نذیر ڈھوکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلیکٹڈ وزیراعظم عمران خان نے ایک نجی ٹی وی چینل پر تاریخ کو مسخ کرنے کی واردات کی، انہوں نے کہا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کو بھی فوج نے سیاستدان بنایا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس عہد میں شہید قائد عوام کی سیاسی قابلیت کی ہر طرف گونج تھی، ملک کا کوئی دستور بھی نہیں تھا، ایوب خان کی کابینہ میں بھٹو شہید نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا، مگر ایوب خان جب تاشقند میں 1965 کی جیتی ہوئی جنگ ہارے تو بھٹو صاحب ایوب خان کے اقتدار کو پاؤں کی ٹھوکر مار کر اقتدار سے باہر آگئے، ان کی سیاسی جدوجہد کے پیش نظر ایوب خان کو اقتدار چھوڑنا پڑا تھا۔ جہاں تک ایوب خان کو ڈیڈی کہنے والی بات کا تعلق ہے تو بھٹو صاحب کی سیاسی بصیرت اور خوبصورتی کا چرچا ان کے گھر میں بھی ہونا لگا اور ڈیڈی آئی وانٹ ذلفی کی آوازیں گونجنے لگی تھیں۔
اب آتے ہیں تاریخ کے پس منظر کی طرف جب جنرل ایوب 1965 میں جیتی ہوئی جنگ تاشقند میں مذاکرات کی میز پر ہارے تو شہید بھٹو نے نہ صرف ایوب خان سے راہیں الگ کرلیں، ان کا یہ فرمان تاریخ کا باب بن چکا ہے کہ حالت جنگ میں بھی ملک کی قیادت جنرلوں کے ہاتھوں میں نہیں دی جاسکتی، شہید قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی فلاسفی اس وقت سچی ثابت ہوئی جب 1971 کی جنگ میں ایک طرف مشرقی فوجی کمان نے بھارتی جنرلوں کے سامنے انتہائی بے غیرتی اور بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہتھیار ڈال کر قوم کو شرمندہ کردیا، دوسری طرف حال یہ تھا کہ مغربی پاکستان میں بھارتی فوجیں بغیر کسی مزاحمت کے پنجاب کے شھر قصور اور سندھ میں اسلام کوٹ تک پہنچ گئی تھیں، مشرقی پاکستان سے 90 ھزار فوجی افسر اور جوان قیدی بن کر بھارت کے جیلوں میں پہنچ گئے۔
یہ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کی کرشماتی شخصیت تھی کہ بھارت پاکستان کی ہزاروں مربع میل زمین پر رضاکارانہ طور قبضہ چھوڑنے کیلیئے تیار ہوا، شہید قائد عوام کی سحر انگیز شخصیت کی وجہ سے 90 ہزار فوجی افسر اور جوان باعزت طور رہائی پاکر وطن واپس آئے۔ بھٹو شہید جب اقتدار سنبھالتے کے بعد دنیا کے طوفانی دورے پر نکلے تو ہر ملک کے سربراہ نے ان کا استقبال کرنے میں اپنے لیئے اعزاز سمجھا، شہید قائد عوام بھٹو نے شکست خوردہ قوم کو نیا حوصلہ دیکر راکھ کی ڈھیر بنے ہوئے ملک کی از سر نو تعمیر کی، بھٹو صاحب پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے بھی بانی تھے، ان کا مقصد صرف بم بنانا نہیں تھا وہ ملک کو جدید طبی اور ذرعی طور طاقتور ملک بنانے میں شب و روز کام کرتے رہے ، انہوں نے ملک کو آئین کا نور بھی بخشا اور عوام کو فخر سے سر اٹھاکر جینا بھی سکھایا، سوچنے کیلیئے شعور بھی دیا اور بولنے کیلیئے زبان بھی، انہوں نے فوج کے ہاتھوں مرنا پسند کیا اور تاریخ میں زندہ جاوید بن گئے، یہ تاریخ کا انتقام نہیں تو اور کیا ہے کہ 1973 کے آئین کو مسخ کرنے والوں کو کوڑے دان کی نظر کردیا ہے، جبکہ آئین کا نور قوم کو روشن مسقبل کا راستہ دکھا رہا ہے۔
مگر اقتدار پرست جنرل ایوب خان ملک کے تین دریا بیچنے کے بعد تاریخ کے کوڑا دان پر پڑے ہیں، جنرل ضیا نے بغیر کوئی گولی چلائے سیاچن بھارت کے قبضے میں دے دیا اور جنرل پرویز مشرف نے کارگل کے محاذ پر قوم کو شرمندہ کردیا، رہی بات بے نامی وزیراعظم عمران خان کی تو مقبوضہ کشمیر پر بھارت کے قبضے کے راز کھلنا ابھی باقی ہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