وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسرافیل تو ذرا پرے ہمارے انتظار میں اپنی گھڑی دیکھ ہی رہا ہے۔
بقول کسے ’’ یہ دھرتی ذہین لوگوں کا مزید بوجھ برداشت نہیں کر سکتی ‘‘۔
جو نسل اپنے ہی گھر ( کرہِ ارض ) کی تباہی کے لیے دل جمعی سے دن رات محنت کر رہی ہو اسے ذہین نسل کہنے والوں کی کند ذہنی پر چار حرف۔
انسان کو ذہین بتانے والوں کے پاس واحد دلیل یہ ہے کہ جانور محض جبلت کے سہارے زندہ رہنے کے سبب ارتقا کی جبلی منزل سے آگے جانے سے اس لیے قاصر ہیں کیونکہ ان کے پاس انسان کے برعکس دماغ نہیں۔ جب کہ انسان نے اس دماغ سے کام لے کر پچھلے چار لاکھ سال میں جبلت سے چھلانگ مار کر دیگر جانوروں کو لاکھوں ذہنی میل پیچھے چھوڑ دیا ہے اور فطری مشکلات پر بہت حد تک قابو پا کر فطرت کو خاصی حد تک تابع کر لیا ہے۔
یہ وہ خیالِ خام ہے جس نے انسان کو ترقی کے مسلسل دھوکے میں قید کر کے اپنے ہاتھوں اپنی تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے اور اب اس کی ذہنی کیفیت بقول جون ایلیا کچھ یوں ہے کہ
میں بھی عجیب شخص ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
انسان کس قدر عقل مند ہے ؟ اس کا اندازہ لگانے کے لیے فلکیاتی فزکس میں عمر کھپانے کی بھی ضرورت نہیں۔بس ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر ( ڈبلیو ڈبلیو ایف ) اور زولوجیکل سوسائٹی لندن کی ایک سو پچیس ماہرین کی مدد سے مرتب اسی مہینے کی تازہ مشترکہ رپورٹ کی سرسری ورق گردانی کر لیجیے آپ کو لگ پتہ جائے گا کہ کس طرح پرلے درجے کی سفاکانہ بے وقوفی کو دراصل انسان عقل کی معراج سمجھ رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق انیس سو ستر سے دو ہزار بیس کے پچاس برس دورانئے میں کرہِ ارض کے وسائل کے اندھا دھند استعمال اور جنگلات کی کٹائی کے نتیجے میں اڑسٹھ فیصد جنگلی حیاتیات ختم ہو چکی ہیں۔ ’’انسانی عقلمندیوں‘‘ نے اس عرصے میں پچھتر فیصد زمین اور چالیس فیصد سمندر اس قدر آلودہ کر دیا ہے کہ یہ تخمینہ بھی مشکل ہے کہ اس بربادی کے سبب ہمیں اگلی نصف صدی میں کیا کیا ماحولیاتی ، خوراکی و روزگاری مسائل اور نت نئی بیماریاں جھیلنا پڑیں گی۔
زوال کی تیز رفتاری کا اندازہ یوں لگائیے کہ انیس سو ستر سے دو ہزار سولہ تک کے عرصے میں ساٹھ فیصد جنگلی حیات معدومی کے مرحلے تک پہنچی اور دو ہزار سولہ سے اب تک محض چار برس کے عرصے میں مزید دس فیصد حیات معدومی کے غار تک آ گئی۔یعنی محض آخری چار برس میں تباہی کی رفتار و مقدار دس فیصد اور بڑھ گئی۔مگر اس میں گذشتہ برس کی آسٹریلیا کے جنگلات میں لگنے والی آگ کا سانحہ بھی شامل ہے جس نے لگ بھگ تین ارب جانور راکھ کر دیے۔
یعنی پچھلے پچاس برس میں انسانی کرتوتوں کے سبب ہونے والی حیاتیاتی تباہی پچھلے چار لاکھ برس میں ہونے والے مجموعی حیاتیاتی نقصان سے بھی زیادہ ہے۔ گویا وقت کے نقشے پر تباہی کی یہ مدت پلک جھپکنے سے بھی کم عرصے پر مشتمل ہے۔یعنی اسرافیل کے صور پھونکنے سے پہلے ہی انسان یہ صور چھین کر پھونک مار چکا ہے۔
