مژدم خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1- ضعیف جوانوں کے سر پر ہاتھ رکھتے ہیں
جبکہ جوان ایسا نہیں کرتے،
سر پر ہاتھ رکھنا اگر کوئی اخلاقی تصور یا فریضہ ہوتا تو سب کے لئے ہوتا
اس کا مخصوص ہونا توانائی کی منتقلی سے وابستہ ہے
تصور یہ ہے کہ وہ جوان میں توانائی منتقل کرتے ہیں، مثلاََ "جون کو مژدم خان کا آشیرواد حاصل ہے اسی لئے جوش و خروش سے جنگ لڑ رہا ہے”
آشیرواد اپنی اساس میں مادی نہیں ہے بلکہ مابعد الطبیعی یا توانائی ہے، پھر اِس کے ساتھ دینا کہاں سے جُڑ گیا؟ کہاں سے دیا جا رہا ہے آشیر واد؟ کیا یہ کوئی پھل ہے جسے درخت سے اچک کر کسی کو دے دیا جائے ؟
سر پر ہاتھ رکھنے کا واحد مطلب توانائی منتقل کرنا ہوتا ہے، وہ توانائی کیا ہے ؟
اس کے مقاصد کیا ہیں ؟ وہ کہاں سے آتی ہے ؟ وہ فرد سے منسلک ہوتی ہے کوئی کسی کو دوسرے کا آشیرواد نہیں دے سکتا ( ماسی ما ہوندی ھ ھُن ماسی بالاں دے سر تے ہتھ رکھے ) فلاں نے فلاں کے سر پر ہاتھ رکھا ( یعنی فلاں نے فلاں کو وہ توانائی دی جس سے وہ اپنی جیونی آگے بڑھا سکتا ہے ) یعنی وہ توانائی جو بچوں میں انتقال کی اہلیت رکھتی ہے وہ محض بزرگانِ قبیل کے پاس ہی ہوتی ہے
اسی لئے بڑے چھوٹوں کے سر پر ہاتھ رکھتے ہیں اور چھوٹے بڑوں کے سر پر ہاتھ نہیں رکھتے، سب سے مقدس و اہم قسم بھی چھوٹوں کی ہی ہوتی ہے
کیونکہ بڑے چھوٹوں کے سر پر ہاتھ رکھ چُکے ہوتے ہیں اور اب اگر وہ دیانت داری نہیں برتیں گے تو اسکا اثر ان پر بھی ہو گا ( they are tied within the energy )
توانائی بزرگ کو جتن و سنیاس سے نہیں ملتی بلکہ عمر کے زیان سے ملتی ہے یعنی توانائی کا ملنا اٹل ہے مگر اسکا معاوضہ فرد کے سال ہیں جو اسکی زندگی سے گرتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ مکمل توانائی بن جاتا ہے
2-جوان بزرگوں کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر ملتے ہیں، یہ بھی اگر کوئی اخلاقی فریضہ ہوتا تو آفاقی طور پر سب کے لئے یکساں ہوتا (کانٹین پہلو کو بروئے کار لائیں تو اخلاقیت کے اخلاقیت ہونے کے پیچھے ضمیر میں پیدا ہونے والی وہ دیرینہ تمنا ہے جو فرد کو بار بار باور کرواتی ہے کہ احسن عمل وہ ہے جو آفاقی قانون بن جانے کی اہلیت رکھتا ہو ، اور احسن عمل اس لئے احسن ہے کہ وہ منطقی ہے بُرے اعمال نہ کرنے کی آفاقی وجہ یہ ہے کہ وہ غیر منطقی ہوتے ہیں )
جوان بزرگوں کے گھٹنے اس لئے چھوتے ہیں کہ یہ junctions ہیں انسانی جسم میں جہاں سے توانائی کو منتقل کیا جا سکتا ہے (اسکی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بزرگوں کے جوڑ نہ بیٹھیں ) سو جوانوں کی توانائی بھی جوان ہوتی ہے اس لئے جوان بزرگان کے گھٹنے پر ہاتھ رکھتے ہیں تاکہ انہیں وہ توانائی دے سکیں جس کی انہیں اشد ضرورت ہے
3-جوان خواتین کا برزگ خواتین کو ملنے کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ وہ انکے ہاتھوں کے جوڑوں پر ہاتھ رکھتی ہیں اور اس طرح کہ جیسے جوڑوں کو پرکھ رہی ہوں کہ یہ کمزور تو نہیں ہو ہو گئے ؟ اور ہاتھوں کو مس کرتے ہوئے (مرچوں) یعنی کلائیوں اور انگلیوں کے جوڑ تک لاتی ہیں اسکے بعد اپنے ایک ہاتھ کو دل پر رکھتی ہیں جب کہ بزرگ خواتین انکے سر پر ہاتھ رکھتی ہیں
ایسا لگتا ہے کہ نوجوان خواتین یہ معلوم کرنا چاہ رہی ہوتی ہیں کہ جیسے ان بزرگ خواتین کے جوڑوں میں کوئی مسئلہ ہے جسے انہیں درست کرنا آتا ہے یہ کوئی علامتی اخلاقیت نہیں ہو سکتی ایسا کوئی کیوں کرے گا؟ اور ایسی کون سی طاقت انکے پاس ہے کہ وہ ان بزرگ خواتین کا یہ مسئلہ ٹھیک کر سکیں؟
سوائے اسکے کہ توانائی کا لاشعوری تصور انکے شعور کا حصہ ہے
جاری ہے۔۔۔۔۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر