ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کی سیاست بھی عجیب چوں چوں کا مربہ ہے۔ بلکہ پاکستان کی سیاست اس مکس اچار کی مانند ہے جس کو ہربار استعمال کرنے سے نیا ذائقہ ملتا ہے۔ سیاست کے نام پر عجیب وغریب ہتھکنڈے اور پست ترین درجے کے رویوں کو سیاست کا نام دیا گیا۔ پاکستان کی 72 سالہ سیاسی تاریخ کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ابتدا ہی میں سیاست اور سیاست دانوں سے متعلق قائد کا یہ کہنا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں چہرہ بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہے۔ سیاست کے نام پر کیا کچھ نہیں کیا گیا اور کیا کچھ نہیں ہورہا۔ یہ کسی المیے سے کم نہیں کہ حالیہ سیاست ہی اس معیار کی ہے کہ ماضی کی سیاست پر چنداں شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
کس سے گلہ کریں کس سے منصفی چاہیں۔ ملک بننے کے ابتدائی دس سالوں میں جو مروجہ سیاست تھی وہ ناصرف شرمناک تھی بلکہ کسی حوالے سے بھی قابل ذکر نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی نوجوان نسل پاکستان کے ابتدائی دور کی سیاست سے ناموں کی حد تک آشنا ضرور ہے مگر مکمل حقائق سے بالکل نابلد ہے۔ ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر پے در پے وزیراعظم تبدیل ہوتے رہے یہ حالات اس قدر مضحکہ خیز تھے کہ ہمسایہ ملک کے وزیراعظم کو بیان دینا پڑا کہ اتنی جلدی میں دھوتی نہیں بدلتا جتنی جلدی پاکستان میں وزیراعظم بدل جاتا ہے۔
ناعاقبت اندیش سیاست دانوں نے ملکی سیاسی نظام کا ستیا ناس کرکے رکھ دیا۔ لہذا ضرورت پیش آئی کہ ملک کو محفوظ ہاتھوں میں دے دیا جائے۔ نتیجہ یہ کہ ملک پر مارشل لا نافذ ہوگیا۔ کرپٹ سیاست دانوں کے خلاف احتساب کا عمل شروع ہوگیا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے بے سروپا قسم کا صدارتی نظام لاگو کر دیا اور بجائے ملک سدھارنے کے خود سیاست شروع کردی۔ صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کے صدارتی امیدوار بننے پر پہلی بار ملکی سیاست میں دشنام طرازی کا عہد زریں شروع ہوا۔ قائد کی بوڑھی بہن کی کردار کشی کی گئی اور جیت کی خاطر تمام اخلاقیات کو پس پشت ڈال دیا گیا۔
پاکستانی سیاست کی ابتدائی دو دہائیوں میں نا صرف اخلاقی قدریں پامال ہوئیں بلکہ ایسی سیاسی روایات قائم ہوئیں جن کو کبھی عزت اور احترام حاصل نہیں ہوسکا۔ مگر ہماری سیاسی اشرافیہ نے سیکھا کچھ بھی نہیں، طاقت اور اقتدار کے حصول کا وحشیانہ کھیل سیاست کے نام پر جاری رہا۔ بالآخر قوم فیلڈ مارشل جیسے مسیحا سے تنگ آ گئی اور تیسری دہائی کے آغاز پر ملک کی باگ ڈور ایسے شخص کے ہاتھوں میں آ گئی جس سے ملنے کے لیے جانے والی میڈم ترانہ جب واپس روانہ ہوئیں تو ایک گارڈ نے یہ کہہ کر سلیوٹ مارا کہ اب آپ ہمارے لیے قومی ترانہ ہیں۔ تیسری دہائی میں عوام کے حقوق کی بات کرنے والے سیاست دان کو پہلے جیل پھر تختہ دار پر پہنچا دیا گیا۔
