نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حکمرانوں کی سخاوت اور وعدہ ۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

محترم قارئین کرام،، جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے نام سے جو کچھ کیا جا رہا ہے. یا جو کچھ بنایا جا رہا ہے یہ قطعا خطے کے عوام کی ڈیمانڈ نہیں ہے

جام ایم ڈی گانگا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گذشتہ دنوں حکومت پنجاب نے ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا ہے جس کے مطابق جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے 16 محکموں میں سے 8 کے دفاتر ملتان اور 8 محکموں کے دفاتر بہاولپور میں قائم کیے جا رہے ہیں.جس کی تفصیل کچھ اس طرح سامنے آئی ہے.نوٹیفکیشن کے مطابق ملتان سیکرٹریٹ میں محکمہ قانون،محکمہ داخلہ، محکمہ ہاوسنگ اینڈ اربن ڈویلپمنٹ،محکمہ تعلیم، محمکہ صحت،محکمہ پولیس،محکمہ جنگلات،ماہی پروری اور جنگلی حیات، محکمہ زراعت کے دفاتر ہوں گے۔جبکہ بہاولپور سیکرٹریٹ میں ایس اینڈ جی اے ڈی، امیگریشن،فنانس،پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ، بورڈ آف ریونیو، لائیو سٹاک، سی اینڈ ڈبلیو، لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ کے دفاتر ہوں گے۔

محترم قارئین کرام،، موجودہ حکمرانوں نے خطہ سرائیکستان کے عوام کو الیکشن سے قبل جو خواب دکھائے اور ان سے جو وعدے کیے تھے. وہ علیحدہ صوبے کاخواب، نعرہ اور وعدہ تھا. خواب چکنا چور ہوکر ٹوٹ پڑا ہے.اپنا صوبہ اپنا اختیار کا نعرہ لارا بن گیا ہے.وعدہ سیاست کے گندے کنوئیں میں گرکر وفا کی تلاش میں ہنوز سرگرداں ہے. اسے کچھ سجھائی بجھائی نہیں دے رہا. چکنا چور ہونے والے خواب سےجنوبی سیکرٹریٹ نام کی ایک بلا برآمد ہوئی ہے. اس بلا کے سر کا ظہور ملتان میں ہوا ہے جبکہ اس کی ٹانگیں بہاول پور جاکر برآمد ہوئی ہیں. خطہ سرائیکستان کے لوگ اس بلا سے خوف زدہ ہیں. وہ مسلسل چیخ پکار رہے ہیں کہ یہ نہ ہماری منزل ہےاور نہ ہمارا خواب ہے. یہ تخت لاہور کا اپنے قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے مسلط کیا گیا ایک نیا عذاب ہے. ہمیں ٹکڑوں میں بٹا ہوا سیکرٹریٹ نہیں وفاق پاکستان کے اندر دوسرے انتظامی یونٹس صوبوں سندھ، پنجاب بلوچستان، خیبر پختوانخواہ کی طرح اپنا صوبہ سرائیکستان چاہئیے.

سنا جا رہا ہے کہ حکمرانوں کا ملتان سیکرٹریٹ کے لیے جاری کردہ ماڈل کی بلڈنگ کی تعمیر کے لیے متی تل کے علاقے میں سرائیکی وسیب کی مٹی کو تلنے کا پروگرام ہے جہاں تک بہاول پور سیکرٹریٹ کی بلڈنگ کی تعمیر کے لیے علاقے کے چناؤ کا تعلق ہے. بہاول پور کی ریت کو چھانا جا رہا ہے. ابھی تک کوئی جگہ فائنل نہیں ہوئی. وفاقی وزیر چودھری طارق بشیر چیمہ اس منصوبے کو یزمان روڈ پر لے جانے چاہتے ہیں. اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کا اولڈ کیمپس بھی زیر غور ہے. سابق مملکت خداداد ریاست بہاول پور کے نواب صاحب کا دل و جان اور چاہت سے تعمیر کردہ نور محل تو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کے سرور اپنے نورانی لوگوں کے پاس ہے. خیر حکومت اور اُن کی مرضی سے مناسب جگہ کا فیصلہ بھی ہو جائے گا.مجھے آج یہاں اپنے ضلع رحیم یار خان کے سابق ڈی سی او کیپٹن(ر)ظفر اقبال بھی یاد آ رہے ہیں جنھوں نے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ سرکٹ ہاؤس رحیم یار خان کی جگہ اُن سے واگزار کراکر موجودہ بلڈنگ اور سیٹ اپ کو قائم کرکے زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے اس جگہ کو استفادہ کے قابل بنا دیا. سلام کیپٹن (ر) ظفر اقبال تیری سوچ کو سلام.

محترم قارئین کرام،، جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے نام سے جو کچھ کیا جا رہا ہے. یا جو کچھ بنایا جا رہا ہے یہ قطعا خطے کے عوام کی ڈیمانڈ نہیں ہے. اگر کوئی یہ کہے کہ یہ تخت لاہور کے قبضے اور تسلط کو قائم و دائم رکھنے کے لیے ملتان اور بہاول پور میں دو نئی چوکیاں بنائی جا رہی ہیں تو قطعا بے جا نہ ہوگا. پولیس چوکی کے نام سے ہر خاص و عام واقف ہے. اس کی ضرورت کہاں اور کیوں پیش آتی ہے. اس کے مرئی و غیر مرئی کام اور اختیار سے متعلق بھی لوگ اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں. چوکی چوکی ہوتی ہے تھانہ نہیں ہوتا. میرا خیال ہے اس بارے مزید کچھ لکھنے اور سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے.سرائیکی وسیب کی مختلف علمی و ادبی، سماجی و ثقافتی، سیاسی و قوم پرست جماعتوں اور تنظیموں کے لوگوں نے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ سے کٹ کیے جانے والے سرائیکی وسیب کے اضلاع کے دوروں اور وہاں جا کے سیاسی و سماجی سرگرمیوں کاآغاز کر دیا ہے. جن میں ظہور احمد دھریجہ، رانا، فراز نون، مظہر کات وغیرہ ابھی تک سرفہرست دکھائی دے رہے ہیں. بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ ؒ کی پاکستان سرائیکی پارٹی نے گھر کی صفائی ستھرائی اور مستقبل کے سیاسی لائحہ عمل اور پلاننگ کو مکمل کرنے پر یکسوئی سے توجہ مرکوز کر رکھی ہے. سرائیکستان قومی اتحاد کے سربراہ خواجہ غلام فرید کوریجہ نے دھریجہ برادران کے بعد حضرت دلنور نوری پوری کے اس قول پر عمل کرکے اپنے سیاسی کارکنان اور مریدان کو یہ پیغام دیا ہے کہ محفل خوشی کی ہو یا غمی کی ہو. سرائیکی اور سرائیکی وسیب کے دکھ درد کا ذکر ضرور اور ہر حال میں ہونا چاہئیے. ان کی زوجہ محترمہ بی بی کی رسم چہلم کا اجتماع اس بات کی گواہی اور ثبوت ہے. دراصل ایسا عمل صرف ماں دھرتی کے دیوانے لوگ ہی کر سکتے ہیں. یہ ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہے. ولایت کے مقام و درجوں کی طرح دھرتی سے عشق و محبت کے بھی کئی درجے اور مقام ہیں.خیر یہ ایک علیحدہ بحث ہے. اس پر پھر کبھی بات کریں گے.

