حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوتین دن قبل عرض کر چکا ان سطور میں کہ گرمی اورگھڑمس میں اضافہ ہو رہا ہے، لیجئے مزید اضافے کی خبر یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور نون لیگ کے صدر میاں شہباز شریف کو نیب نے منی لانڈرنگ کیس میں عبوری ضمانت منسوخ ہونے پر لاہور ہائیکورٹ کے احاطہ سے گرفتار کر لیا ہے،
ان کی گرفتاری کے وقت عدالت کے احاطہ میں موجود لیگی کارکنوں نے جذباتی نعرے بازی کی۔
ایک دونعرے ایسے بھی تھے جن پر اس لئے حیرانی ہوئی کہ یہ لیگی کارکن لگا رہے تھے۔
خیر ان نعروں کو الگ سے اُٹھا رکھئے۔
سوموار کا دن گرمی، گھڑمس اور گرفتاری کیساتھ ”کلام” میں مقابلے کا دن تھا۔
مریم نواز نے دھواں دھار پریس کانفرنس میں چند ایسے سوالات اُٹھائے کہ وزرائے کرام جواباً وہی پرانا کارڈ کھیلتے دکھائی دئیے جو ہر دور کی حکومت اپنی حزب اختلاف کیخلاف کھیلتی ہے
یعنی ”حساس اداروں پر حملہ” ملک دشمنوں کے ایجنڈے کی تکمیل، جمہوریت دشمنی وغیرہ وغیرہ”
اس وغیرہ وغیرہ سے یاد آیا نیب نے شہباز شریف کے خاندان پر 7ارب روپے کے منی لانڈرنگ کا الزام لگایا ہے، بیرون ملک سے تشریف لائے مشیر احتساب وداخلہ سے مرزا شہزاد اکبر کہتے ہیں منی لانڈرنگ کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں،
شہباز شریف تفتیش کے ابتدائی مرحلہ میں نیب کو مطمئن نہیں کر سکے۔
ایک معروف ماہر امراض حیوانات کا دعویٰ ہے کہ شریف خاندان نے ملک کو لوٹنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیا اور اب وہ لوٹی ہوئی دولت کے سہارے اداروں کیخلاف زہریلا پروپیگنڈہ کروا رہا ہے۔
مرزا صاحب اور ماہرامراض حیوانات کے دعوے کتنے سچے ہیں یہ تو وقت بتائے گا البتہ شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ”جو اڑھائی سال میں کرپشن ثابت نہیں کرسکے وہ اڑھائی سو سال میں بھی دھیلے کی کرپشن ثابت نہیں کر سکیں گے، حکومت مجھے جیل بھیج کر میری زبان بند رکھنا جاہتی ہے”۔
ہمارے ہمزاد فقیر راحموں کا کہنا ہے کہ ”اگر شہباز شریف جیسے ہومیوپیتھک سیاستدان کی گرفتاری سے حکومت کو کوئی فائدہ ہوسکتا ہے تو پھر دعاؤں کے بے اثر جانے کا خطرہ بڑھ رہا ہے”۔
شہباز شریف کی ”بے وقت” گرفتاری پر مزید بات ہوسکتی ہے لیکن ایک دو موضوعات اور جوکہ اہم ہیں ان پر بات کر لیتے ہیں۔
گلگت بلتستان اسمبلی کے انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہوتے ہی وہاں سیاسی ہجرتوں کا موسم عروج پر ہے، تحریک انصاف نے پیپلز پارٹی اور نون لیگ چھوڑ کر آنے والے تقریباً تمام افراد کو انتخابی عمل میں اپنا اُمیدوار بنا لیا ہے۔ 24میں سے 4نشستیں اس نے (اب تک کی اطلاعات کے مطابق) دو اتحادی جماعتوں کو دی ہیں اور 20اُمیدواروں کو ٹکٹ جاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔
پاکستان کے سارے مسائل، کرپشن اور اقرباء پروری کی ذمہ دار پیپلزپارٹی اور نون لیگ جیسی جماعتوں سے تحریک انصاف میں شامل ہونے والے اُمیدواری کیلئے پرانے انصافیوں کے مقابلہ میں کامیاب رہے۔
موسم اور حالات بتاتے ہیں ان سیاسی مسافروں میں سے اکثر جیت بھی جائیں گے اور پھر اپنی سابقہ جماعتوں کی میگا کرپشن سے عوام کو آگاہ کر کے ثواب دارین حاصل
