حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بحث اس بات پر ہو رہی ہے کہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی دعوت پر ان سے ملاقات کرنے والے پارلیمانی لیڈروں نے ملاقات کے حوالے سے خاموشی کیوں سادھے رکھی اور جب بعض ذرائع نے اپنے پسندیدہ صحافیوں کے ذریعے اس ملاقات کی خبر کو ”پر” لگوائے اور پھر شیخ رشید نے بھی زبان کھولی تو ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے اعتراف کرتے ہوئے ایجنڈے کے فقط اس حصے کا اعتراف کیوں کیا جو خبر نگاروں اور شیخ رشید نے بیان کیا؟۔
یہاں ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر پارلیمانی لیڈروں سے ہی ملاقات مقصود تھی تو پھر صرف پانچ جماعتیں پیپلزپارٹی، نون لیگ، جماعت اسلامی، جے یو آئی اور تحریک انصاف ہی کیوں۔
ق لیگ، ایم کیو ایم، جی ڈی اے، عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ اور بلوچستان عوامی پارٹی کے پارلیمانی لیڈران اس ملاقات میں شریک کیوں نہیں تھے۔
انہیں دعوت دینا غیرضروری سمجھا گیا یا تحریک انصاف کو ان کا نمائندہ؟۔
لیکن عوامی نیشنل پارٹی تو باقاعدہ طور پر متحدہ اپوزیشن میں شامل ہے اور بی این پی مینگل حکومتی اتحاد سے الگ ہو چکی،
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ ملاقات دو وجوہات کے پس منظر میں ہوئی
اولاً حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان بڑھتی ہوئی محاذ آرائی جس میں ایک فریق کا دعویٰ ہے کہ مسلح افواج اس کیساتھ کھڑی ہے اور دوسرا فریق کہہ رہا ہے کہ تحریک انصاف کو لانے والے ہمیں دیوار سے لگا رہے ہیں۔
اطلاع یہی ہے کہ میزبانوں نے اپنے دستوری فرائض اور حدود پر بات کی۔
اور مہمانوں کے شکوے سنے،
اچھا اگر یہ ملاقات حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان تناؤ کم کرنے کیلئے تھی تو پھر اس میں وزیراعظم عمران خان اور وزیردفاع پرویز خٹک شریک کیوں نہیں تھے؟
یہ سوال اس طور بھی انتہائی متعلقہ ہے اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ ملاقات نہیں بلکہ مقبوضہ کشمیر سی پیک اور گلگت بلتستان پر مشاورت وبریفنگ تھی اور یہ کہ گلگت بلتستان کو آئینی طور پر پانچواں صوبہ بنانے کیلئے مشاورت بھی۔
فراہم کردہ خبر کو پتنگ کی طرح اُڑاتے اور بوکاٹا کا نعرہ مارتے دیوانے دوباتیں، جی ہاں کم ازکم دوباتوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں
اولاً 7 ستمبر (عین ممکن ہے پانچ ستمبر ہو لیکن راوی سات ستمبر ہی بتاتا ہے) کو سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے بااختیار نمائندے کی آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقات اور ثانیاً پاکستان بار کونسل کی آل پارٹیز کانفرنس
جس میں کی گئی تقاریر کے حوالے سے ایک مشیر اور دو تین وفاقی وزراء اتنے جذباتی تھے کہ انہوں نے اپنے ایک ساتھی (یہ بھی وزیراعظم کے مشیر ہیں) سے کہا بارکونسل میں کی گئی تقاریر کیخلاف اندراج مقدمہ کی درخواست تیار کریں۔
یہ درخواست تیار نہیں ہوئی یا وزیرداخلہ کے ذریعے پیغام بجھوایا گیا کہ ”مسائل پیدا کرنے کی ضرورت نہیں؟۔