مظاہروں والا نوجوان مظہر کات بندہ ہے یا جن. اس بارے ضرور پتہ کرنا پڑے گا. گذشتہ دنوں ضلع جھنگ کی تحصیل احمد پور سیال میں سرائیکی صوبے کے حق میں ان کی ریلی کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی.دراصل تنظیمی قلعے کو مضبوط کرکے وسیب کے لوگوں کو باہم جوڑنے، باہمی کوآرڈینیشن اور مسلسل رابطے رکھنے کی ضرورت ہے.اس علاوہ لگ پولنگ کو مکمل ترک کرکے ایک دوسرے کی خبری گیری بھی بہت ضروری ہے. وسیب کی مکمل حدود اور صوبہ سرائیکستان رابطہ مہم کے سلسلے میں سرائیکستان قومی کونسل کے صدرظہور دھریجہ نے سابق سینیٹر ظفر خان ڈھانڈلہ،سابق چئیرمین ضلع کونسل بھکرعلی خان ڈھانڈلہ اور ایم این اے ڈاکٹر افضل ڈھانڈلہ کے بھائی نصراللہ خان ڈھانڈلہ ایڈووکیٹ سے ملاقاتیں کیں،سرائیجستان قومی کونسل کے ظہور دھریجہ کا کہنا کہ تحریک انصاف نے 100دن میں صوبہ بنانے کا وعدہ کیا مگر 800 دن گزرنے کے باوجود صوبے کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا،حکمرانوں نے سول سیکرٹریٹ کا لولی پاپ دیکر وسیب کو ایک دوسرے سے لڑانے کی کوشش کی اور صوبہ بننے سے پہلے وسیب کو لولہا لنگڑا بنادیا اور بھکر،میانوالی،ٹانک،ڈی آئی خان سمیت وسیب کے 11اضلاع مجوزہ سرائیکی صوبے سے نکال دئیے گئے،ہمارا آنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ صوبہ سرائیکستان کی حمایت کریں اور برسراقتدار جماعت سے مطالبہ کریں کہ وسیب کی شناخت اور مکمل حدود پر مشتمل صوبہ بنائیں۔ظفر خان ڈھانڈلہ نے کہا کہ ہم ہر فورم پر وسیب کا اور وسیب کے حقوق کا مطالبہ کرتے آ رہے ہیں اور ڈاکٹر افضل خان ڈھانڈلہ نے قومی اسمبلی کے فورم پر ایک بار نہیں بلکہ بار بار صوبے کا مطالبہ کر کے وسیب کی ترجمانی کی ہے۔نصراللہ خان ڈھانڈلہ نے کہا کہ ہم سرائیکی صوبے کی مکمل حمایت کرتے ہیں اس خطے کے لوگوں کیلئے سرائیکی صوبہ زندگی موت کا سوال ہے،میانوالی بھکر اور جھنگ کو بھی سرائیکی صوبے کا حصہ ہونا چاہئے۔نصراللہ خان ڈھانڈلہ نے کہا کہ تھل کو ڈویژن کا درجہ ملنا چاہئے،تھل میں نئی موٹروے بننی چاہئے،میڈیکل و کیڈٹ کالج کے ساتھ ساتھ تھل یونیورسٹی بھی بننی چاہئیے،بھکر کو سی پیک سے محروم کیا گیا ہے،بھکر سمیت پورے تھل کو ملتان اور میانوالی سی پیک سے لنک ملنا چاہئیے اور تھل میں ٹیکس فری انڈسٹریل زون بننا چاہئیے۔نصراللہ خان ایڈووکیٹ نے یہ بھی مطالبہ کیا وسیب کے لوگوں کو عدلیہ میں ججز کی تعیناتیوں میں حصہ ملنا چاہئیے،وسیب میں سپریم کورٹ کا بنچ ہونے کے ساتھ ساتھ الگ ہائی کورٹ بھی ہونا چاہئیے اور سرائیکی صوبہ بھی بننا چاہئیے۔

محترم قارئین،، یہ سرائیکی وسیب کے لوگوں کی سوچ اور مطالبات ہیں. دوسری جانب آپ حکمرانوں کی سخاوت اور وعدے وفائی کو بھی ملاحظہ فرما چکے ہیں. پاکستان کی دھرتی اور اس کے وسائل ہم سب کے سانجھے ہیں. ہم سب اس کے برابر کے حق دار ہیں. لیکن افسوس صد افسوس تقسیم میں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں ہے. ملک اور وسیب کے وسائل کی بندر بانٹ کا ایک سلسلہ ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا.اپنے حقوق مانگنے والوں کو غداری کے سرٹیفیکیٹ دینے اور فتویٰ فروشی کے سلسلے بند کرکے انہیں حقوق دیئے جائیں.اب نئی چوکیوں کے قیام سے بات نہیں بنے گی. سیکرٹریٹ ضرور بنائیں لیکن سرائیکی وسیب کے جغرافیہ کا خیال کرتے ہوئے علیحدہ صوبے کا بھی اعلان کریں.. متوازن و مستحکم اور خوشحال پاکستان کے لیےمتوازن صوبے ضروری ہیں.

خان پور ضلع رحیم یار خان خطہ سرائیکستان کی دھرتی سے تعلق رکھنے والے معروف سرائیکی شاعر جناب امان اللہ ارشد نے حکمرانوں کے وعدے کے حوالے سے کیا خوب شاعری کی ہے. عوام کے دلوں کی ترجمانی اور حکمرانوں کو ملامت کا کیا مشترکہ انداز ہے.

سو ڈینھ دا وعدہ اج اونکوں یاد ڈیواؤ متاں شرم کرے

اونکوں نیلی اجرک والی کوئی تصویر ڈیکھاؤ متاں شرم کرے

محرومیاں اپنے وسبے دیاں اونکوں ول سنواؤ متاں شرم کرے

جینکوں آپو جان نی شرم امدی اونکوں شرم ڈیواؤ متاں شرم کرے

پنجاب جنوبی نہیں چاہندے نہ ریاست نہ ملتان ہووے

آواز ہے سارے وسبے دی ساکوں صرف سرائیکستان ہووے

About The Author