نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہچکولے کھاتا ہوا اسلام آباد ۔۔۔نذیر ڈھوکی

کوئی مانے یا نہ مانیں پر حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پیارے ملک کی حالت مشہور انگریزی ناول دی اینیمل فارم ہاوس کی طرح دکھائی دے رہی ہے ۔

نذیر ڈھوکی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

2018 کے انتخابات میں کی گئی جادوگری کے باوجود موجودہ حکومت عوامی رنگ سے محروم رہی ہے ، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری جو ایک شاندار تاریخ کے وارث ہیں نے موجودہ قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں عمران خان کو سلیکٹڈ وزیراعظم قرار دیا تھا ، سچ بھی یہ ہے کہ عمران خان بے نامی وزیراعظم ہی ہیں جو اسٹیبلشمنٹ اور نام نہاد قومی احتساب بیورو کی بیساکھیوں پر کھڑے ہیں ان کی ایک بیساکھی یعنی اسٹیبلشمنٹ بدنامی سمیٹ رہی ہے جبکہ دوسری بیساکھی یعنی قومی احتساب بیورو پاوں سے لیکر ناک تک کالک میں لت پت ہے ۔ 28 ستمبر کی صبح صدر آصف علی زرداری اور محترمہ فریال تالپور پر فرد جرم عائد کی جاتی ہے اور دو پہر کو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میان شھباز شریف کو گرفتار کیا جاتا ہے تو مولانا ابوالکلام آزاد کے قول کی یاد تازہ ہو جاتی ہے،

مولانا ابوالکلام آزاد نے فرمایا تھا کہ تاریخ کی ہر بڑی ناانصافی عدالت کی دہلیز پر ہوئی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ صدر آصف علی زرداری اور محترمہ فریال تالپور پر جس الزام میں فرد جرم عائد کی گئی ہے اس کی اصلیت ایک طوطا کہانی سے زیادہ نہیں ہے ، مگر علیمہ خان کی سلائی مشین سے اربوں ڈالر کی آمدنی عقل اور شعور رکھنے والوں حیران و پریشان ضرور کرتی ہے ۔

رہی سہی کسر سابق جنرل کے بیرون ملک منظر عام پر آنے اثاثوں نے پوری کردی مگر قومی احتساب بیورو نے شرم کے مارے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں ۔ ملک کے ایک عام شہری کے میرا شکوہ یہ ہے ہمارے پیارے ملک کی عدلیہ نے کبھی بھی بھٹوز کو انصاف نہیں دیا اگر سابق وزیراعظم کے نواسے اور سابق وزیراعظم کے صاحبزادے کو عدلیہ نہ نانے کے عدالتی قتل کا انصاف دے اور نہ ہی والدہ کے قتل کا تو ریاست کا عام شہری کیسے انصاف حاصل کر سکتا ہے ، 28 ستمبر کو ملک کے سابق صدر پر فرد جرم عائد ہونے اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کو جیل بھجنے سے ہچکولے کھاتے ہوئے اسلام آباد کے اقتدار کو آکسیجن پر تو رکھا جا سکتا ہے مگر اس کو لاحق جمہوری جھٹکوں سے نہیں بچایا جا سکتا ۔

ویسے آپس کی بات جس احتساب بیورو کے چیئرمین اخلاقی امراض کا مریض ہو اور شہزاد اکبر جیسا بہروپیا نگران ہو تو وہ مافیا کے مانند نہیں تو اور کیا ہو سکتا ہے؟

کوئی مانے یا نہ مانیں پر حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پیارے ملک کی حالت مشہور انگریزی ناول دی اینیمل فارم ہاوس کی طرح دکھائی دے رہی ہے ۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ

سپریم کورٹ بار اور پاکستان بار کونسل کی آل پارٹیز کانفرنس کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی کی زیر میزبانی آل پارٹیز کانفرنس نے دو سال سے جاری سیاسی جمود کو پاش پاش کردیا ہے ، مرضی کی حکومت اور مرضی کا احتساب کا فریب بے نقاب ہو چکا ہے ، ایسے حالات میں عوامی شاعر حبیب جالب کی پکار اہل پنجاب کو آواز دے رہی کہ ”

جاگ میرے پنجاب کہ پاکستان چلا

ٹوٹ چکے سب خواب کہ پاکستان چلا ”

آج کی حالات پر حبیب جالب جی ٹی روڈ سے مخاطب ہیں،

کیونکہ ہچکولے کھاتے ہوا اسلام آباد

ان کی زبان سمجھتا ہے ، سندھی ، بلوچی، سرائکی اور پشتو زبان کو سمجھنے کی اس نے زحمت کبھی بھی گوارہ نہیں کی ۔

About The Author