دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ملزم کیوں نہ ہنسیں۔۔۔عفت حسن رضوی

نظام شرپسندوں کی دل جوئی کا اہتمام بھی خوب کرتا ہے۔ شرپسندوں کے شر پہ قابو رہے، نظام چلتا رہے اور نام بھی بچا رہے۔

عفت حسن رضوی

 

ہم حال مست لوگ ہیں، خوش رہتے ہیں خوش رکھتے ہیں پھر چاہے وہ ہمارا قاتل ہی کیوں نہ ہو۔ ہماری قومی خوش مزاجی کا اک نیا رخ اسلام آباد ہائی کورٹ نے دکھایا ہے۔

نواز شریف ضمانت کیس میں جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا ہے کہ ’لندن میں بیٹھ کر ملزم بھی ہنستا ہوگا کہ کیسے پورے نظام کو شکست دے کر چلا گیا۔‘

واقعی یہ تو ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ ایک طرف پولیس، فوج، احتساب کے ادارے، عدالتیں سب کیسے رات دن مصروف ہیں۔ یہ قانون کی عمل داری کا نعرہ لگاتے نہیں تھکتے، یہ آئین کی پاسداری جتاتے نہیں تھکتے لیکن دوسری جانب ملزم ہیں، وہ ملزم جو اس نظام سے خوش ہیں، وہ ملزم جنہیں نظام کے ہر چھید کا علم ہے، یہ ملزم ہی کیا سزا یافتہ اشتہاری مجرم بھی ہیں جو سسٹم کو ٹھینگا دکھا کر ہنستے ہیں۔

شوگر انڈسٹری کے بےتاج اور جلاوطن بادشاہ جہانگیر ترین لندن میں چہل قدمی کرتے ہوئے کبھی غصے سے دانت بھینچتے ہوں گے کبھی زیر لب مسکرا دیتے ہوں گے کہ جس چینی پر ان کی باز پرس ہونا تھی وہ سسٹم کا منہ اسی گھی چینی سے بھر کہ آج ملکہ کے ملک میں بیٹھے ہیں۔

نظام پہ ہنستا تو اس وقت احسان اللہ احسان بھی ہوگا۔ رب جانے اس کی ہنسی کسی پہاڑ کے دامن میں گونجتی ہوگی یا پھر کسی بڑے شہر کے وسیع بنگلے میں۔ احسان اللہ احسان کے پیٹ میں ضرور بل پڑے ہوں گے جب اس نے سانحہ آرمی پبلک سکول کمیشن کی رپورٹ پڑھی ہوگی۔ وہ سوچتا تو ہوگا کیسا زبردست نظام ہے۔ جھوٹے مقدمے میں پھنسے دو بھائیوں کو پھانسی پہ چڑھا دیتا ہے لیکن اپنے جرم خود قبول کرنے والے بچ نکلتے ہیں۔

تحریک انصاف کے وزیر فیصل واوڈا کو ہمارے نظام کی اس لاجواب سروس پہ اتنا اعتبار ہے کہ یہ تو میدان چھوڑنے کے بھی قائل نہیں۔ جب جب فیصل واوڈا سے کوئی ان کے ذرائع آمدن، دوہری شہریت یا پھر ٹیکس ریٹرن پر سوال پوچھتا ہے تو بےدانت نظام کے پوپلے منہ سے قانون کی باتیں سن کر ہنسی بےاختیار نکل ہی جاتی ہوگی۔

لگ بھگ اسی نوعیت کے الزامات کا سامنا ریٹائرڈ فوجی عاصم باجوہ کو بھی ہے۔ نظام پہ ان کا اعتماد بھی غیرمتزلزل نظر آتا ہے۔

کرنسی سمگلنگ کیس کی اشتہاری ملزمہ ماڈل ایان علی کو اس سسٹم نے پہلے کورٹ کچہریوں کے چکر لگوائے، ایک تفتیشی جان سے گیا، وکلا اور پولیس والے کن انکھیوں سے مسکرا کر حال دل بیان کرتے رہے اس بیچاری ماڈل کا حسن گہناتا رہا یہاں تک نظام کو ترس آیا اور ملزمہ کو ضمانت پر جانے دیا۔