چوتھی دہائی مرد مومن مرد حق کے نعرہ مستانہ سے شروع ہوئی۔ اسلام اور کفر کے درمیان جنگ لڑی گئی۔ لاکھوں مہاجرین کو مغربی سرحد سے کسی ضابطے کے بنا ملک میں آنے دیا گیا نتیجہ کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر کی تباہ کن صورت میں سامنے آیا۔ نیا تجربہ ہوا غیر جماعتی انتخابات کرائے گئے۔ من پسند افراد کی کامیابی سے طویل المدتی حکمرانی کا منصوبہ بنا مگر تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ نا چاہتے ہوئے بھی بوجھل دل کے ساتھ اقتدار عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کے سپرد کیا گیا۔ پہلی بار ایک نیا سیاسی کلچر سامنے آیا۔ وفاق اور صوبوں کے مابین کشیدگی پیدا ہوئی یا کی گئی اور یہ بڑھتی ہی چلی گئی۔
پانچویں دہائی میں جمہوری قوتوں کے درمیان رسہ کشی جاری رہی۔ کوئی حکومت اپنی مدت پوری نا کرسکی۔ پانچویں دہائی بنیادی طور پر بدترین سیاسی عدم استحکام کی دہائی رہی۔ حکومتوں کو بادشاہ سلامت مختلف الزامات کے تحت ملک و قوم کے وسیع تر قومی مفاد میں برطرف کرتے رہے۔ یہ بھی تو ایک مذاق ہی تھا کہ قوم نمائندے منتخب کرتی وہ حکومت بناتے اور ایک شخص پوری قوم کی رائے پر بھاری پڑتا۔ پانچویں دہائی کے آخر میں دوتہائی اکژیت سے منتخب ہونے والی حکومت کا انجام بھی ماضی سے مختلف نا تھا۔
چھٹی دہائی میں ایک کمانڈو نے ملک سنبھالا۔ ملک کو ٹھیک کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ نیا بلدیاتی نظام رائج کیا گیا۔ احتساب کے نام پر ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کو خوب رگڑا لگایا گیا۔ ایک نئی جماعت تخلیق کی گئی اور اقتدار اس کے حوالے کر دیا گیا۔ شکر خورے کو شکر مل ہی جاتی ہے۔ یہی کچھ ہوا اور جان کی امان کے بدلے سیاست دانوں نے بادشاہ سلامت کو وردی میں دس بار منتخب کرانے کے عزم کا اظہا ر کرکے اب تک کی بدترین سیاسی روایت قائم کی۔ اس موقع پر پہلی بار میثاق جمہوریت سائن کرکے سیاسی قیادت نے میچور ہونے کا ثبوت دیا۔
ساتویں دہائی کے آخری لمحات میں ملک کی بہت بڑی سیاسی شخصیت کو پنڈی میں قتل کر دیا گیا۔ تا ہم اقتدار اسی کی ہی جماعت کو ملا۔ ساتویں دہائی میں ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے ملک پر حکومت کی مگر وزرائے اعظم ان کے بھی اپنی مدت پوری نہیں کرسکے۔
آٹھویں دہائی کے شروع میں نیا تجربہ کیا گیا اور ماضی کے پاکستان سے چھٹکارا حاصل کرنے کی خاطر نئے پاکستان کی بنیاد رکھی گئی۔ ماضی کے پسندیدہ سیاست دان راندہ درگاہ ہوئے۔ اپوزیشن نے الزام لگایا کہ یہ الیکشن نہیں سلیکشن ہوئی ہے۔ جو ہوا جیسے ہوا جس نے بھی کیا اس سب کے قطع نظر المیہ یہ ہے کہ یہ تجربہ بھی ناکام ہوگیا۔
گزشتہ سات دہائیوں کی مروجہ سیاست کو اگر غور سے دیکھا جائے تو عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب محسوس ہوتی ہے کہ ان کے حصے میں کیا آیا؟ غربت، مہنگائی، بے روزگاری، بدامنی، تعلیم اور صحت کی سہولیات کا فقدان ان 22 کروڑ بدنصیبوں کا ہی مقدر کیوں ہے۔ سیاست کے نام پر سیاسی اشرافیہ اور با اثر حلقوں نے عوام سے جو کھلواڑ کیا ہے اس کا مداوا کیسے ہوگا۔ المیہ یہ ہے کہ ہم کچھ بھی نہیں سیکھے اور کچھ نہیں تو حالیہ سیاسی حالات پر غور کر لیں اور دیکھیں کہ عوام کی بات کہاں پر ہو رہی ہے۔ نان ایشوز کو ایشوز بنا کر اصل مسائل سے نظریں چرائی جارہی ہیں۔ کیا آنکھیں بند کرلینے سے بلی دیکھ نہیں پائے گی۔ ۔ ۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر