نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بلوچ قومی تشخص خطرے میں۔۔۔عزیز سنگھور

لیکن یہ سارے حکومتی دعوے مقامی افراد کے لئے نہیں ہیں۔ بلکہ ریئل اسٹیٹ بزنس کے نقطہ نظرسے ان منصوبوں پر عملدرآمد کیا جارہا ہے۔

عزیز سنگھور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلوچستان کے عوام کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لئے آئینی راستہ تلاش کیاجارہاہے۔ اس سلسلے میں ایک آئینی مسودہ تیار کیا جارہا ہے۔ جس کے تحت ضلع گوادر کی ساحلی پٹی پر ایک نیا شہر بسایا جائےگا۔ جہاں جدیدہاؤسنگ اسکیمز کے ذریعے غیر مقامی افراد کو بسایا جائےگا۔ بلوچستان کی موجودہ آبادی سے دوگنی آبادی کو بسانے کا منصوبہ تیار کیا جارہا ہے۔

اس آئینی مسودے کو ایک چینی فرم اور نیشنل کوسٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے اشتراک سے تیار کیا جارہا ہے۔ آئینی مسودے کوگوادر ماسٹر پلان کا نام دیاگیا۔ یہ فیصلہ اسلام آباد میں قومی ترقیاتی کونسل کے اجلاس میں کیاگیا۔ جس کی صدارت وزیراعظم عمران خان نے کی۔ نیشنل کوسٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی ایک وفاقی ادارہ ہے۔ یہ سارے انتظامی معاملات وفاقی حکومت براہ راست دیکھ رہی ہے۔ اس طرح مکران کوسٹل ایریا کو وفاق کنٹرول کرےگا۔ بلوچستان حکومت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔

دراصل یہ ماسٹر پلان ترقی دینے کے نام پر بلوچستان کے عوام کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا ایک آئینی و قانونی ہتھیار ہے۔ یہ اقدام قانون سازی کے ذریعے بلوچستان کی سرزمین پر ڈیموگرافک تبدیلی لانے کی کوشش اور بلوچ قومی تشخص کو مٹانے کا ایک منصوبہ ہے۔

اس قانون کے تحت بلوچ اپنی سرزمین پر اوغور بن جائیں گے۔ یہ وہی چینی منصوبہ ہے جس پرچین کے صوبے سنکیانگ میں آباد اوغور مسلمانوں کے خلاف عمل کیاگیا۔ جس کی وجہ سے سنکیانگ میں کئی برسوں سے علیحدگی پسند تحریک جاری ہے۔ جس کے چلانے والوں کا کہنا ہے کہ چین نے وقت کے ساتھ اوغور قوم کی مذہبی، تجارتی اور ثقافتی آزادی سلب کر لی ہے۔

چین مسلسل اوغور علیحدگی پسندوں پر مسلمان جنگجو تنظیموں کے ساتھ روابط کا الزام لگاتا رہا ہے۔ چین کے مطابق اوغور علیحدگی پسند افغانستان میں موجود مسلمان جنگجوؤں سے نظریاتی اور مسلح ٹریننگ بھی حاصل کرتے رہے ہیں۔ لیکن ان الزامات کی حمایت میں چین نے کبھی کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا۔ چین نے کئی دفعہ اوغور آبادی پر کریک ڈاؤن کیا ۔ ان کوگرفتار کرکے ٹارچر سیلوں میں رکھاجاتاہے۔ جبکہ کئی دہشتگردی کے الزام سے بچنے کے لیے جلاوطنی پر مجبور ہوگئے۔ چین پر یہ بھی الزام ہے کہ اس علاقے میں بڑے پیمانے پر باہر سے لاکرغیر مقامی افراد کو سنکیانگ میں بسایا جارہا ہے تاکہ اوغور آبادی کو اقلیت میں بدل دیا جائے۔

اوغور کمیونٹی کی زبان ترکی سے مماثلت رکھتی ہے لیکن لسانی اور ثقافتی اعتبار سے وہ خود کو وسط ایشیائی ریاستوں کے زیادہ قریب سمجھتے ہیں۔ صدیوں سے سنکیانگ کی معیشت کا دارومدار زراعت اور تجارت پر ہے۔جس کا اظہار سلک روٹ پر واقع کاشغر جیسے مصروف شہروں سے ہوتا ہے۔ بیسویں صدی کے اوائل میں کچھ عرصے کے لیے اوغور آبادی نے اپنی آزادی کا اعلان کر دیا تھا۔لیکن انیس سو اننچاس میں یہ علاقہ باقاعدہ طور پر حکومت چین کے مکمل کنٹرول میں لایاگیا۔ یہی منصوبہ آج بلوچستان کے ساحلی پٹی پر نافذ کیا جارہا ہے۔

اس کالے قانون کےتحت دنیا کو یہ باور کرانے کی بھی کوشش کی جارہی ہے کہ حکومت مکران کی کوسٹل پٹی پر ایک جدید شہر بنارہی ہے۔ بین الاقوامی معیار کے مطابق ایئر پورٹ، ہوٹلز، ریسٹورنٹس، کشادہ سڑکیں، پانی اور بجلی کے دیگر منصوبے پر کام جاری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گوادر مستقبل میں ایک بین الاقوامی شہر کی حیثیت اختیار کر جائے گااور نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کا اقتصادی لحاظ سے ایک اہم شہر بن جائے گا اور یہاں کی بندرگاہ پاکستان کے علاوہ چین، افغانستان، وسط ایشیا کے ممالک تاجکستان، قازقستان، آذربائیجان، ازبکستان، ترکمانستان اور دیگر روسی ریاستوں کے استعمال میں آئے گی جس سے پاکستان کو بیش بہا محصول ملے گا۔

لیکن یہ سارے حکومتی دعوے مقامی افراد کے لئے نہیں ہیں۔ بلکہ ریئل اسٹیٹ بزنس کے نقطہ نظرسے ان منصوبوں پر عملدرآمد کیا جارہا ہے۔ جس سے اشرافیہ کو کھربوں ڈالرز آمدنی ہوگی۔ حکومتی ادارے بھی اس اشرافیہ کے برابر کے حصے دار ہیں۔

ریئل اسٹیٹ بزنس سے تعلق رکھنے والے افراد گوادر پورٹ کی تعمیر کے دور میں آئے تھے۔ ریئل اسٹیٹ بزنس سے تعلق رکھے والوں کا اسلام آباد، لاہور، کراچی، فیصل آباد، پنڈی، دبئی سمیت دیگر ممالک سے تعلق ہیں۔

مشرف دور حکومت میں چین کی مدد سے گوادر پورٹ کو تعمیرشروع ہوئی۔ یہ پورٹ ایک گرم پانی اورگہرے سمندر کی بندرگاہ ہے۔ یہ پورٹ بحیرہ بلوچ کے سرے پر خلیج فارس کے دھانے پر واقع ہے۔ گوادر بندرگاہ کلیدی مقام آبنائے ہرمز کے قریب واقع ہے جو خلیجی ریاستوں کے تیل کی برآمدات کا واحد بحری راستہ ہے۔

گوادر کے لئے بننے والے نئے ماسٹر پلان پورے ضلع گوادر پر نافذ عمل ہوگا۔ جس میں گوادر شہر، سر، جیوانی، پشکان، گنز، پسنی، کلمت، بسول اور اورماڑہ شامل ہیں۔ یہ ایک خوبصورت اور طویل ساحلی پٹی ہے۔ اس سے قبل ایک پرانا ماسٹر پلان تھا۔ جو صرف تحصیل گوادر تک تھا۔ جس کو ختم کردیاگیا۔ اب یہ نیا پلان ضلع بھر میں نافذ عمل ہوگا۔