یہ ملک و قوم کے سپوتوں سے نظام کی بےلوث محبت کا نتیجہ ہے کہ آج ایان علی ایک پرسکون و باوقار اشتہاری زندگی جی رہی ہیں۔ وہ بیرون ملک اپنی ماڈلنگ پر توجہ دے رہی ہے، وہ دکھیا کب تک نظام کی چکی تلے پستی جس نے اسے سزا بھی نہیں دینی تھی اور بری بھی نہیں کرنا تھا۔

اس نظام سے مستفید ہونے والے خوش نصیبوں کی اس فہرست میں کراچی پولیس کے سابق ایس ایس پی راؤ انوار کو کیسے بھول جائیں۔ درجنوں ماوارائے عدالت قتل کا ملزم راؤ انوار بھی جب جب یہ بیان سنتا ہوگا کہ پولیس کو غیر سیاسی بنایا جا رہا ہے تو قہقہہ بلند ہوتا ہوگا۔

لاہور موٹر وے گینگ ریپ کا ملزم عابد ملہی بھی تو ان دنوں نظام سے بڑا خوش ہوگا نا۔ بار بار پکڑے جانے اور تھانے کی چکر لگانے کی ریاضتوں کے بعد اسے نظام کی مجبوریوں کا نسخہ کیمیا ہاتھ لگا ہے کہ کیسے جرم کر کے صاف بچ نکلنا ہے۔ اس نے سیکھ لیا ہے کہ جرم کی نرسری تو خود نظام انصاف ہے، جو ریلیف ملے گا یہیں سے ملے گا۔ دعا ہے کہ اس بار نظام ملزم کی توقعات پر پورا نہ اترے۔

نظام شرپسندوں کی دل جوئی کا اہتمام بھی خوب کرتا ہے۔ شرپسندوں کے شر پہ قابو رہے، نظام چلتا رہے اور نام بھی بچا رہے۔ اس کا اہتمام سسٹم کے اندر رہ کر کرنا ایک فن ہے۔ اس فن کے ماہر فنکار شرپسندوں کو قومی اثاثہ قرار دے کر اپنی طرف سے ماسٹر سٹروک کھیلتے ہیں۔ سسٹم چلانے والے ان فنکاروں پر تمام کالعدم مذہبی جماعتیں مل کہ ٹھٹا ضرور لگاتی ہوں گی۔

ہنستے تو زرداری بھی رہتے ہیں جو پچھلی تین دہائیوں سے قوم کے سب سے بڑے کرپٹ انسان مشہور کیے گئے لیکن کوئی ایک بھی مقدمہ ایسا نہیں جس میں یہ کرپشن ثابت ہوسکی ہو۔ سسٹم جناب سسٹم۔ یہ سسٹم ہی تو تھا جس نے انہیں مسٹر ٹین پرسنٹ سے مسٹر ہنڈرڈ پرسنٹ بنایا۔

پرویز مشرف کی وطن واپسی اور سنگین غداری مقدمے کی سزا پر جب کوئی ن لیگی بیان داغتا ہے تو ایک نحیف سی ہنسی پرویز مشرف کے علیل چہرے پر بھی پھیل جاتی ہے۔ وہ تو سسٹم کی رگ رگ سے واقف ہیں جانتے ہیں اس سسٹم میں ن لیگی کیا اس کی اوقات کیا۔ ہنسیں نہیں تو کیا کریں۔

ایسی ہی ہنسی ان دنوں سابق وزیراعظم نواز شریف کے زیر لب ہے۔ انہیں باہر کس نے بھیجا واپسی جلدی کیوں ہے؟ عدالت اور حکومت اس سوال کے جواب کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈال رہی ہیں۔ ان کی کرنیوں کا بوجھ ڈھونے کو ایک بار پھر ’نظام ‘ کا کندھا حاضر ہے۔

یہ نظام بنانے والے، اسے چلانے والے اور اس نظام کے رکھوالے سب ہی چور دروازے جانتے ہیں۔ یہ نظام کے درزی اسے اپنی ضرورت کے مطابق ادھیڑتے سیتے رہتے ہیں، نظام کی بھول بھلیوں کے سارے راستے انہیں یاد ہیں۔ یہ نظام سے آنکھ مچولی کیوں نہ کھیلیں، کیوں نہ کُھل کہ ہنسیں۔

About The Author