نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شہباز شریف کی گرفتاری، تصویر کا دُوسرا رُخ ۔۔۔ حیدر جاوید سید

اس شور وغل اور حقائق کے برعکس پروپیگنڈے کی آگ پر مریم نواز اور دوسرے لیگی رہنماؤں کی دھواں دھار پریس کانفرنس نے تیل کا کام کیا۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دلچسپ خبروں شبروں پر آگے چل کر بات کرتے ہیں، ابھی میں اپنے قارئین سے معذرت خوا ہوں کہ اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کی گرفتاری کے حوالے سے یہ تحریر نویس بھی نون لیگ کے پروپیگنڈے کا شکار ہوا۔

شہباز شریف کی گرفتاری کا حقیقی قصہ یہ ہے کہ وہ منی لانڈرنگ کیس میں پچھلے چند ماہ سے لاہور ہائیکورٹ سے عبوری ضمانت پر تھے۔

گزشتہ روز (ان کی گرفتاری سے قبل) عبوری ضمانت کو کنفرم کرنے کے حوالے سے نیب اور ان کے وکلاء کے درمیان ہائیکورٹ میں دھواں دھار بحث ہوئی اور اس دوران میاں شہباز شریف کے وکلاء نے عبوری ضمانت کی درخواست واپس لینے کیلئے درخواست جمع کروا دی۔

عدالت عالیہ نے مختصر فیصلہ سنایا ضمانت ختم ہوگئی، نیب نے انہیں گرفتار کرلیا۔

اس گرفتاری کے شور اور نون لیگ کے کارکنوں کی جذباتی نعرے بازی کے ماحول میں مجھ سمیت کسی اخبار نویس نے مختصر فیصلے کے اجراء کا انتظار کئے بغیر اپنی خبروں، تجزیوں اور کالموں میں یہ تاثر دیا کہ وکلاء کی بحث کے بعد عدالت نے شہباز شریف کی ضمانت منسوخ کر دی۔

اس شور وغل اور حقائق کے برعکس پروپیگنڈے کی آگ پر مریم نواز اور دوسرے لیگی رہنماؤں کی دھواں دھار پریس کانفرنس نے تیل کا کام کیا۔

اس معاملے میں نیا موڑ بلکہ یوں کہیں کہ اصل کہانی یہ سامنے آئی کہ جناب شہباز شریف کے وکلاء نے عبوری ضمانت واپس لینے کیلئے تحریری طور پر عدالت کو آگاہ کر دیا تھا۔ عدالت نے درخواست ضمانت واپس لئے جانے پر عبوری ضمانت خارج کردی، یوں شہباز شریف اپنی مرضی سے نیب کی تحویل میں چلے گئے۔

24گھنٹے سے کچھ اوپر شہباز شریف اخبارات وچینلوں کی خبروں، تجزیوں میں نمایاں رہے اور مفت میں ہیرو بن گئے۔

اب آئیے اس طرف کہ انہوں نے اپنے وکلاء کو درخواست ضمانت واپس لینے کی ہدایت کیوں کی؟

اس آسان سے سوال کے دو جواب ہیں،

اولاً یہ کہ وہ اس امر سے کاملاً آگاہ تھے کہ منی لانڈرنگ کیس میں ان کا دفاع ریت کی دیوار پر کھڑے ہو کر کیا جارہا ہے۔

عبوری ضمانت سے قبل وہ اپنی گرفتاری اور بعدازاں ایک مقدمہ میں رہائی کے بعد نیب میں طلب کئے جانے پر منی لانڈرنگ اور خصوصاً بیرون ملک سے آئے پیسوں بارے کئے جانے والے سوالات کا جواب نہیں دے پائے تھے۔

ثانیاً یہ کہ جن ذرائع سے یہ رقم آئی ان ذرائع (افراد) کیساتھ ان کا کوئی کاروباری اشتراک تھا نہ ایسا رشتہ اور تعلق کہ لاکھوں ڈالر انہیں بھجواتے۔

شہباز شریف کا مؤقف تھا کہ رقم کی ترسیل کے معاملات چونکہ ان کے صاحبزادوں، بیٹی، بہو اور اہلیہ سے متعلق ہیں اس لئے ان سے پوچھا جائے۔

اس رقم کا ایک حصہ شہبازشریف کے اکاؤنٹس میں ٹرانسفر ہوا اور کچھ رقم نیب کی دستاویزات کے مطابق مشترکہ کاروبار و جائیدادوں پر صرف ہوئی، اس حوالے سے ان کے جواب میں سقم تھے۔

