حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تلخی بڑھ رہی ہے، پنڈی بوائے کی زبان تالو سے نہیں لگ رہی، محض شہرت کیلئے نام اور ذات تبدیل کر لینے والوں سے آدمی کیا شکوہ کرے۔ ایک سفید جھوٹ پر تعمیر ہوئی ذات کا بھرم عمر بھر جھوٹ بول کر رکھنا پڑتا ہے،
تیسری دنیا کے پسماندہ لیکن جعلی ترقی پذیر ممالک کا ہمیشہ سے یہ المیہ رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ایسے بونوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے جو لوگوں کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا کر اُلجھاؤ پیدا کریں۔
ہمارا اصل مسئلہ یا ہوں کہہ لیں مسائل کیا ہیں؟
سادہ سا جواب یہ ہے، لاقانونیت، اقرباء پروری، جہالت کا ننگا ناچ، فرقہ پرستی، غربت، بیروزگاری، کرائے کی تاریخ پر اتراتے پھرنا اور اپنے اصل کو جوتے مارنا،
یہ پل دوپل میں پیدا ہوئے مسئلے نہیں بٹوارے کیساتھ ہی ہمارے گلے پڑے اور تہتر سالوں سے جنگل بن گئے۔ ”بھل” صفائی کون کرے، یہاں کون ہے؟ کوئی بھی نہیں۔
ہماری دستیاب تاریخ؟
فقیر راحموں کہتے ہیں۔ ” آفتاب کو پھانسی چڑھانے اور چاندنی سڑک پر قتل کر دینے سے عبارت ہے”
بات تو سچ ہے ہم نے ہمیشہ اپنے آفتاب مارے، آفتابوں کے قتل سے تاریخ بھری پڑی ہے، لیکن یہاں تاریخ کو کون پوچھتا ہے، جو حاضر ہے یہی بکتا ہے، بس چاٹ مصالحہ زیادہ تیز ہو لذت دہن بھی تو سب کچھ ہے۔
کبھی کبھی مجھے سامت یاد آتے ہیں، پھر ان کی یادوں کو لائبریری سے باہر دکھیل کر کتا ب کھول لیتا ہوں، ہم نے اپنے سامتوں کی قدر نہیں کی، تین عدد سامت تو مجھ طالب علم کو یاد ہیں،
اولاً حسین شہید سہروردی، ثانیاً ذوالفقار علی بھٹو اور ثالثاً ڈاکٹر عبدالسلام۔
یہ جو ہمارے چار اور بنی فضا ہے، یہ ہم نے خود بنائی ہے اور اس میں خودکفیل ہیں۔
دنیا تو پاگل ہے جو ہمارے خلاف سازشیں کرتی ہے حالانکہ ہماری تاریخ کے ہر ورق پر صاف صاف لکھا ہے، ہمیں دشمنوں کی ضرورت نہیں۔
بربادیوں کا سامان تیار رکھنے کیلئے ہم میں سے ہر شخص سائنسدان ہے۔
یاد آیا وفاقی وزیر مراد سعید کل کہہ رہے تھے، وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں عالم اسلام کی نمائندگی کی ،
ہم برسوں سے عالم اسلام تلاش کر رہے ہیں، ہمیں تو ملا نہیں۔ اس تلاش میں فقط ایک بات سمجھ میں آئی وہ یہ کہ ہر مسلم فرقے کا اپنا عالم اسلام ہے، ویسے مراد سعید کو اگر عالم اسلام کا درست ٹھکانہ معلوم ہو تو آگاہ کر کے ثواب دارین حاصل کریں۔
ہمزاد فقیر راحموں کو دو تین اہم کام ہیں اس عالم اسلام سے،
ارے معاف کیجئے گا یہ بات کدھر سے کدھر نکل گئی، ہم تو میدان سیاست میں اُڑتی دھول کے کم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں، مطلع صاف ہو سانس لیا جا سکے تاکہ کچھ عرض کر سکیں۔
فی الوقت تو یہ کہ ہماری آئندہ نسلوں کی ضرورت، ایک حقیقی جمہوری فلاحی مملکت ہے، حقیقی جمہوری فلاحی مملکت جس کا خواب دیکھتے دیکھتے چار نسلیں موت کا رزق ہوئیں۔
(اس حساب میں بٹوارے میں کھیت ہوئے لوگ شامل نہیں ہیں)
