عفت حسن رضوی
شاعر عجیب ہوتے ہیں۔ ان کے پاس شعر کہنے اور لفظوں سے کھیلنے کا ایک ہی تو فن ہوتا ہے۔ یہ انہی لفظوں سے خواب دکھاتے ہیں، کبھی نجومی بن کر مستقبل کا حال سناتے ہیں، کبھی دوست بن کر اپنے خیالات کا کندھا دیتے ہیں اور کبھی تلخ شاعری سے طعنے تشنے بھی دے جاتے ہیں۔
آج کل مرحوم راحت اندوری کے چاہنے والوں کی اک ہوا چل پڑی ہے۔ ایسے ہی افتخار عارف بھی ان دنوں سوشل میڈیا پر بہت سنے دیکھے اور سیاسی حوالوں میں آ رہے ہیں۔ ان کے بارے میں پروفیسر فتح ملک کہتے ہیں کہ ’افتخار عارف کے ہاں سرفروشی کے بلند و بانگ مگر کھوکھلے دعووں کی بجائے جسم و جاں کے لیے مفاہمت پسندی پر ندامت کا جاں سوز احساس ملتا ہے۔‘ یہ تھوڑا مشکل ہوگیا؟ آئیں مثال سے سمجھیں، جیسے کہ
قفس میں آب و دانے کی فراوانی بہت ہے
اسیروں کو خیال ِبال و پر شاید نہ آئے
بازاری (یا شاید ہماری پارلیمانی) زبان میں یہ شعر نظریہ مصلحت و منافقت کے پیروکاروں کو کہہ رہا ہے کہ کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔ لیکن درباری زبان میں اسے سیاسی معاملہ فہم افراد سے جمہوری اختلاف کہا جائے گا۔ ہماری اپوزیشن ان دنوں ایسی ہی عجب اک صورت حال سے گزر رہی ہے۔
ہمیں چھٹی کے روز سہہ پہر میں ن لیگ کے لیڈر نواز شریف نے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ ریاست کے اندر ریاست نہیں، ریاست کے اوپر ایک ریاست ہے۔ ہم سمجھ گئے، ہم نے کہنے والے کی ہمت کو داد دی، ہمیں ریاست کے اوپر والی ریاست سے کچھ کچھ بےچینی سی ہونے لگی، اس سے پہلے کے ہم اپنے جنوں کو خرد پہ حاوی کرتے اور حد سے گزر جاتے ایک خبر آئی اور سارے بیانیے کو سرخ حاشیوں سے نشان زد کر دیا۔
خبر آئی کہ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت پر بات چیت کے لیے اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کو بلایا گیا۔ یہ ملنے چلے گئے۔ خبر تھی کہ یہ ملاقات ایک عسکری ادارے کے دیوان خاص میں ہوئی، جہاں کھانے کی پرشکوہ میز پر میں شکوہ جواب شکوہ ہوا۔ یوں ملاقات کی سن گن میاں صاحب کے تاریخ ساز خطاب کو نگل گئی۔
ایسے موقعوں کے لیے افتخار عارف صاحب کہتے ہیں:
خجل ہوئی ہیں قامتیں قیامتوں کے زعم میں
مذاق بن کے رہ گئی ہیں قد دراز کرکے بھی
وہ اہل انتظار جنہیں ایک تقریر نے پاکستان کے جمہوری مستقبل کے سارے جواب دے ڈالے تھے، پھر سے کئی سوالوں کے متضاد جوابات میں الجھ گئے۔ یہ الجھے لوگ یہاں وہاں ڈھونڈ رہے ہیں کہ وہ جو ریاست کے اوپر مسلط ریاست کو بس للکارنے ہی والے تھے وہ کیا ہوئے؟
