نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نواز شریف کی سیاست کا آغاز یا اختتام۔۔۔عاصمہ شیرازی

سیاسی جماعتیں دیوار سے تو لگ ہی چکیں مگر شاید تاریخ میں پہلی بار مقتدروں نے سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں ڈال کر خود کو بھی دیوار کے ساتھ لگا دیا ہے۔

عاصمہ شیرازی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

کرکٹ کی اصطلاحات میں ایک اصطلاح ہے گیند باؤنڈری سے باہر پھینکنا۔ کیا نواز شریف نے واقعی چھکا مارا ہے؟ نواز شریف نے ایسا کیا کہہ دیا ہے کہ محلے کی عورتوں نے دوپٹے دانتوں تلے داب لیے ہیں۔

ایسا سب کچھ بہت سے سیاست دان پاکستان میں با رہا کہہ چکے۔۔۔ خان عبد الغفار خان سے لے کر ولی خان، عطا اللہ مینگل سے لے کر نواب اکبر بگٹی، فاطمہ جناح سے لے کر جی ایم سید، ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر بے نظیر بھٹو۔۔۔ یہ سب فوج کے سیاست میں کردار کے مخالف رہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں مولانا فضل الرحمن، آصف زرداری اور بلاول بھٹو نے کیا کچھ نہیں کہا مگر نہ دانتوں میں انگلیاں گئیں اور نہ ہی کانوں پر ہاتھ۔

نواز شریف کی تقریر کے دو جملوں نے جیسے سکتہ طاری کر دیا ہے، ’ریاست سے اوپر ریاست اور مد مقابل عمران خان نہیں اُن کے لانے والے‘ نواز شریف نے یہ کیوں کہا؟ کیا کوئی ڈیل نہیں ہوئی یا ڈھیل نہیں ملی؟ کیا نواز شریف اب بھی کسی ڈیل کے چکر میں ہیں اسی لیے اسٹیبلشمنٹ کو دباؤ میں لا کر فیصلہ کروانا چاہتے ہیں؟

ایسے بہت سے سوالات گردش میں ہیں۔ کہنے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کی سیاست دو سال کی خاموشی کے بعد اس تقریر کے ساتھ دفن ہو گئی؟ کیا واقعی ایسا ہی ہے۔

انگشت بدنداں سب اس لیے ہیں کہ کوئی سندھی حمود الرحمن کمیشن رپورٹ عام کرنے کی بات کرتا تو بھلے کرتا، کوئی بلوچ لاپتہ لوگوں کی بات کرتا تو کرتا مگر ایک پنجابی رہنما اس طرح کی بات کرے اور وہ بھی وسطی پنجاب سے تعلق رکھنے والا اور وہ بھی گیٹ نمبر چار کی پیداوار سیاست دان۔۔۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟

میاں صاحب نے بھی شاید اسی ایک بات کا فائدہ اٹھایا ہے۔ کبھی وہ بھی عمران خان کی جگہ تھے۔ کبھی وہ بھی لاڈلے تھے اور اُن کی ایک آنکھ کے اشارے پر جی ایچ کیو صدقے قربان جاتا تھا۔

کیا اُسامہ اور کیا چھانگا مانگا لیکن جونہی نواز شریف سیاسی بلوغت کو پہنچے اور ’سیاسی شناختی کارڈ‘ جاری ہوا وہ اُسی فہرست میں آ کھڑے ہوئے جس میں ’دوسرے‘ غدار پہلے ہی موجود تھے۔

اب ہو گا کیا؟ حزب اختلاف نے اپنے سارے پتے دکھا دیے ہیں۔ دیوار سے لگی حزب اختلاف کے پاس اس کے سوا تھا بھی کیا؟ گریبان پر ہاتھ ہو تو یا آپ پاؤں پڑ جاتے ہیں یا گریبان پکڑنے والے ہاتھ پکڑ لیتے ہیں۔

سیاسی جماعتیں دیوار سے تو لگ ہی چکیں مگر شاید تاریخ میں پہلی بار مقتدروں نے سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں ڈال کر خود کو بھی دیوار کے ساتھ لگا دیا ہے۔

طرز حکومت بدلا نہ ہی گورننس کے مسائل بہتر ہوئے، معیشت اور معاشرت تنزلی در تنزلی کا شکار ہوتی چلی گئی۔ قرضے اور افراط زر قابو میں نہ رہا اور تقسیم گہری ہوتی چلی گئی۔

ہوا یوں بھی کہ صحافت اور سیاست، سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کو محدود کرتے کرتے اتنی جگہ بھی باقی نہ رہی کہ ریاست خود اپنے لیے آواز اٹھا لے۔

اپوزیشن کی گیارہ جماعتیں جن کی بغاوت پہلی بار پنجاب کے رہنما کے ہاتھ ہے۔ ان سب جماعتوں کا ووٹ بنک کروڑوں میں ہے۔ یہ کروڑوں سڑکوں پر نہ بھی آئیں اور چند ہزار بھی نکل آئے تو ان کے نعروں کا محور کون ہو سکتا ہے؟

انقلاب کی کوئی اُمید نہیں رکھنی چاہیے تاہم یہ بھی پہلی بار ہوا ہے کہ ملک کی تمام چھوٹی بڑی جماعتیں ہم آواز ہیں مگر حکمرانوں کے خلاف نہیں بلکہ مقتدروں کے خلاف۔

مصلحت پسند سیاسی جماعتیں کس حد تک آگے جائیں گی یہ سچ اپنی جگہ مگر حال میں زندہ رہنے کا ایک سچ یہ بھی ہے کہ وقت سے پہلے وقت نے بہت کچھ دیکھ لیا ہے۔

میچ آخری اوورز میں ہے اور دونوں اطراف کو جیتنے کے لیے کریز سے نکلنا ہو گا۔ اپوزیشن نکل گئی ہے، گیند باؤنڈری سے باہر جا رہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہمیشہ جیتنے والے میچ فکس کریں گے یا گیند کو باؤنڈری سے باہر جاتا دیکھیں گے۔

About The Author