ضلع بھر سےلاکھوں ایکڑ اراضی حاصل کی جارہی ہے۔ یہ اراضی مقامی افراد کی ملکیت ہیں۔ ان کے پاس مالکانہ حقوق بھی موجود ہیں۔ مقامی افراد کی زمینوں کی ملکیت ان کی مرضی اور علم کے بغیر تبدیل کی جارہی ہے اور انہیں ان کی ملکیت سے محروم کیا جارہا ہے۔ مقامی افراد الزام لگاتے ہیں کہ متعلقہ افسران نے زمینوں کا جعلی ریکارڈ تیار کر کے لاکھوں روپے کمائے۔گوادر میں بنائی جانے والی 70 سے زائد ہاؤسنگ اسکیمیں جعلی نکلی ہیں۔

گوادر میں ڈیپ سی پورٹ مکمل ہونے اور سی پیک منصوبے کے باعث ان دنوں وہاں نئی نئی ہاؤسنگ اسکیمیں بنائی جارہی ہیں اور مختلف ناموں سے بنائی جانے والی ہاؤسنگ اسکیموں کے بورڈ شہر کے مختلف علاقوں میں نظر آتے ہیں۔

کہا یہ جارہا ہے کہ اس پلان میں بلوچستان حکومت کو اعتماد میں نہیں لیاگیا۔جب بھی صوبائی حکومت کی ضرورت پڑیگی۔ تو وزیراعلیٰ بلوچستان اور وزرا کا اجلاس طلب کیا جائیگا۔ اجلاس میں اسٹیمپ پیپرز تیار کئے جائیں گے،اور اس پر ان کے صرف دستخط لئے جائیں گے۔ اس دوران فوٹو سیشن ہوگا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ بلوچستان میں ایک ربڑ اسٹیمپ حکومت بنائی گئی ہے۔

ماسٹر پلان میں گوادر کے موجودہ شہر جہاں ماہی گیر بستے ہیں۔ اس کی ترقی کے لئے گوادر ماسٹر پلان میں کوئی منصوبہ شامل نہیں ہوگا۔ اس وقت گوادر شہر کھنڈرات کا منظر پیش کررہا ہے۔ سیوریج کا نظام درہم برہم ہے۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ پینے کے صاف پانی میسر نہیں ہے۔ مقامی افراد تعلیم اور صحت جیسی اہم سہولیات سے محروم ہیں۔

گوادر میں دیمی زر نامی ایک قدرتی گودی ہے۔ جس کو ماہی گیر صدیوں سے بندرگاہ کے طورپر استعمال کررہے ہیں۔ یہ بلوچستان کی واحد قدرتی گودی (بندرگاہ) ہے، جہاں سال کے بارہ مہینے ماہی گیری کر سکتے ہیں۔ جبکہ پسنی، جیوانی اور دیگر علاقوں میں جون سے لیکر اگست تک ماہی گیری نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ ان کے پاس اس طرح کی قدرتی گودی نہیں ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اس قدرتی گودی کے ساحل پر ایکسپریس وے تعمیر کیا جارہا ہے۔ جس سے ان کو ماہی گیری کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوگا۔ کیونکہ ساحل سے سمندر تک آنے جانے کا راستہ رک جائےگا۔ اس منصوبے کے خلاف ماہی گیروں نے سخت احتجاج کیا۔ مظاہرے اور ہڑتالیں کی گئیں۔ لیکن ان کی ایک نہیں سنی گئی۔

ایک بین الاقوامی مسلمہ اصول ہے کہ کسی بھی خطے میں میگا پروجیکٹ کا عمل شروع ہوگا۔ اس پروجیکٹ میں مقامی افراد کے فلاح و بہبود سمیت ان کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے لئے قانون سازی کی جاتی ہے۔ تاکہ مقامی افراد زیادہ سے زیادہ میگاپروجیکٹ کے فوائد سے مستفید ہوسکیں۔ بدقسمتی سے گوادر میں مقامی افراد کے لئے ایسا کوئی پلان موجود نہیں ہے۔