کر یں گے،
جیسے ہمارے یہاں فواد چوہدری، خسرو بختیار وغیرہ وغیرہ کرتے رہتے ہیں۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ انتخابی عمل مکمل ہوتے ہی گلگت بلتستان کی باقاعدہ صوبائی حیثیت کا اعلان کر دیا جائے گا، اس طور اگلے مرحلے میں اسے سینیٹ میں نمائندگی ملے گی اور قومی اسمبلی کیلئے بھی انتخابی حلقوں کا اعلان ہوگا
مگر کیا آئینی ترمیم کے بغیر صدارتی آرڈیننس سے یہ انتظام پائیدار ہوگا؟
واقفان حال کا دعویٰ ہے کہ آئینی ترمیم ہو جائے گی لیکن فقیر راحموں کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اس حوالے سے ایک گزشتہ ملاقات (جو سنسنی خیز اور متنازعہ ہوچکی میں) اس مؤقف کا اظہار کر چکی ہے کہ
”گلگت بلتستان کو باقاعدہ صوبہ کا درجہ دینا ہے تو آزاد جموں وکشمیر کی حکومت اور اپوزیشن کو اعتماد میں لیا جائے تاکہ کل کو نیا تنازع جنم نہ لے”۔
فقیر راحموں کی یہ اطلاع درست ہے تو صاحبان اقتدار کو ٹھنڈے دل سے اس مشورے پر عمل کرنا چاہئے،
ایک تجویز یہ بھی ہے کہ گلگلت بلتستان اسمبلی کے انتخابات کے عمل میں ریفرنڈم کا ووٹ بھی لے لیا جائے یعنی ہر رائے دہندہ کو حلقہ انتخاب کیلئے بیلٹ پیپر جاری کرنے کیساتھ ایک بیلٹ پیپر اضافی دیا جائے جس میں صوبائی اکائی کے آئینی درجہ کیلئے سوال ہو۔
کہا یہ جارہا ہے کہ یہ تجویز اس لئے قبولیت کا درجہ نہیں پاسکتی کہ خطرہ یہ ہے کہ کچھ سیاسی قیدیوں کی وجہ سے ریفرنڈم کے اس سوال کے مسترد ہونے کا خطرہ ہے۔
بہرطور یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ ایسا کوئی قدم نہ اُٹھایا جائے جس سے تنازعہ کشمیر پر کشمیریوں اور پاکستان کے مؤقف کو نقصان پہنچے۔
چلتے چلے یاد آیا ہمارے ایک دوست ہوا کرتے تھے
(تھے اس لئے کہ جب سے بیرون ملک گئے ہیں کوئی رابطہ نہیں)
ملک صفدر، ان سے جب کسی موضوع پر بات ہوتی یا وہ خود اظہار خیال پر آمادہ ہوتے تو بات انکار سے شروع کرتے تھے،
بچپن کے دوستوں کی منڈلی کا دعویٰ تھا کہ ملک صفدر کبھی خیر کی خبر نہیں دے سکتے۔
مثلاً اگر یہ طے پایا کہ آج نہاری کھاتے ہیں تو انہوں نے اس کے نقصانات گنوائے۔ ملکی سیاست سے ان کی مایوسی کا عالم یہ تھا کہ وہ کہا کرتے تھے انتخابی جھگڑوں میں پڑنے کی ضرورت ہی نہیں، سارے عہدے تاحیات ہونے چاہئیں۔
ایک بار تو انہوں نے اپنی تجاویز کے حق میں مضمون لکھ مارا۔ بدقسمتی سے یہ مضمون شائع بھی ہوگیا،
اسی شام دوست اکٹھے ہوئے اور ان کے مضمون پر بات شروع ہوئی تو خود ملک صاحب نے اپنے لکھے ہوئے مضمون کیخلاف پون گھنٹہ تک دلائل دئیے۔
ملک جی ہمیشہ یہ آرزو کرتے تھے کہ اگر موقع ملے تو وہ سعودی عرب میں رہنا پسند کریں گے مگر خیر سے جب موقع ملا بیگم وبچوں سمیت امریکہ جا بسے۔
”پاکستان کا کچھ نہیں ہوسکتا” یہ ان کا تکیہ کلام تھا،
خیر وہ اب امریکی شہری ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک جی بھی ماہرامراض حیوانات ہیں۔
کبھی کبھی ہمیں لگتا ہے کہ آج کل جو ماہرامراض حیوانات ہمارے پاس ہے وہ امریکہ نے بدلے کے طور پر بھیجا ہے کہ ایک وقت میں دو ”ماہرین” کا بوجھ امریکہ جیسی سپرطاقت بھی نہیں اُٹھا سکتی۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