مژدم خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1-ادباء کی آپسی تنقید متن کے بجائے شخصی ہوتی ہے، تنقید تخلیقی سرگرمی تصور نہیں کی جاتی بلکہ ایک نجی و ذاتی حملہ سمجھی جاتی ہے
2- ناقد کی تنقید و تنقیص (nepotistic ) ہوتی ہے، اسی ادیب کے گُن گائے جاتے ہیں جس کے ناقد سے اچھے تعلقات ہوں، یا جس سے ناقد کے اچھے تعلقات ہوں
3- تنقید میں ناقد تنقیدی شعور کے بجائے ذوقی شعور کو بروئے کار لاتا ہے یعنی وہ خود فیصلہ کرتا ہے کہ کیا ادب ہو گا اور کیا نہیں ہو گا بجائے اسکے کہ وہ متن پر یہ کام چھوڑ دے اور متن کو ثابت کرنے دے کھنگالے جانے پر کہ اس میں امکاناتِ معنویت و جمالیات کس سطح و نوعیت تک موجود ہیں
4- ناقد کا تصورِ روایت اردوئی ہوتا ہے یعنی ہمیشہ روایت سے مراد روایتی شاعری ہی ہوتی ہے ناکہ ذہنی ارتقاء کے تناظر میں تاریخی و تہذیبی شعور اور اسکا دورِ حاضر سے تعلق جو ہمیں الیٹ کے ہاں نظر آتا ہے، اسکے بالکل برعکس
5-ناقد اس بات سے بے نیاز ہوتا ہے کہ وہ جس عہد میں رہ رہا ہے اُس عہد کے اپنے لوازمات کیا ہیں اور اس عہد سے توقعات متنی سطح پر کیا ہیں؟
یعنی وہ اس سے نابلد نظر آتا ہے کہ کلاسزم کیا ہے ؟ رمانویت کیا ہے ؟ اور روشن خیالی کیا ہے ؟ اور روشن خیالی کا رد رمانویت کیسے ہے ؟
یا مابعد جدیدیت کیا ہے ؟ جدیدیت کیا ہے ؟ ساختیات پسِ ساختیات کے مقاصد متون سے کس نوعیت کے ہیں اور کن حالات و واقعات کے تناظر میں ہیں
6- ادیب ناقد سے ہم آہنگ ہے مثلاََ وہ انسان کے defining experience کے بجائے خطبیہ شاعری تخلیق کرتا ہے جو بطور ٹکر چلائی جا سکے یا ایسی شاعری جو جلد یاد ہو سکے، بلکہ زیادہ تر ادباء کا خیال یہ ہے کہ اچھی شاعری ہوتی ہی وہ ہے جو دل پر اثر کرے ، اس تعریف کے مطابق تیر و تفنگ و نیزہ بھی ایک طرح کے ادبی فن پارے ہیں
وہ جدید انسان کے بنیادی مسئلے یعنی melancholy کو محبوب کے نہ ملنے سے جوڑتا ہے اور اپنی ساری شاعری میں بس یہ تین باتیں ہی دوہراتا رہتا ہے مختلف طریق سے کہ وہ مل گیا ہے ، وہ نہیں ملا ، وہ کسی اور کو مل گیا ہے ،
جب کہ جدید آدمی کا سب سے بڑا مسئلہ اسکا لایعنی ہونا ہے جسے معنویت درکار ہے ، جو اُسے شاعر ہی دے سکتا ہے
مغرب میں فلسفی اور شاعر کا جھگڑا ختم ہو چکا ہے اور بظاہر یہی لگتا ہے کہ شاعر جیت گیا ہے
جاری ہے
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر