فریقین پہلی دفعہ ایک دوسری کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑے ہوئے ہیں۔ ابھی دونوں منتظر ہیں کہ پہلے آنکھ کون جھپکتا ہے۔ پہلے کس کو خوف سے جھر جھری آتی ہے۔ پہلے کون گردن ریت میں داب لیتا ہے۔
اس طویل جنگ کا ابھی آغاز ہے لیکن اس جنگ کا ذکر کرتے ہم ہمیشہ عمران خان کی حکومت کو بھول جاتے ہیں۔
سچ پوچھیں تو اس لڑائی میں سب سے غیر اہم کردار عمران خان ہے۔ نہ ان کو کوئی ہدف بنا رہا ہے نہ ان کا کوئی سہارا بن رہا ہے۔ اگر یہ جنگ نواز شریف کے بیانیے کی فتح پر منتج ہوتی ہے تو عمران خان کی حکومت کا جانا یقینی ہے یعنی پہلی قربانی عمران خان کی دی جائے گی۔ سب سے پہلے بَلی پر تحریک انصاف چڑھے گی۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