اب بات کرتے ہیں زمین کے اوپر اور اندر کے وسائل کے ریپ کی۔انیس سو ستر تک انسان جتنے بھی زمینی وسائل اپنے تصرف میں لا رہا تھا ان سے پیدا ہونے والے ماحولیاتی نقصان کی بھرپائی کسی حد تک فطرت کے بس میں تھی۔مگر سرمایہ دارانہ نظام کے بھوکے پیٹ کی کوکھ سے جنم لینے والی صارف گیری (کنزیومر ازم ) نے انسان اور زمین کو کہیں کا نہ چھوڑا۔
انیس سو ستر سے اب تک کنزیومر ازم کے کدال نے جس بے دردی کے ساتھ ارضی وسائل کوکھدیڑا ہے۔اس رفتار کے آگے فطرت کے ازالائی نظام نے بھی دونوں ہاتھ اٹھا دیے ہیں۔آسان الفاظ میں کرہ ارض کے زخموں کو مندمل کرنے کی گنجائش لگنے والے زخموں کی رفتار کے مقابلے میں آدھی رہ گئی ہے۔
جنگلات انسان اور دیگر حیات کے درمیان ایک حفاظتی باڑھ کا کام کرتے ہیں۔مگر جنگلات کی پچھلی پانچ دہائیوں میں جس تیزی سے کٹائی ہو رہی ہے اس کے سبب جانوروں کی بیماریاں (زونوٹک امراض) انسانوں کو منتقل ہونے کی راہ میں کھڑی واحد موثر رکاوٹ بھی ڈھ گئی ہے۔ آپ دیکھیں کہ چار دہائی قبل ہم میں سے کتنوں نے ایچ آئی وی، ایبولا، سوائن فلو ، برڈ فلو ، سارس اور پھر کورونا کا نام سنا تھا۔
بقول شخصے جہنم کا صدر دروازہ ہم نے اپنے ہاتھ سے کھول دیا ہے اور جیسے جیسے بلاؤں کو گیٹ کھلنے کی خبر ہوتی جا رہی ہے ویسے ویسے وہ ہم عقلمندوں کی خبر لینے کے لیے ایسی ایسی جگہوں سے نمودار ہورہی ہیں کہ ہم میں سے بیشتر تو ان کی نوعیت سمجھنے کی حیرانی میں ہی مارے جائیں گے۔
اگرچہ کئی جگہ جنگلات و سمندری حیاتیات کی بحالی کے تجربات بھی ہو رہے ہیں مگر تباہی کے مقابلے میں بحالی کی کوششوں کا تناسب آٹے میں نمک سے بھی کم ہے۔تباہی آنافاناً پیدا ہو سکتی ہے مگر بحالی کے لیے جتنا وقت اور صبر درکار ہے شائد ہم اب اس منزل سے آگے نکل گئے ہیں۔
اگر تو ہم یہ سوچ کر بیٹھے رہے کہ اشتہاری کدال کے ذریعے انسانی ذہن کو مصنوعی ضروریات کا اسیر بنانے والا سرمایہ دارانہ نظام ہی چونکہ اس ارضی عذاب کا ذمے دار ہے لہٰذا وہی ازالہ کرے تو کرے۔تو سمجھ لیں کہ ایسا نہیں ہونے والا۔ازالے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اقبالِ جرم کیا جائے اور کوئی لالچی نظام اقبالِ جرم کر لے ؟ اس سے کہیں زیادہ امکان یہ ہے کہ کسی روز سورج مغرب سے طلوع ہو جائے۔
پھر کیا کیا جائے ؟ اب جو بھی ہونا ہے وہ اپنی مدد آپ کے تحت ممکن ہے۔نام نہاد مادی ترقی کا یہ پورا سرکس پچھلے پانچ سو برس سے بالخصوص سپلائی اور ڈیمانڈ کے اصول پر چل رہا ہے۔اگر ہم بنیادی ضرورت اور سامانِ عیش ( لگژری ) میں تمیز کرنا سیکھ لیں اور اپنے پرکھوں کی طرح بنیادی ضروریات کے پورا کرنے پر ہی یہ سوچ کر قانع ہونا سیکھ لیں کہ اس کے ذریعے ہم کرہِ ارض اور خود پر اور اپنی اگلی نسلوں پر احسان کر رہے ہیں۔
اس سوچ کے سبب مصنوعی ضروریات اور اسی تناسب سے لگژری اشیا کی ڈیمانڈ رفتہ رفتہ کم ہوتی جائے گی۔یوں کرہِ ارض کے جو وسائل غیر ضروری اشیا کی تیاری میں استعمال ہوتے ہیں ان کی مانگ بھی سست پڑتی جائے گی۔کچرہ کم پیدا ہو گا تو آلودگی بھی کم ہو گی۔یوں ہم اب تک اپنے گھر کو اپنے ہاتھوں پہنچے نقصان کی شائد تھوڑی بہت اشک شوئی کر پائیں۔ بصورتِ دیگر اسرافیل تو ذرا پرے ہمارے انتظار میں اپنی گھڑی دیکھ ہی رہا ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