ہمارا نجات دہندہ کب آئے گا؟
جب کبھی اس سوال پر ذہن کھپانے کی کوشش کی جواب ملا، نجاب دہندے آسمانوں سے اُترتے ہیں نازمین سے اُگتے ہیں، ہر سماج کا اپنا نجات دہندہ ہوتا ہے، شرط یہ ہے کہ سماج بھی نجات کیلئے تیار ہو۔
اچھا ویسے ہماری تیاری کتنی ہے جبر واستحصال سے نجات کیلئے، ”صفر جمع صفر”۔ علم دشمن سماج میں نجات دہندوں کی گردنیں ماری جاتی ہیں۔
وزیراعظم نے کل للکارا ہے اپنے مخالفین کو اور کہا ہے کہ اپوزیشن استعفیٰ دے میں الیکشن کروا دوں گا۔
اتنے بھولے بھی نہیں اپوزیشن والے 2018 کے انتخابی نتائج کے تلخ تجربات بھگت کر آئے ہیں، ہاں وزیراعظم کو چاہئے کہ وہ بنیادی مسائل کے حل پر توجہ دیں۔ غربت ختم کریں، غریب ختم کرنے کی پالیسیوں کی حوصلہ شکنی کریں۔
روزگار کے مواقع بڑھانے کیلئے اقدامات کریں۔
مہربانی کر سکیں تو بجلی کی قیمت کم کروا دیں، پیٹرول مہنگا ہے، کھانے پینے کی اشیاء عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہیں، مفلوک الحال طبقات کی تعداد بڑھ رہی ہے، کیا کچھ ایسے اقدامات ہو سکتے ہیں جن سے تبدیلی یقینی ہو؟
ان سطور میں ہمیشہ عرض کیا، جمہوریت جیسی بھی ہے لولی لنگڑی، کالی، پیلی اسے چلتا رہنا چاہئے تاکہ آج نہیں تو کل ہم یا ہماری اگلی نسلیں عوامی جمہوریت کا وہ سنہری دور دیکھ پائیں جس میں فرد کے جملہ انفرادی و اجتماعی حقوق کی پاسداری ریاست کا فرض ہو، دھونس اور جبر کیساتھ مسلط استحصالی نظام اور طبقات ماضی کے اندھیروں کا حصہ ہوں۔
کالم یہاں تک لکھ پایا تھا کہ ہمارے دوست اور معروف صحافی ریاض شاکر کے سانحہ ارتحال کا میسج موصول ہوا۔ تحریر نویس 1980 کی دہائی کے چوتھے سال میں تلاش رزق کیلئے لاہور اترا تھا، ریاض شاکر میرے اولین لاہوری دوستوں میں شامل تھے وہ لگ بھگ 1988 میں صحافت کے کوچے میں آئے، پچھلے 32 برسوں سے قلم مزدوری ہی ان کا اوڑھنا بچھونا رہی، عدالتی رپورٹنگ میں یکتا اور درجنوں جونیئرز کیلئے شفیق رہنما تھے۔
پھیپھڑوں کی بیماری نے انہیں چند دن قبل ہسپتال پہنچا دیا، کچھ دیر پہلے وہ اپنے خالق حقیقی سے ملاقات کیلئے روانہ ہوگئے۔
لاہور اور اہل صحافت ایک اچھے انسان، قلم مزدور اور دوست سے محروم ہوگئے۔ سفر حیات طے شدہ ہے لیکن ہم نہیں جانتے سامان سو برس کا رکھتے ہیں مگر اگلے لمحہ پر دسترس سے محروم ہیں۔
مبشر علی فاروق ایڈووکیٹ سائنس کے ارتقاء اور زندگی پر قابو پانے کی بہت ساری وہ کہانیاں سناتے رہتے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ لگ بھگ نصف صدی بعد انہونیاں ہونیاں ہوکر ہونے لگ جائیں گی۔
تنگ آکر کبھی ان سے کہہ دیتا ہوں آپ بھی اب کہانیاں سنا رہے ہیں، جب ہمیں صاف لگ رہا ہے کہ سانس تیزی سے پھسل رہے ہیں، رخصت کا نقارہ بجنے کو ہے،
حرف آخر یہ ہے کہ اہل اقتدار کو اگر ملاکھڑوں، الزامات کی چاند ماری سے فراغت مل جائے تو ابتر ہوتے حالات اور سنگین تر ہوتے مسائل پر ضرور توجہ دیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