انہیں معلوم تھا کہ عدالتی بحث کے دوران ان کا مؤقف مسترد ہو جائے گا اس لئے انہوں نے وکلاء کو درخواست ضمانت واپس لینے کی ہدایت کردی۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس میں وہ مریم نواز کی لیگی وفد میں شمولیت پر آمادہ نہیں تھے پھر اچانک وہ راضی ہوگئے۔

اے پی سی میں سابق وزیراعظم نوازشریف کا خطاب اور پھر مریم نواز کی گفتگو دونوں ان کے سیاسی مفاہمت کے نظریہ سے متصادم تھے۔

اے پی سی نے حکومت مخالف تحریک چلانے کا فیصلہ اتفاق رائے سے کیا تھا۔ شہباز شریف احتجاجی تحریک کا ڈول ڈالنے کے حامی نہیں تھے

لیکن مریم نواز نے اس موقع پر اپوزیشن کیساتھ چلنے کا اعلان کر کے ”سماں” باندھ دیا۔

شہباز شریف نے اس صورتحال سے جان چھڑانے کیلئے وہ راستہ اختیار کیا جو اب سامنے ہے۔

انہوں نے گھر کے اختلافات کو میڈیا کا حصہ بنوانے کی بجائے خاموشی سے جیل جانے کا فیصلہ کیا اور چلے گئے۔

اپوزیشن لیڈر کی گرفتاری ایک بڑی خبر تھی، عدالت کا تحریری حکم دیکھے بغیر ہم سب (اخبارنویسوں) نے حقائق کے برعکس نون لیگ کے پروپیگنڈے میں جان ڈالی۔

میری دانست میں ہم سے پیشہ وارانہ امور کی انجام دہی میں کوتاہی ہوئی اس لئے کم ازکم میں تو اپنے قارئین سے معذرت خواہ ہوں۔

اندازے یا پس پردہ معاملات کو سمجھنے میں انسان سے غلطی ہو ہی جاتی ہے۔ ہمیں تسلیم کرنا چاہئے کہ ہم سب وقتی جذبات اور نون لیگ کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوئے۔ اس اعتراف سے ہم یہ سیکھ سکتے ہیں کہ جذبات اور خبر کی دنیا الگ الگ ہیں۔

شہباز شریف اپوزیشن کی سیاسی تحریک سے باہر رہ کر لاتعلق نہیں رہ سکتے تھے اس لئے انہوں نے رضاکارانہ گرفتاری کا راستہ اختیار کیا۔

یہ پہلے سیاستدان ہرگز نہیں ماضی میں بڑے بڑے نامور اور تقدس مآب سیاستدانوں نے اور دوسرے درجہ کے لیڈروں نے بھی یہ راستہ چُنا تھا کسی دن تفصیل کیساتھ رضاکارانہ طور پر گرفتاری دینے والوں کے بارے میں ان سطور میں عرض کروں گا۔

ابھی تو آپ یہ پڑھ لیجئے کہ

طلال چوہدری کے معاملے پر نون لیگ کی قائم کی گئی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ جاری کردی ہے۔

کمیٹی کا مؤقف ہے کہ یہ معاملہ طلال چوہدری کا ذاتی ہے اس سے نون لیگ کا تنظیمی طور پر کوئی تعلق نہیں۔

یہاں سوال یہ ہے کہ کیا اس ذاتی معاملے پر جو نون لیگ کی بدنامی کا باعث بنا، پارٹی طلال چودہری کیخلاف کوئی کارروائی کا ارادہ رکھتی ہے؟

بظاہر تو ایسا ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔

دوسری خبر یہ ہے کہ اپوزیشن کے اتحاد پی ڈی ایم نے 11اکتوبر پر کوئٹہ میں اپنے پہلے جلسہ عام کے انعقاد کا اعلان کردیا ہے۔

گزشتہ روز پی ڈی ایم کی رہبر کمیٹی کے اجلاس میں بڑی گرماگرم تقاریر ہوئیں، شہباز شریف کی گرفتاری کو انتقامی سیاست کا حصہ قرار دیا گیا۔ اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاریوں کا معاملہ عالمی سطح پر اُٹھانے کا فیصلہ بھی ہوا،

فقیر راحموں پوچھ رہے ہیں کہ کیا عالمی سطح پر معاملہ اُٹھاتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کی مصدقہ نقل بھی بھجوائی جائے گی؟

ادھر وزیراعظم نے 4وزیروں اور 2مشیروں پر مشتمل کمیٹی قائم کردی ہے جو اپوزیشن کی تحریک اور سیاسی امور پر نظر رکھے گی۔ مناسب ہوتا وزیراعظم مہنگائی پر قابو پانے کیلئے بھی ایک بااختیار کمیٹی قائم کر دیتے۔

حرف آخر یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے فیصل واؤڈا کو تحریری جواب جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔

About The Author