حکومتی پالیسیوں میں بلوچ نوجوانوں کو اہل بنانے کابھی کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ کیونکہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ نوجوانوں کو پورٹ اینڈ شپینگ صنعت میں تجارت سے متعلق ایجوکیشن دینے چاہیے۔ ایجوکیشن کے بعد ان کو سود سے پاک بینک قرضے دینے چاہئے، تاکہ وہ پورٹ اینڈ شپینگ کی صنعت میں تجارت کے لئے قابل ہوسکیں۔ مثال کے طورپر وہ چائنا، تھائی لینڈ سمیت دیگر ممالک سے فشنگ نیٹ ( جال) کا کاروبار کرنے کے قابل ہوسکیں۔ کیونکہ بلوچستان لوکل مارکیٹ میں فشنگ نیٹ کی ڈیمانڈ ہے۔ علاوہ ازیں کشتی اور لانچوں کے انجن اور دیگر آلات بھی درآمد کرسکتے ہیں۔

بلوچستان کے مختلف اضلاع میں 11اقسام کی معدنیات کے ذخائر موجود ہیں۔جن میں آئرن، کاپر، کرومائیٹ، کوئلہ، ماربل اور دیگر معدنیات شامل ہیں۔ ٹریننگ اور قرضے حاصل کرنے کے بعد بلوچ نوجوان ان معدنیات کو پورٹ کے ذریعے دیگر ممالک برآمد کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔

ورنہ یہ پورٹ مقامی افراد کے لئے بے سود ہے۔ اور نوجوانوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ بلوچ نوجوانوں کے مستقبل کو روشن کرنے کے لئے ریاست اپنا کردار ادا کرسکتی ہے۔ جس سے مقامی آبادی میں خوشحالی آسکتی ہے۔ اور ساتھ ساتھ لوگوں کا حکومتی اداروں پر اعتماد بحال ہوسکتا ہے۔

 

لیکن حکومت جان بوجھ کر اس طرح کا پیکج دینے سے قاصر نظر آتی ہے۔ انہیں مقامی افراد کی سرزمین اور معدنیات عزیز ہیں اور مقامی افراد کے مفادات اور مستقبل عزیز نہیں۔ اس طرح کی پالیسیوں سے مقامی لوگوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ گوادر کی ترقی ان کے لئے نہیں ہے۔ بلکہ باہر سے آنے والوں کے لئے یہ منصوبے بنائے جارہے ہیں۔

حکومت قانون سازی کے ذریعے مقامی آبادی کو اقلیت میں جانے سے بچا سکتی ہے۔ قانون سازی کرکے مقامی افراد سے ان کی اراضی خریدنے کا سلسلہ روکا جائے۔ ان کی حق ملکیت کو برقرار رکھتے ہوئے ان کی اراضی کو کاروبار یا تجارت کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یعنی مقامی افراد کو کاروبار میں شراکت دار بنایا جائے۔ گوادر میں آنے والے سرمایہ کاروں اور مقامی افراد کے درمیان جوائنٹ وینچر پالیسی کو متعارف کروایا جائے۔ جس طرح دنیا کے بعض ممالک میں ہوتا ہے۔ غیر مقامی افراد کو قومی شناختی کارڈز بنانے پر مکمل پابندی عائد کرنی چاہئے۔ اور ووٹنگ کا حق بھی نہیں دینا چاہئے۔ تاکہ مقامی افراد اقلیت میں تبدیل نہ ہوسکیں۔

