عمار مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نواز شریف ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لینے کی مہم پر جتے ہوئے ہیں۔ ووٹ کو عزت دو کے پیچھے جو مطالبہ پوشیدہ ہے وہ اب اتنا مخفی نہیں رہا۔ سب کو پتہ نواز شریف کیا کہہ رہے ہیں ، کیوں کہہ رہے اور کس کو کہہ رہے ہیں۔ سوال صرف اتنا ہے کہ نواز شریف سب کچھ جانتے بوجھتے، اس ملک کی تاریخ کو سمجھتے ایسا کیوں کر رہے ہیں؟
نواز شریف نے آل پارٹیز کانفرنس میں گفتگو کا آغاز وہیں سے کیا جہاں سے وقفہ شروع ہوا تھا۔ ان کے خطاب کا سب سے اہم جملہ یہ تھا کہ ہمارا ہدف عمران خان نہیں بلکہ ان کو لانے والے ہیں۔ الیکشن میں دھاندلی کروانے والے ہیں۔
نواز شریف نے اپنے عزائم ڈھکے چھپے نہیں رکھے۔ کسی قوت سے خوفزدہ نہیں ہوئے۔ پوری قوت سے وہ بات کہہ دی جس کو سننے کو شاید بہت سے لوگ منتظر تھے۔
جو لوگ سمجھ رہے ہیں کہ یہ بات بھول چوک میں ہو گئی اور معاملات کسی خفیہ میٹنگ میں طے ہو رہے ہیں وہ خواب دیکھ رہے ہیں۔ نہ نواز شریف نے کسی کو میٹنگ کے لیے بھیجا ہے نہ اب وہ خفیہ میٹنگز کے قائل نظر آتے ہیں۔ اب وہ جو بات کہتے ہیں ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں۔
نواز شریف تین دفعہ اس ملک کے وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ اقتدار کے تمام راستوں سے وہ بخوبی واقف ہیں۔ جو شخص تین دفعہ ایک ملک کا وزیراعظم رہ چکا ہو اس کا تجربہ بہت وسیع ہو چکا ہوتا ہے۔ وہ بہت جہاں دیدہ ہو چکا ہوتا ہے۔ اس کو اپنے کہے ہوئے ہر لفظ کی اہمیت کا پتہ ہوتا ہے۔ اپنے ہر نعرے کے ثمرات اور مضمرات کا علم ہوتا ہے۔ اپنی خاموشی کے نقصان کا بھی علم ہوتا ہے اور اپنی آواز بلند کرنے سے وابستہ خطرات سے بھی وہ بخوبی آگاہ ہوتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نواز شریف ملک کی اسٹیبلشمنٹ کی قوت اور نظم کو جانتے ہوئے بھی اس وقت اینٹی اسٹیبلشمنٹ کیوں ہو گئے ہیں۔ میرے خیال میں اس کے پیچھے کچھ ایسی وجوہات ہیں جن کا سامنا نہ پہلے پاکستان کو ہوا ہے نہ اسٹیبلشمنٹ نے اس طرح کا دور دیکھا ہے۔
اینٹی اسٹیبلشمنٹ تحریکیں بلوچستان، کے پی کے اور سندھ میں بہت پرانی ہیں۔ پنجاب سے کبھی اس طرح کی آواز نہیں اٹھی تھی۔ پنجاب ن لیگ کا بھی قلعہ ہے اور اسٹیبلشمنٹ کا بھی۔ نواز شریف کو معلوم ہو گیا ہے کہ ن لیگ کا ووٹر اب صرف ان کی اور مریم نواز کی زبان بول رہا ہے۔
باقی سارے مفاہمت باز اب قصہ پارینہ ہو چکے ہیں۔ پنجاب سے اس آواز کا اٹھنا اس ملک کی تاریخ کا بہت بڑا واقعہ ہے۔ لوگوں نے جس طرح ووٹ کو عزت دو کی پذیرائی کی ہے یہ نواز شریف کی بہادری کی پہلی وجہ ہے۔
دوسری وجہ حکومت کی کارکردگی ہے۔ اب صورت حال یہ کہ غریب غربت تلے پس رہا ہے۔ لوگ بھوک سے خودکشیاں کر رہے ہیں۔ معاشی تنزلی اپنے عروج پر ہے۔ عوام کا غم و غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اداروں کے اپنے نچلے طبقے کے ملازمین اس حکومت کو سرعام کوس رہے ہیں۔
منصوبہ تو یہ تھا کہ ساری خامیوں کا ذمہ دار عمران خان کو ٹھرایا جائے اور سارے ثمرات کوئی اور سمیٹیں۔ لیکن یہ منصوبہ کامیاب نہیں ہوا۔ رہی سہی کسر میاں صاحب نے یہ کہہ کر پوری کر دی کہ ہمارا ہدف عمران خان ہے ہی نہیں۔
اب بات عوام پر واضح ہو چکی ہے۔ بدترین معاشی بدحالی کی وجہ سے اب عوام کے غیض وغضب کو بس ایک چنگاری کی ضرورت ہے۔ عوام کا یہ غصہ نواز شریف کی بہادری کی ایک بہت اہم وجہ ہے۔
نواز شریف کے ووٹ کو عزت دو کے مطالبے کی ایک اور وجہ مولانا فضل الرحمن ہیں۔ مذہبی جماعتیں ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کے مطابق سیاست کرتی رہی ہیں۔ مذہبی جماعتوں کے کارکن کبھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نعرہ زن نہیں ہوئے لیکن اس دفعہ یہ بھی ہو رہا ہے۔ جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔
اب مولانا فضل الرحمن اور نواز شریف ایک پیج پر ہیں۔ ان دونوں کے درمیان پل کا کام مریم نواز کر رہی ہیں۔ مذہبی جماعتوں کے کارکن شاید واحد طبقہ ہے جس سے اسٹیبلشمنٹ بھی خوفزدہ رہتی ہے۔ انہیں چھیڑتے ہوئے ڈرتی ہے۔ مولانا نے جب پارلیمان کی توقیر کا مطالبہ کرد یا تو یہ قلعہ بھی غیر جمہوری قوتوں سے چھن گیا۔
ان وجوہات کو بیان کرنے کا مقصد قطعی یہ نہیں ہے کہ اب اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں سے یکدم کردار ختم ہو جائے گا۔
اس بات میں بہت عرصہ لگے گا ۔ لیکن بقول مولانا ’طبلِ جنگ بج چکا ہے۔‘
اب دیکھتے ہیں میدان کس کے ہاتھ رہتا ہے۔ غازی کون بنتا ہے، شہادت کس کے مقدر میں لکھی جاتی ہے۔ فاتح کون کہلاتا ہے اور مفتوح کی تہمت کس کے ماتھے پر لگتی ہے۔
اس بارے میں حتمی طور پر تو کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ آنے والے چند ماہ پاکستان کے لیے تاریخ ساز ہوں گے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