اچھا کیا پیغام انہوں نے بھجوایا جن کی نواز شریف کے نمائندے سے خوشگوار ماحول میں شروع ہوئی ملاقات تلخ ماحول میں ختم ہوئی؟
یا درمیان میں موجود افراد نے؟
ہمارے لئے اس سوال سے زیادہ اہم یہ بات ہے کہ نون لیگ کے قائد میاں نواز شریف اپنے پیغام رساں کے ذریعے یہ کہہ چکے تھے کہ مسلسل کردار کشی بھارتی ایجنٹ کہنے، صاحبزادی پر رکیک حملے اور جعلی مقدمات ان سب پر اب وہ عوام سے براہ راست بات کریں گے۔
جواب ملا غیرقانونی قدم اُٹھانے سے گریز کیا جائے۔ (غیر قانونی قدم کیا ہے؟)
کہا یہ جاتا ہے کہ میاں نواز شریف کے ایلچی کی ملاقات اور اس سے ہونے والی گفتگو کے کچھ دن بعد پاکستان بار کونسل کی آل پارٹیز کانفرنس کی تقاریر اور قراردادوں نے بڑی اپوزیشن جماعتوں کے پارلیمانی لیڈروں سے بالمشافہ ملاقات کی ضرورت کو دوچند کردیا تھا۔
پانچ جماعتوں کے قائدین سے ملاقات کو بریفنگ کا نام دیا گیا۔
یہ بریفنگ ہی تھی تو پھر اس میں تلخی کیوں ہوئی اور کیوں اس ملاقات کا ذکر ہوا جس سے خود شہباز شریف بھی آگاہ نہیں تھے؟
دور کی کوڑیاں لانے اور جھاڑ پلوانے سے جی بہلاتے اینکروں کی بات ایک طرف آٹھا رکھئے اصل سوال یہ ہے کہ آخر وہ کیا وجہ تھی یا ہے جس نے ملاقات کی اہمیت بڑھائی اور ملاقات ہوئی بھی۔ بریفنگ تھی تو یقین دہانیوں کی ضرورت کیا آن پڑی تھی؟
ان دو سوالوں کا جواب یہ ہے کہ میاں نواز شریف کے ایلچی کی گفتگو اور پاکستان بار کونسل میں ہونے والی تقاریر سے یہ تاثر لیا گیا ہے کہ اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کا بیانیہ اور اعلامیہ دونوں حکومت وقت کیخلاف کم اور ”کسی” کیخلاف زیادہ ہوں گے۔
ویسے یہ خدشہ درست ثابت ہوا اور اس سے تازہ تازہ دوبارہ ملازمت حاصل کرنے والوں کے اس موقف کی تائید نہیں ہوتی کہ ملاقات یا بریفنگ میں دو نوجوانوں (بلاول اور اسدالرحمن) کو سختی سے ڈانٹ دیا گیا۔
ارے بھائی وہ تو یقین دہانی کرواتے رہے کہ حکومت کی کارروائیوں کے پیچھے وہ نہیں ہیں اور یہ کہ ہماری پیپلزپارٹی یا نون لیگ سے ذاتی دشمنی ہرگز نہیں۔
سادہ لفظوں میں یہ کہ میزبان (ملاقات یا بریفنگ کے) یہ سمجھ چکے ہیں کہ اگر اپوزیشن نے پارلیمان سے باہر کا راستہ اپنایا تو سڑکوں اور گلیوں میں کیا گفتگو اور تقاریر ہوں گی، سب سے زیادہ تنقید کس پر ہوگی،
زیادہ سہولت سے اگر کوئی سمجھنا چاہتا ہے تو نواز شریف کے ایلچی کی ملاقات، بارکونسل کی تقاریر، ملاقات میں کیے گئے سوالات اور اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس میں بننے والے ماحول اور پھر جاری کئے جانے والے اعلامیہ کو ملا کر پڑھنے کی زحمت کرے سارے سوالات کا جواب آسانی سے مل جائے گا۔
حرف آخر یہ ہے کہ ایک پچھلے کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ ملک میں مارشل لاء نہیں لیکن لاء بھی نہیں ہے پچھلے دو اڑھائی ماہ کے دوران کے “سوا دو تجربات” اُلٹا گلے پڑ گئے ہیں
ان حالات میں صلح صفائی کی ضرورت حزب اختلاف کو نہیں، کسی اور کو ہے۔
ضمنی بات یہ ہے کہ وزیراعظم تو حزب اختلاف والوں کی شکلیں نہیں دیکھنا چاہتے اس لئے تو بریفنگ نما ملاقات کا اہتمام کرنا پڑا۔
”باقی رہے نام خدا کا”۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