ایسی کوئی پالیسی نہیں بنائی جارہی ہے۔ جومقامی افراد کے مفاد میں ہوں۔ جو بھی منصوبہ بن رہا ہے وہ سب باہر سے آنے والے امیروں اور ارب پتی سرمایہ داروں کے مفادات کو تحفظ دینے کے لئے بن رہا ہے۔ ان کے لئے انٹرنیشنل ایئرپورٹ، پورٹ، ہاؤسنگ اسکمیں، کشادہ سڑکیں، اسپورٹس کمپلیکس اور بڑے بڑے اسپتال وغیرہ بنائے جارہے ہیں۔

پسنی میں واقع، شادی کور ڈیم سے پانی کی فراہمی کے منصوبے پر کام جاری ہے۔ اس منصوبے پر وفاقی حکومت سے کروڑوں روپے جاری ہوچکے ہیں۔ جبکہ پسنی شہر میں پانی کی قلت پہلے سے موجود ہے۔ ان کو پانی چوری کرکے غیر مقامی افراد کو دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ علاوہ ازیں ضلع کیچ کے علاقے دشت میں واقع، میرانی ڈیم سے پانی کی فراہمی کا منصوبہ بھی زیر غور ہے۔ ایک ضلع سے دوسرے ضلع تک پائپ لائن بچھانے سے کروڑوں روپے کی لاگت آئےگی۔ جبکہ میرانی ڈیم کے پانی پر سب سے پہلے حق ضلع کیچ کے لوگوں کا ہے۔ نہ کہ گوادر میں آنے والے غیر مقامی افراد کا ہے۔ مستقبل میں ضلع کیچ میں شدید پانی کی قلت پیدا ہوگی۔ اس قلت کو دور کرنے کے لئے آج سے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

مشرف دور حکومت میں جب گوادر پورٹ بن رہا تھا تو بلوچستان کے سیاسی حلقوں کا مطالبہ تھا کہ گوادر پورٹ کو وفاق سے صوبے کے حوالے کیا جائے۔ اور گوادر پورٹ میں مقامی افراد کی بھرتی کی جائے۔ گوادر کے لوگوں کے لئے پانی، تعلیم اور صحت جیسی سہولیات کی فراہی ، وغیرہ وغیرہ جیسے مطالبات تھے۔ اب بات ان مطالبات سے آگےنکل چکی ہے۔ اب بلوچ کا مسئلہ قومی تشخص کا ہے۔ ان کی قومی شناخت خطرے میں پڑ چکی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بسول، کلمت، پسنی، سر، گوادر، جیوانی، گنز اور پشکان تک طویل ساحلی پٹی پر دو سے تین کروڑ غیر مقامی افراد کو آباد کیا جارہا ہے۔ جبکہ اورمارڑہ شہر پہلے ہی سے ممنوعہ علاقہ بن چکا ہے۔

اس وقت پورے بلوچستان کی مقامی آبادی ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس طرح مقامی آبادی اقلیت میں تبدیل ہوجائےگی۔ اور ان کے قومی تشخص کا خاتمہ ہوگا۔

ان رہائشی اسکیموں کے ذریعے مستقبل میں بلوچستان کے وزیراعلیٰ، گورنر سمیت دیگر کابینہ غیر مقامی افراد پرمشتمل ہوگی۔ ریاستی پالیسیاں بلوچ قوم کے لئے ایک موت ثابت ہوگی۔

ایک اور خفیہ پلان بھی زیر غور ہے۔ جس میں گوادر کو بلوچستان کا درالحکومت بنانے کا منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کے تحت وزیراعلیٰ ہاؤس، گورنر ہاؤس، اسمبلی بلڈنگ، کابینہ کے لئے سیکریٹریٹ بنانے پر غور کیا جارہا ہے۔ اس پلان پر عملدرآمد کے بعد آپ کو بلوچستان کا وزیراعلیٰ اور گورنر تو ملے گا مگر وہ بلوچی گھیر والی شلوار کے بجائے دھوتی پہنے ہوئے ملے گا۔ اس طرح بلوچستان میں حمل ماہ گنج کا قصہ سنانے کے بجائے ہیر رانجھا کا قصہ سنایا جائےگا۔

About The Author