اس ملاقات میں ن لیگی رہنما خواجہ آصف کی اس فون کال کا بھی چرچا ہوا جو بقول خواجہ آصف کے الیکشن کی رات بلکہ نیم شب کی تھی۔ اس کال میں خواجہ صاحب نے آرمی چیف سے دھاندلی کی شکایت کی تھی۔ ایک اور ن لیگی رہنما احسن اقبال بتاتے ہیں ملاقات میں عسکری قیادت کے سامنے نیب کا شکوہ بھی کیا۔
مریم نواز کہتی ہیں سیاست دانوں کو ایسی ملاقاتوں میں نہیں جانا چاہیے۔ لیکن احسن اقبال ان سے ذرا مختلف سوچتے ہیں وہ کہتے ہیں عسکری قیادت سے ملاقات میں کوئی حرج نہیں، بدگمانی ختم کرنا ان کا فرض ہے۔
ایک ہی جماعت کے رہنماؤں کے متضاد بیانات سے پھیلے ابہام کو تو رکھیں ایک طرف چلیں مان لیتے ہیں دعوت ملی آپ چلے گئے۔ آپ کو ویلکم کیا گیا، آپ سیر حاصل مل بھی لیے۔ آپ نے شکوے کیے انہوں نے سن بھی لیے۔ سیاست موضوع تھا کچھ انہوں نے اپنی سنائی کچھ آپ نے ان کی سنی۔ اس میں کچھ بھی نیا نہیں تھا۔
عسکری طاقتوں سے ملاقاتوں کے یہ سلسلے تو ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی اساس کا ناقابل تردید حصہ ہیں۔ آپ پہلے ریاست کے اندر ریاست سے مصلحتوں کے رشتے بناتے رہے، اب ریاست کے اوپر جو ریاست ہے وہ آپ کی سہیلی۔ اس میں کچھ بھی تو نیا نہیں۔
ہاں اس بار جو کچھ نیا ہے تو وہ شعور ہے جو ابھی چار دن پہلے ہی میاں نواز شریف نے قوم کو دیا ہے۔ قوم ابھی ان اقوال زریں کے سحر میں گرفتار ہے اس لیے پوچھنے کی جرات کر رہی ہے کہ ڈیئر میاں صاحب آپ کی جماعت کے رہنماؤں کا اسی بالا دست ریاستی طاقت سے چھپ چھپ کے ملنا کون سے انقلاب کی ذیل میں آتا ہے؟
میاں نواز شریف عوام کو بتا رہے تھے کہ فوج کو سیاست میں دخل نہیں دینا چاہیے۔ ان کی یہ بات پاکستانیوں نے پلو سے باندھ لی ہے اسی لیے اک سوال ذہن میں کلبلا رہا ہے کہ آیا عسکری قیادت کے پاس جا کر نیب کے شکایتیں کرنا جمہوری انقلاب کی ابتدا ہے؟
میاں صاحب نے عوام کو یہ عقل دی کہ عمران خان کی حکومت عوام نہیں اسٹیبلشمنٹ، سلیکٹرز لائے ہیں۔ اسی عقلی دلیل کو بنیاد بنا کر عوام پوچھنا چاہتے ہیں گلگت بلتستان میں سکیورٹی، انتظامی اور آئینی امور پر عسکری قیادت کے ساتھ بیٹھک لگانےسے کیا آپ کی جماعت انہی سلیکٹرز کے ہاتھ مضبوط نہیں کر رہی؟ کیا یہ غور فکر کی نشست گلگت بلتستان کی سیاسی قیادت سے نہیں ہونی چاہیے تھی؟
آل پارٹیز کانفرنس میں کشتیاں جلانے والی تقریر اب کانفرنس کے بعد درپیش صورت حال کے باعث جی جلانے والی تقریر بنتی جا رہی ہے۔ عوام کو جمہوری شعور دے کر طاقتوروں سے ساز باز کرنے والی یہ انقلابی ادا بھی خوب ٹھہری۔ جاتے جاتے افتخار عارف صاحب کو سنتے جائیں:
کچھ اس طرح کے بھی چراغ شہر ِمصلحت میں تھے
بجھے پڑے ہیں خود ہوا سے ساز باز کر کے بھی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